خوبصورت عورت کا پورٹریٹ

گمان اور حقیقت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دعا عظیمی۔۔۔۔۔۔۔
وہ ایک مکمل تصویر تھی۔
سانس لیتی ہوئی، وقت نے اس کے نقش و نگار کو ہائی لایٹر کے ساتھ نمایاں کیا تھا۔
اس کی موجودگی کو میں نے مکمل حواسوں کے ساتھ محسوس کیا۔
اس کی صحبت میں بادلوں کی سی نرمی اور غنچوں کی سی شگفتگی تھی۔ خوش قسمتی سے وہ بہت دیر تلک میرے کمرے میں سجی رہی۔ اتنے طویل عرصے تک کہ من و تو کا فرق مٹ گیا۔

جانے اسے یہاں کس نے سجایا تھا، بہر حال اسے ان رنگوں کی آمیزش کے ساتھ یہاں سجانے والا میں ہرگز نہیں تھا بلکہ بہت سی اور نعمتوں کے ساتھ اس کا ہونا بھی میری خوش قسمتی ہی تھی۔
دراصل غور کرنے پر معلوم ہوتا تھا یہاں میرا کوئی کمال تھا ہی نہیں، ہر شے مکمل اور بنی بنائی ہی مجھ تک پہنچی تھی۔

اکثر میں لوگوں کے جانے کے بعد ان کی موجودگی کو محسوس کیا کرتا تھا۔ بس! یہی بات مجھ میں اوروں سے ذیادہ تھی اور میں چیزوں اور لوگوں اور جگہوں سے جلد ہی مانوس ہو جاتا اور انہیں اپنا ہی کوئی حصہ ماننے لگتا تھا مجھے آج تک علم نہ ہو سکا تھا کہ ساری کائنات میرا حصہ تھا یا میں اس کا حصہ؟

ہر طرح کے ماحول سے مطابقت کا ہو جانا بھی ایک عجیب سا عمل تھا جسے میں چاہت سے منسوب کر دیتا جانے یہ چاہت تھی یا کچھ اور!

میں نے محسوس کیا تھا کہ لوگ اس وقت میرے اور بھی قریب ہو جاتے تھے جب وہ میرے پاس نہیں ہوتے تھے کہ بیچ میں وجود کا بھاری پردہ سرک جاتا تھا تو ہم لہروں کوآسانی سے اپنی طرف موڑ کر ایک دوسرے کی صحبت سے لطف اٹھاتے تھے۔

جب وہ چلے جاتے تو وہ لمحے اپنے پیچھے فراوانی سے چھوڑ جاتے۔ قہقہوں کی گونج، بیٹھنے کی وجہ سے پڑنے والی شکنیں، بے ترتیب اشیاء، جیسے کہ نشست و برخاست اور طعام و قیام کے دوران ہونا لازم قرار پاتی ہیں. سگریٹ پینے والوں کی سگریٹوں کے کش کی مہک، یا فطری اور مصنوعی خوشبو جات، جوتوں سے لگ کے آنے والی مٹی، "وہ” ان میں میرے پاس ہی رہتے اور اس کے علاوہ باتوں کی نرم مٹھاس دکھ درد کے نمکین احساسات کا لمس گلدان میں رکھے پانی میں پڑے پھولوں کی طرح کچھ دن تک تو تازہ رہتا ہی ہے تاوقتیکہ مایوس ہو کر انہیں کوڑے دان کے حوالے کرنا ہی پڑے کہ فنا اور تغیر پزیری سے بچنا محال ہے. مقسوم سےتو بھاگا نہیں جا سکتا.

وجود بصورت حجاب ہمیشہ سے حائل رہا کرتے ہیں اور مجھے کثافت کے بغیر لوگوں سے ملنے میں آسانی رہتی تھی کہ بیچ میں جھگڑے کا کوئی امکان ہی نہیں بچتا تھا چونکہ میں فطری طور پہ سکون پرور لہروں سے محبت کا عادی تھا ، لوگ جسے صلح جو کہتے ہیں ایسےلوگ لڑائی اور بحث سے بھاگتے ہیں۔ انہیں ڈر لگتا ہے جیسے کہ پانی کی زوردار لہر انہیں نگل لے گی جیسے کہ وہ کوئی بلبلہ ہوں یا جیسے آنسو بہاتی موم بتی کی لرزتی لو کہ کسی کی ناگوار سوچ کی پھونک سے وہ بجھ جائیں گے حالانکہ یہ سب محض ایک خوف اور ڈر تھا جیسا کہ ڈر بھی ایک گمان ہی ہوا کرتا ہے گمان کبھی رسی کو سانپ سمجھ لینا یا دل کو آئینہ یا کبھی تنہائی میں گھڑی کی ٹک ٹک پہ کسی کے قدموں کی چاپ کا گمان ہونا جو بعد میں ہنسی کا باعث ہوا کرتا ہے.

کسی اداس دن میں کوے کی کائیں کائیں کو کسی مہمان کے آنے سے دل میں خوشی کی کرن پھوٹنے کا گمان، بہر حال گمان کے شہر میں پھول ہی اچھے لگتے ہیں وہ بھی کھلے ہوئے ۔ بالکل اس تصویر میں بنے ہونٹوں کے کھلے غنچے جیسے تشبیہہ استعارہ بھی تو گمان ہی کی صورتیں ہیں جو شعرو ادب میں ہنر سے برتی جاتی ہیں اور شگفتگی سے انہیں قبول کیا جاتا ہے.

ایسا نہیں تھا کہ یہ سب احساسات میری تنہائی کا گمان تھے…

سچ تو یہ ہے کہ تنہائی میرا خوف تھا نہ گمان ….کیونکہ میں نے خود کبھی تنہائی کا تجربہ کیا ہی نہ تھا…بس اسے سن رکھا تھا کہ یہ اچھی شے نہیں ہوتی مگر جو بھی تھی میں چاہتا تھا کہ میں تنہائی کو تجربہ کروں، پر وہ شخص تنہائی کو کیسے تجربہ کر سکتا ہےجو لوگوں کے جانے کے بعد ان سے زیادہ قریب ہو جائے اور بارش کے گزرنے کے بعد اس کی خوشبو اور قطروں کو من میں جذب کرنے کا ہنر رکھتا ہو…. کہہ سکتے ہیں کہ کتابوں کے زندہ حرف مجھے اپنے گھیرے میں رکھتے تھے الجھاتی تھی تو بس یہی تصویر
جو میرے ساتھ رہتی تھی۔ میں اس کی ماہیت سے آزاد ہونا چاہتا تھا تاکہ کسی روز تنہائی کا تجربہ کر سکوں..

تنگ آ کےمیں نے یہ تصویر اتاری اور اپنے لحاف میں چھپا دی ۔
مگر جلد ہی محسوس ہوا کہ تصویر کی آنکھ پہ لگے چشمے کے شیشوں پہ دھند تھی….
میں نے دھند صاف کی مگر جیسے ہی سانس لیتا تصویر کے چشمے کے شیشے پر دھند چھا جاتی…..

مطلب سانس لینے تک وہ میرےساتھ تھی……گویا مجھےتنہائی کی لذت سے محروم ہونے کا عندیہ مل چکا تھا اس تجربے کے لیے اب ایک ہی لمحے کا انتظار واجب تھا کہ کب سانس کی ڈور ٹوٹے.
کیا لوگ مرنے کے بعد بھی. …..مجھے تنہا رہنے دیں گے……؟تصویر مسکرائی۔
مشکل ہے….گمان غالب تھا…

کیا میں تھا یا میں بھی میرا گمان ہی تھا۔ تصویر میرے سوال کا جواب نہیں دیتی تھی…بس ماں کی طرح ہنس کے ٹال دیتی تھی جیسے کہ میری ماں کو گمان تھا کہ اس کابیٹا بہت نازک مزاج ہے اور ساری دنیا سے ذیادہ پیاراجیسے کہ ساری ماؤں کو ہوا کرتا ہے۔ اس سے بڑی تو کوئی حقیقت ہی نہیں کم از کم یہ گمان نہیں تھا.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں