ہشام سرور، پاکستان کے کامیاب ترین فری لانسر آفس میں بیٹھے ہیں

پاکستان کے سب سے کامیاب فری لانسر ہشام سرور کی کہانی(1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداعوان۔۔۔۔۔
کیا آپ نے فری لانسنگ کی دنیا کے سب سے بڑے نام ہشام سرور کی کہانی سنی یا پڑھی ہے؟
نہیں؟ تو جان لیجئے۔

یہ کہانی اپنے ہر اس دوست کو سنائیے گا جو بے روزگار ہے، جو ملازمت کے چکروں میں پھنسا ہواہے لیکن خوشحال بھی نہیں ہورہاہے، جو ایک ملازم بننے کے بجائےخود اپنا آپ باس بننا چاہتاہے۔

یہ کہانی اسے ضرور کچھ اچھا کرنے کی طرف راغب کرے گی۔ اس کے سارے خواب پورے ہوجائیں گے جو وہ بچپن سے دیکھتا چلاآیا تھا لیکن مجبوریوں کے بھنور میں پھنس کر اس کے سارے خواب ڈوب گئے۔

ہشام سرور کی کہانی جاننے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ پاکستان اس وقت فری لانسنگ کی دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے پر بھارت، دوسرے پر بنگلہ دیش اور تیسرے پر امریکا ہے۔

انڈسٹری میں ہشام سرور کو فری لانسنگ کا مصباح الحق کہاجاتاہے۔ اس کا سبب ہشام سرور کی عمر اور تجربہ ہے۔ وہ گزشتہ 15 برسوں سے فری لانسنگ کے شعبے ہی سے منسلک ہیں۔

ان برسوں کے دوران میں نہ صرف انھوں نے اپنا کیرئیر بنایا بلکہ اپنے ساتھ بہت سے پاکستانیوں کو بلاواسطہ یا بلواسطہ روزگار فراہم کیا اور انھیں مختلف طریقوں سے ان کے پائوں پر کھڑا کیا۔ ان میں آئوٹ سورسنگ بھی ہے یعنی انھوں نے بحیثیت فری لانسر مختلف لوگوں سے کام کروایا۔

ہشام سرور فری لانسنگ کے ساتھ ہی ساتھ نوجوانوں کو اس شعبہ کی تعلیم بھی دیتے رہے ہیں۔
ان کا خواب ہے کہ پاکستان نہ صرف اس شعبے میں فارن ایکسپورٹس میں‌نمایاں ہو بلکہ آئی ٹی کے شعبے میں بھی اس کا بڑا نام ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسا تب ہی ہوگا جب پاکستانی فری لانسرز غیرملکی ایمپلائرز کا اعتماد جیتیں۔

ہشام سرور نے جب فری لانسنگ کے میدان میں قدم رکھا تو ان کا آئی ٹی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس اعتبار سے ان کی کہانی بہت سے ایسے لوگوں کے لئے ہمت افزا ہوگی جو سمجھتے ہیں کہ فری لانسنگ کے لئے آئی ٹی ایکسپرٹ ہوناچاہئے۔

ہشام سرور سے مختلف پروگرامات میں ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنس دان پوچھتے ہیں کہ وہ آئی ٹی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے، پھر وہ کیسے فری لانسنگ کرسکتے ہیں؟

اس کے جواب میں ہشام سرور انھیں بتاتے ہیں کہ وہ خود بھی ایک معمولی سے طالب علم تھے۔ وہ آئوٹ سٹینڈنگ طالب علم ہرگز نہ تھے۔ انھوں نے میٹرک 1992 میں کیا اور ان کے مجموعی طور پر صرف 486 نمبر تھے۔

اچھے نمبر نہ لینے کی وجہ سے انھیں کالج میں آرٹس میں داخلہ ملا۔ پھر انھوں نے ایف اے کیا، بعدازاں بی کام کیا۔ پھر جیسے تیسے کرکے ایم بی اے کرلیا۔ طالب علمی کے اس پورے دور میں انھوں‌نے صرف تین دن کا ایک کمپیوٹرڈپلومہ کورس کیا۔ اور بس! اس کے بعد انھوں‌نے 15 برس تک کامیاب فری لانسنگ کی، اور آج بھی کررہے ہیں۔

ہشام کی کہانی سے سبق ملتاہے کہ اگرہم میں‌سے کسی نے کمپیوٹر ایجوکیشن نہیں حاصل کی تو فری لانسنگ کا میدان ایسے ہی فرد کے لئے ہے۔
(ہشام سرور کی کہانی کا یہ حصہ آپ کو اچھا لگے تو اس کہانی کے آخر میں مختلف آپشنز موجود ہیں، ان کے ذریعے فیڈبیک ضرور دیجئے گا اور کہانی کا اگلا حصہ کل شائع کیاجائے گا۔ پڑھنا نہ بھولئے گا۔)

یہ بھی پڑھیے:
پاکستان کے سب سے کامیاب فری لانسر ہشام سرور کی کہانی(2)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں