مرغیوں کے انڈے

اب مرغیاں پلاسٹک کے خول والے انڈے دیاکریں گی؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل۔۔۔۔۔۔۔
جینیاتی تغیر یا genetic transformation ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت دنیا میں بسنے والی مخلوقات ماحول کے حساب سے اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں. آپ نے یہ فقرہ تواتر کے ساتھ سنا ہوگا کہ جراثیم طاقتور ہوگئے ہیں دوا اثر نہیں کرتی. یہ جراثیموں کی دواؤں کے خلاف قوت مدافعت اسی جینیاتی تغیر کا شاخسانہ ہوتا ہے. جراثیم کسی ایک دوا کے ساتھ مسلسل زیادہ عرصہ گزارنے پر اپنے ڈی این اے میں ضروری ردوبدل کرلیتے ہیں جس سے اس خاص دوا کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جاتی ہے. اسی طرح انسانوں میں کینسر کے خلیات کا وجود میں آنا بھی ایسی ہی مقامی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوتا ہے.

اب تک کی گئی تحقیق سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ عام طور جینیاتی تغیر کا عمل چھوٹے یک خلوی جانداروں یعنی بیکٹیریا اور خوردبینی جانداروں میں زیادہ ہے. اور بڑے جانداروں میں نسبتاً کم جبکہ انسانوں میں انتہائی کم.

آج کل ہم جس عہد میں جی رہے ہیں اسے ہم بلا جھجک پلاسٹک کا عہد کہہ سکتے ہیں. ہماری زندگیوں میں پلاسٹک کا استعمال اور اس کی اہمیت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اس کے بغیر پرآسائش زندگی کا تصور بھی محال ہے. ظاہر ہے کہ اس پلاسٹک کا اثر ہمارے ماحول میں رہنے والے دوسرے جانداروں پر بھی پڑا ہے. انہوں نے اس کے ساتھ رہنے اور اس کے اپنی زندگیوں پر بداثرات سے بچنے کیلئے خود میں جینیاتی تغیر شروع کیا ہے. جس کی مثالیں تواتر سے آرہی ہیں.

2013 میں پہلی بار کینیڈا میں دیکھا گیا کہ ایک جنگلی شہد کی مکھی نے اپنے چھتے میں پلاسٹک کے ٹکڑوں کا استعمال کیا ہے. وہ بڑے ہی سلیقہ سے کاٹ کر مکھیوں کے گھروں کے اندر لگایے گیے تھے. اسی طرح پچھلے سال ایک جنگل سے شہد کی مکھیوں کے تین چھتے ملے جو پلاسٹک کے ٹکڑوں کو جوڑ جوڑ کربنائے گئے تھے.

مگر چند ہفتے قبل "نیشنل جیوگرافک” میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ نے تو سائنسدانوں کو تقریباً ہلا کر رکھ دیا ہے. فرانس میں ایک قسم کی شہد کی مکھیوں کے چھتے ملے ہیں جو مکمل یعنی سو فیصد پلاسٹک کے بنے ہیں. ابھی یہ بات طے ہونا باقی ہے کہ پلاسٹک ماحول سے حاصل کیا گیا ہے یا شہد کی مکھیوں نے موم کی جگہ قدرتی پلاسٹک بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی ہے.

اگر یہ پلاسٹک قدرتی ہوا کہ جس کا غالب امکان ہے تو پھر ہم اپنے ماحول کے جانداروں میں بہت بڑی جینیاتی تبدیلیوں کیلیے تیار رہنا چاہیے. عین ممکن ہے کہ کراچی میں حالیہ دنوں میں پلاسٹک کے انڈوں کا جو شور ہوا تھا وہ بھی ایسی ہی کسی جینیاتی تبدیلی کا شاخسانہ ہو.

ہوسکتا ہے مستقبل قریب میں واقعی مرغیاں پلاسٹک کے خول والے انڈے دینا شروع کردیں.کیسا مزا ہو ناشتہ میں انڈے کھائیں اور ہفتہ بھر کے چھلکوں سے عینک کا فریم بنالیں. یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے آج کے اس تخیل کے بعد کوئی جینیاتی ماہر اس پر تحقیق شروع کردے اور چند سال بعد مرغیوں کی ایسی نسل تیار ہوجائے جو پلاسٹک کے خول والے انڈے دینا شروع کر دے

لیکن اس بات کا ہمیں یقین ہے کہ یہ یا ایسی کوئی بھی تحقیق وطن عزیز میں نہیں ہوگی کیونکہ ہمیں ابھی یہ تحقیق کرنا ہے کہ دھرنا کیسے دیا جائے اور کیسے روکا جائے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں