پاکستان میں تیار شدہ جینز کا ٹیگ

آئیے ! برآمدات کا کاروبار کریں اور خوشحالی پائیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل :

کبھی کارفور دوبئی یا شارجہ میں دوستوں اور گھر والوں کیلئے تحائف خریدتے ہوئے، کبھی لولو قطر کی شیلفوں پر کھانے پینے کے سربمہر پیکٹوں پر اجزاء اور مصنوعہ پڑھتے ہوئے، کبھی استنبول کے مائگروس میں چمچماتی، رجھاتی اشیاء کی ہئیت اور قیمتوں کا تقابل کرتے ہوئے، کبھی بن داؤد میں قطار اندر قطار لگی الماریوں کے شیلفوں میں سجی بیش قدر اشیاء کے ٹیگ پلٹتے ہوئے، کبھی مصطفی سٹورز سنگاپور میں آباد ایک اشیائے ضرورت وتعیش کے ایک جہان میں نت نئی اشیاء کو حیرت سے دیکھتے، الٹتے پلٹتے بس ایک ہی خواہش جی میں ابھرتی ہے. کہ کاش ! کہیں چھوٹا سا فقرہ دیکھنے کو مل جائے:
Made in Pakistan
مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ.

آپ کو فلپائن، ویت نام ، بنگلہ دیش حتی کہ لبنان تک کی بنی اشیاء نظر آتی ہیں مگر دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت، آبادی کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک، کپاس کی پیداوار کے حساب سے چوتھا بڑا ملک، دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک، گنے کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں نمبر پر. خوبانیوں کی پیداوار کے حساب سے ساتواں بڑا ملک، پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹا بڑا ملک، آموں کی پیداوار کے حساب سے پانچواں بڑا ملک، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹا اور کھجوروں کی پیداوار میں چھٹا بڑا ملک، نمک کی دنیا کی سب سے بڑی کان. کوئلے کا دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ. گرم پانیوں کے ہزاروں میل لمبے ساحل، پانچ موسموں کے باوجود کسی مال، کسی سٹور تو کیا کسی ڈھابے پر بھی کوئی بھی چیز ٹوتھ پک، مسواک، دھاگے کی نلکی تک بھی پاکستان کی بنی ہوئی نظر نہیں آتی.

اتنے وسائل کے باوجود کسمپرسی کا یہ عالم کہ سالانہ فی کس آمدنی میں دوسو ملکوں میں ہمارا ایک سو چون نمبر ہے، کیا وجہ ہوسکتی ہے.کبھی غور کیجئے. حرم پاک کے سامنے کی عمارتوں میں خریداری کے لئے بنائی گئی دکانوں میں جہاں کہیں پیتل کی بنی نمائشی اشیاء نظر آتیں، ہم شوق سے اٹھا کر دیکھتے، میڈ ان انڈیا لکھا دیکھ کر دل بجھ جاتا.

دو سال قبل لاہور کے ایکسپو سنٹر میں ایک نمائش میں بالکل ویسی دھات کی بنی ہوئی نمائشی اشیاء دکھائی دیں ،خوشی ہوئی. فوراً سٹال پر موجود شخص سے رابطہ کیا کہ بھائی! یہ تم بناتے ہو؟ کہنے لگا : جی، ہم دہائیوں سے بنارہے ہیں، ہمارا خاندانی کام ہے. پوچھا تو اس کو سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کیوں نہیں بجھواتے؟ کہنے لگا: ہم یہاں تک پتہ نہیں کیسے پہنچے ہیں، ہمیں کیا پتہ سعودی عرب میں کیسے بھجوانا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے.

یہ صرف ایک شعبہ کی مثال ہے. ہر شعبہ کا یہی حال ہے. کام تو کچھ نہ کچھ ہر شعبہ میں ہورہا ہے مگر قابلیت اور علم واعتماد کی کمی برآمدات میں حائل ہے. ہمارے نوجوان جو فارغ التحصیل علم ہوئے ہیں ان سے گزارش کرتے ہیں کہ ایکسپورٹ کا علم حاصل کریں.

اس سے پہلے بھی ہم کئی بار سرکاری اور نجی جامعات کے صاحبانِ اختیار سے گزارش کرچکے ہیں، ایک بار پھر کرتے ہیں کہ فارن ٹریڈ کی ڈگری اور کورس ڈیزائن کیا جائے اور نوجوانوں کو باقاعدہ تعلیم وتربیت دی جائے کہ وطن عزیز میں بننے والے مال کو باہر کیسے بھیجا جائے.

ہمارے ایک جاننے والے ہیں، لاہور میں، انہوں نے یو ای ٹی سے انجینئرنگ کی ہے مگر انجینئرنگ کوئی نوکری کرنے کی بجائے انہوں نے انجینئرنگ سے متعلقہ مختلف اشیاء برآمد کا کاروبار کرنے کا فیصلہ کیا.

یورپ، امریکہ،مشرق وسطیٰ، ایشائے کوچک اور ترکی وغیرہ کے مختلف انجینئرنگ کے اداروں اور دکانداروں کے سی میل تلاش کرکے ان سے رابطہ کیا۔ اپنا کمپنی کا تعارف انہیں بھجوایا. تسلسل کے ساتھ رابطہ کرتے رہے. سینکڑوں لوگوں کو ٹیلیفون بھی کیے. اور ساتھ ہی ساتھ ان کا ریکارڈ بھی مرتب کرتے رہے.

دنیا بھر کی بی ٹو بی سائٹس پر اکاؤنٹ بنائے اور آخر کار ان کو پہلے انکوائریز اور پھر آرڈر ملنا شروع ہو گئے. قریب دس سال ہوئے ہیں، اب ہر ماہ ایک، دو کنٹینرز یورپ، ترکی یا افریقہ جاتے ہیں. درجنوں فیکٹریوں میں ان کا کام ہوتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ سارا کام انہوں نے اپنے سرمایہ کے بغیر کیا ہے. یعنی جو آرڈر ملتے ہیں انکے ساتھ جو ایڈوانس رقم ملتی ہے اسی سے سب نظام چل جاتا ہے.

آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں. بس مایوسی کی چادر اتاریں. ہمت کریں. یاد رکھیں جب تک ہماری برآمدات، ہماری درآمدات سے نہیں بڑھتی ہم کبھی خوشحالی کی حقیقی دستک نہیں سن سکتے. اٹھیں،ہمت کریں اپنے لیے اپنے پیارے دیس کیلئے. آئیں برآمدات کرنا سیکھیں آئیں خوشحال ہوئیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں