’’اب کسی میڈیا ادارے یا صحافی کو پابند کرنا زیادہ آسان نہیں رہا‘‘، ڈاکٹرثاقب ریاض

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد………
ایک عرصہ سے شکایات سننے کو مل رہی تھیں کہ پاکستان کی کسی یونیورسٹی سے شعبہ صحافت کی اعلیٰ ترین ڈگری لینے والا فرد کسی اخبار، ٹی وی چینل اورنیوزایجنسی میں بیٹھ کر ایک چھوٹی سی خبربنانے یا اسے سیدھا نہیں کرسکتاتھا، تعلیمی ادارے میں پڑھایاجانے والا سبق آج کسی میڈیا ادارے میں مفید ثابت نہیں ہوتا۔ اس سے بڑا المیہ تھا کہ اس ایشو کا کسی کو ادراک ہی نہیں تھا، ان حالات میں بہت سوں کی طرح میں بھی مایوس تھا۔ تاہم گزشتہ دنوں ڈاکٹرثاقب ریاض سے ملاقات ہوئی تو میری مایوسی امید میں بدل گئی، بھلاکیسے؟ آئیے! بتاتاہوں۔

ڈاکٹرثاقب ریاض، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے چئیرمین ہیں، ایک اردو کتاب’جدید صحافت اور ابلاغ عامہ‘، دوانگریزی کتب’Media-Government Relations in Pakistan‘اور’Agenda Setting Role of Media in Pakistan‘ کے مصنف اپنی یونیورسٹی کے بارے میں بتارہے تھے:

’یہ یونیورسٹی 1974ء میں قائم ہوئی تھی، اس کا کریڈیٹ ذوالفقارعلی بھٹو کوجاتاہے، انھوں نے ’پیپلزاوپن یونیورسٹی‘ کے نام سے یونیورسٹی بنائی گئی تھی،مقصد ملک کے اُن لوگوں کو بھی اعلیٰ تعلیم تک رسائی دلانا تھا جوکسی نہ کسی وجہ سے رسمی نظام میں اعلیٰ تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے تھے۔ یہ تجربہ بہت کامیاب تھا۔ یہ دنیا کی دوسری فاصلاتی تعلیم فراہم کرنے والی یونیورسٹی تھی،اس سے پہلے ایک کامیاب تجربہ برطانیہ میں ’برٹش اوپن یونیورسٹی‘ کے نام سے ہوچکاتھا ۔ اِس وقت یونیورسٹی کے طلبہ وطالبات کی تعداد 15لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، یہاں میٹرک سے پی ایچ ڈی تک کے پروگرام ہوتے ہیں۔ہم نے ایم ایس سی پروگرام میں صحافی خواتین وحضرات کے لئے کچھ نشستیں رکھی ہوئی ہیں، یہ مطالبہ بھی سامنے آرہاتھا کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لئے بھی صحافیوں کے لئے نشستیں مختص کی جائیں، چنانچہ ہم نے ایک مکملایم فل پروگرام شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لئے شروع کیاہے جسے ’ایم فل پروفیشنل ٹریک‘ کہتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹرثاقب ریاض کا تعلق ضلع اٹک، تحصیل پنڈی گھیب کے ایک گاؤں ’ملہووالا‘سے ہے، یہ گاؤں تین اضلاع راولپنڈی، چکوال اور اٹک کے سنگھم پر ہے، ابتدائی تعلیم گاؤںہی کے پرائمری سکول میں حاصل کی، مزید تعلیم کے لئے فتح جنگ آنا پڑا، راولپنڈی کے گورنمنٹ کالج اصغر مال سے بی اے اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ ایم اے صحافت میں داخلہ لیا، ان کے اساتذہ میں بڑی بڑی قدآور شخصیات تھیں، ڈاکٹر مسکین علی حجازی جن کا شمار پاکستان میں شعبہ صحافت درس و تدریس کے بانیوں میں سے ہوتا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر شفیق جالندھری، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، ڈاکٹر مجاہد منصوری۔ کہتے ہیں:’’ معروف صحافی حامد میر مجھ سے ایک سال آگے جبکہ آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس ایک سال پیچھے تھے۔ایم اے کرنے کے بعد اسلام آباد سے شروع ہونے والے ایک اخبار سے منسلک ہوا، جہاں نئے نوجوان صحافیوں کا ایک گروہ تھا جن میں حامد میر کا نام قابل ذکر ہے، وہ ڈیڑھ دو سال تک ہمارے ایڈیٹر رہے، ہم نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ جاوید چودھری، ندیم ملک، جنید سلیم، افضل بٹ، طارق چودھری، فاروق فیصل بھی ہمارے ساتھ تھے، قربان انجم اور ہارون الرشید بھی ان کے ساتھ میرا بہت اچھا تعلق تھا ۔قدرت اللہ چودھری بھی ہمارے ایڈیٹر رہے۔ وہاںکام کرنے کا تجربہ مجھے یہاں یونیورسٹی میں بہت کام آیا‘‘۔

پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے ابلاغ عامہ میں چند ایک ہی ایسے اساتذہ ہوں گے جن کا عملی صحافت کا تجربہ ہو، ڈاکٹرثاقب ریاض ان میں سے ایک ہیں، وہ کہتے ہیں:’’ یونیورسٹیوں کے شعبہ ابلاغ عامہ میں جو بھی اساتذہ تعینات کیے جائیں، وہ ایک یا دو سال کا کسی میڈیا ادارے میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہوں۔ جنھیں ایک دن بھی کام کرنے کاتجربہ نہیں ہوتا وہ صحیح معنوں میں نہیں پڑھا سکتے، یا پھر ان کے لیے لازم کر دیا جائے کہ وہ تعیناتی کے بعد ان اداروں میں چھ یا سات مہینے کام کریں تاکہ انھیںمعلوم ہو کہ ٹی وی چینلز، نیوز ایجنسیوں اور اخبارات میں کیسے کام ہوتا ہے‘‘۔

ڈاکٹرثاقب ریاض کہتے ہیں: ’’ہم یونیورسٹیوں اور میڈیا اداروں کے درمیان خلیج کو کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں،اس سے پہلے طلبہ وطالباتیہاں سے ڈگریاں لے کر اخبارات اور ٹی وی چینلز کے دفاتر میں پہنچتے تھے تو بہت سی باتیں ان کے لئے نئی ہوتی تھیں، انھیں اپنی تعلیم کا بہت زیادہ فائدہ نہیں ہوتاتھا، ہم نے انٹرن شپس ضروری کی ہیں، پچھلے ڈیڑھ دو برس کے عرصہ میں تقریباً20 سیمینارز منعقد کرائے جن میں چوٹی کے تمام اخبارنویسوں، اینکرپرسنز اور تجزیہ نگاروں کو مدعو کیا۔ نتیجتاً ہمارے طلبہ وطالبات میں بہت اعتماد پیداہوا، سینئر صحافی حضرات کے بھی شکوک وشبہات بھی بڑی حد تک دور ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں ہوتاہے کہ شاید اس یونیورسٹی میں باقاعدہ کلاسز نہیں ہوتیں، ہم انھیں تفصیل سے اپنیسرگرمیوں اور طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہیں‘‘۔

ڈاکٹرثاقب ریاض 1995ء میں بطور لیکچررعلامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے منسلک ہوئے، عملی صحافت اور تدریسی صحافت کو تین چار سال تک اکٹھے چلایا، پھر1999ء میں سوچاکہ شاید دو مختلف ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر رہے لہٰذا عملی صحافت چھوڑ دی اور مکمل توجہ یونیورسٹی میں پڑھانے پر مبذول کردی۔2004ء میں یہاں سے ایم فل اور 2009ء میں پی ایچ ڈی کی، جرمنی سے ایک صحافت کی ٹریننگ کا موقع بھی ملا، کہتے ہیں:’’ہم نے یورپ کے میڈیا کے اداروں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال دیکھا، اخبارات کے دفاتر میں بڑے بڑے روبوٹ کاغذوں کے بڑے رم اٹھا کر پرنٹنگ مشینوں پر لگا رہے تھے۔ پاکستان میں اب تک ویسی ٹیکنالوجی نہیں آئی ،اس وقت پاکستان میں جدید ترین پرنٹنگ پریس مشینیں ہیں جو پرنٹ بھی کرتی ہیں، کٹنگ بھی، فولڈنگ بھی اور بنڈل بھی بناتی ہیں۔

یہ مشینیں ہم نے اُن دنوں جرمنی میں دیکھی تھیں، وہاں میڈیا کے ادارے اپنے ہی دفتر کے اندر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کرتے ہیں، یوں نئے آنے والے صحافیوں کی تربیت کرتے ہیں، تھوڑے تھوڑے عرصے بعد پہلے سے کام کرنے والوں کے لیے بھی ریفریشر کورسز ہوتے ہیں، کوئی نیا سافٹ وئیر آتا ہے تو وہ اپنے عملے کے لوگوں کو اس کا استعمال سکھاتے ہیں،یوں وہ اپنے عملے کو نئی صلاحیت دیتے ہیں تاکہ وہ بہتر کارکردگی دکھا سکیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک اخبار کے دفتر میں ورلڈ اکانومی پر کورس کرایا جا رہا تھا، ایک دوسرے کورس میں صحافیوں کو بتایا جا رہا تھا کہ اخبار کی سرخی کے اندر کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی کیسے دیے جاسکتے ہیں‘‘۔

اس لمحہ ڈاکٹرثاقب ریاض کو ایک پاکستانی اخبار کی شاندار سرخی یاد آئی: ’’جب پاکستان میں دھرنا چل رہا تھا تو اسلام آباد کے راستے کنٹینروں سے بند کر دیے گئے تھے تو ’ڈان‘ والوں نے صرف دو لفظوں کی ایک سرخی لگائی تھی:’’ Capital contained ‘‘جس میں طنز بھی تھا، حکومت پر تنقید بھی اور مزاح بھی تھا، اس میں معلومات بھی تھی کہ کنٹینروں سے راستے بند کر دیے گئے ہیں‘‘۔ ڈاکٹرثاقب ریاض کو اعزاز حاصل ہے کہ ہائر ایجوکیشن نے انھیں ایک سال کا پوسٹ ڈاکٹریٹ سکالرشپ دیا تو انھوں نے امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی میں داخلہ لیا، وہ وہاں تدریسی اور تحقیقی سرگرمیوں سے منسلک رہے، ریسرچ پراجیکٹ کیے، بعض کلاسز کو پڑھانے اور لیکچر دینے کا بھی موقع ملا، امریکا کے دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جانے اور طلبہ و طالبات سے ملاقات کا موقع ملا۔

ڈاکٹر ثاقب ریاض نے 50کے قریب ریسرچ آرٹیکلز لکھے جو دنیا بھر کے اچھے ریسرچ جرنلز میں شائع ہوئے اور کورس کی کتابوں میں بھی شامل ہوئے، دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات ان سے استفادہ کرتے ہیں، دنیا کے مختلف حصوں کے طلبہ و طالبات ان سے ا پنے معاملات ڈسکس کرتے ہیں، رہنمائی لیتے ہیں، یوں ان کا عالمی سطح پر بھی نیٹ ورک چل رہا ہے۔

آج کی صحافت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

’’ہمیں آج کی صحافت کی صورت حال کا جائزہ لینے سے پہلے سترسال کا جائزہ لیناچاہئے، بڑی تبدیلی سن 2000ء کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی صورت میں آئی،اس سے صحافت کا تصور ہی بدل گیا، اس کا معاشروں اور حکومتوں پراثرورسوخ قائم ہوچکا ،اس سے پہلے الیکٹرانک میڈیا صرف پی ٹی وی اور ریڈیوپاکستان تھا، وہ حکومتی ملکیت کے ادارے تھے اور آج بھی ہیں۔ اس سے پہلے اخبارات کی اہمیت زیادہ تھی، تقریباً تمام اخبارات نجی شعبے میں رہے ہیں، حکومتی شعبے میں جو اخٰبارات چلے وہ ناکام ہی رہے۔

پھربہت سے قوانین نافذ کردئیے گئے جس کی وجہ سے سچ بولنا مشکل ہوگیا، سنسر شپ رہا، مارشل لا کی حکومتیں رہیں۔ ہمارا میڈیا مشکل حالات سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہے، آج آزادی کا دور ہے، اب کسی میڈیا ادارے یا صحافی کو پابند کرنا زیادہ آسان نہیں رہا، یقیناً آج بھی پابندیاں ہیں لیکن ان کی شکل وصورت تبدیل ہوچکی ہے۔ دیگر عوامل بھی داخل ہوچکے ہیں، پہلے کہاجاتاتھا کہ صحافت ایک مشن ہے لیکن موجودہ دور کی صحافت کمرشلائزڈ صحافت ہے، اس میں ترجیح کاروباری مفادات ہے، ان کی اہمیت ادارتی معاملات سے زیادہ ہوتی ہے۔ اخبار کا مواد ہو یا ٹی وی کا ، اس پر کاروباری ترجیحات اثراندازہوتی ہیں۔آج کی صحافت اس سے آزاد نہیں ہوسکتی‘‘۔

کیاکبھی کمرشلائزیشن سے واپسی ہوسکتی ہے؟

’’امریکا میں ذرائع ابلاغ کے بڑے اداروں کی ملکیت بھی کاروباری اداروں کے پاس ہے، اس کے بدلے میں ان کی حکومتوں تک رسائی ممکن ہوتی ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی رجحانہے، تاہم یونیورسٹیوں کے اندر درس وتدریس، تحقیقی پراجیکٹس اور مختلف سماجی فورمز میں اس رجحان کی مذمت ہوتی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اخبار اور ٹی وی چینل کو چلانے کے لئے بہت سے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جو عام آدمی برداشت نہیں کرسکتا۔ امیدہے کہ آنے والے دور میں ٹیکنالوجی کے میدان میں مزید جو تبدیلیاں آئیں گی، ترقی ہوگی، ان کی وجہ سے یہ اثرات کم ہوں گے‘‘۔

سوشل میڈیا بڑاانقلاب

’’آج سوشل میڈیا کا بڑا انقلاب رونماہوچکاہے، بعض اوقات محسوس ہوتا کہ روایتی میڈیا یعنی اخبارات ، ٹی وی چینلز کی اہمیت کم ہوگئی ہے، ٹی وی چینلز کے آنے سے اخبار خریدنے اور پڑھنے کا رجحان کم ہوا تھا، الیکٹرانک میڈیا بہت بڑی تبدیلی تھی۔ اس کے بعد کوئی سوچ نہیں سکتاتھا کہ کوئی ایسی چیز بھی آئے گی جو ٹی وی چینلز کی اہمیت بھی کم کردے گی، وہ سوشل میڈیا کی صورت میں آگئی ہے۔ پہلے کمپیوٹر اور لیب ٹاپ کھولناپڑتاتھا، اب اس کی بھی ضرورت نہیں،سب کچھ موبائل فون میں آگیاہے۔ معاشرے میں سمارٹ فون ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کا اس قدر زیادہ پھیلاؤ ہواہے کہ وہ ناقابل بیان ہے۔میں جب 2012 ء میں ایک سال کے لئے امریکاگیا تو اس وقت میں نے پاکستان میں کسی کے پاس سمارٹ فون نہیں دیکھاتھا۔ میں نے امریکا میں زیادہ تر لوگوں کے پاس سمارٹ فون دیکھا تو حیرت ہوئی، ایک سال بعد واپس اپنے ملک میں آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ70، 80 فیصد لوگوں کے پاس یہ فون موجود تھا۔ اب مزید مقبول ہوگیاہے۔ اب ہرشخص صحافی،سٹیزن جرنلسٹ بن گیاہے، جو مرضی لکھیں‘‘۔

آئیڈیل صحافی کیسا ہوتا ہے؟

’’ دنیا میں بہت سے آئیڈیل صحافی موجود ہیں، جنہوں نے بڑی محنت کی اور نام کمایا، ان کی تحریروں اور خبروں سے معاشرے کی کایا پلٹی ہے، بڑے صحافیوں کی خبروں سے حکومتوں کے فیصلے تبدیل ہوئے، امریکہ کے ایک صدر کو ایک خبر کی بنیاد پر استعفیٰ دینا پڑا۔ ہم انویسٹیگیٹو جرنلزم (تحقیقی صحافت) پڑھاتے ہیں، اس میں بہت زیادہ محنت لگتی ہے،اس شعبے کی ضرورت محنت ہے۔ آرام و سکون کا طلب گار جو اپنے موڈ کے ساتھ کام کرنے کا متمنی ہو، اس شعبے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ جانفشانی والا شعبہ ہے کہ آپ نے دن رات کام کرنا ہے، خواہ وہ رپورٹنگ ہے یا میگزین کاشعبہ ، چاہے کالم لکھنا ہو یا ایڈیٹوریل، فیچر لکھنا ہو یا ایڈیٹنگ کاکام ہو۔ اس میں وہی شخص کامیاب ہے جو جوش و جذبے کے ساتھ اس شعبے میں آیا ہو اور اسی جذبے کے ساتھ کام کر رہا ہو۔ اگر کوئی صرف ملازمت کی خاطر آیا ہے کہ اس کے بدلے میں تنخواہ ملتی رہے تو وہ کبھی کامیاب صحافی نہیں بن سکتا‘‘۔

’’ہم اپنے طلبہ و طالبات کو پڑھاتے ہیں کہ یہ بزدلوں کا نہیں، بہادر لوگوں کا شعبہ ہے، وہی لوگ اس میں کامیاب ہوسکتے ہیں جن کے اندر یہ قابلیت اور صلاحیت ہو کہ وہ بڑے سے بڑے چیلنج کا سامنا کرسکیں، بڑی سے بڑی آفر کو ٹھکرا سکیںکیونکہ جب آپ کرپشن کو بے نقاب کریں گے، غلط کاموں سے پردہ اٹھائیں گے تو آپ کی خبر نگاری سے متاثر ہونے والی منفی قوتیں یقیناً تلملائیں گی، وہ یقیناً آپ کو آفرز دیں گی، لالچ دیں گی، اسے ٹھکرانے کے لیے صحافی کے اندر اتنی اخلاقی قوت ہونی چاہیے کہ وہ حق بات اور سچ پر قائم رہ سکے، اگرچہ یہ مشکل کام ہے۔ جب آپ کسی کی آ فرز یا لالچ میں نہیں آتے تو وہ دھمکیاں دیتے ہیں۔ صحافیوں کو ہمیشہ سے دھمکیاں دی جاتی ہیں پہلے بھی دی جاتی تھیں اور آج بھی دی جاتی ہیں، بچوں کو اغوا کرنیاور جان سے مار دینے کی بھی دھمکیاں دی جاتی ہیں، ان تمام خطرات کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے والاہی کامیاب صحافی ہوتا ہے۔آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو دیانتداری کے ساتھ اس شعبے سے وابستہ ہیں، نام بھی کما رہے ہیں اور کام بھی کر رہے ہیں‘‘۔



معروف ناول نگار نسیم حجازی کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ

’’میں جب کالج میں بی اے کا طالب علم تھا تو میں معروف ناول نگار نسیم حجازی سے ملاقات کے شوق میں ان کے گھر گیا، انہوں نے بڑی شفقت کی، مجھے وقت دیا۔ ملاقات کے دوران میں انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ’میرا ہاتھ کانپتا ہے، لکھنے میں دقت ہوتی ہے لہٰذا آپ شام کو تھوڑاسا وقت دیدیا کریں۔ میں بولوں گا اور آپ لکھا کریں‘۔ میرے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔ میں نے فوراً ’ہاں‘ کی اور اگلے دن ہی سے کام شروع کر دیا۔ میں روزانہ شام کو تین، چار گھنٹے ان کے ساتھ بیٹھتا تھا۔ ان کے آخری ناول ’پردیسی درخت‘ کے دو ابواب میرے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں،ان دنوں ٹی وی پر اُن کے ڈرامے بھی چل رہے تھے، آخری چٹان اور شاہین۔ اس دوران ان کے پاس آنے والی بڑی شخصیات سے ملاقات بھی ہوتی تھی۔‘‘

کتب جنھوں نے بہت متاثرکیا

’’مجھے مطالعے کا شوق بچپن ہی سے رہا ہے، تاریخ اور جغرافیہ کو پڑھا ہے، مجھے دلچسپی رہی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک میں کیا ہورہا ہے، ان کے مسائل اور معاملات کیا ہیں۔ میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں، مولانا شبلی نعمانی کی کتاب ’الفاروق‘ نے مجھے بہت متاثر کیا، نعیم صدیقی کی کتاب ’محسن انسانیت‘ اور سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ’تفہیم القرآن‘۔ ان کی لکھی بہت سی کتابیں پڑھیں، جنہوں نے مجھے بہت متاثر کیا، میری نظریاتی اساس بنانے میں ان کتابوں کا بڑا کردار ہے‘‘۔

ڈاکٹرثاقب ریاض کے والدمحترم پہلے پاکستان ائیرفورس سے وابستہ تھے، پھر1973ء میں ابوظہبی کی ائیرفورس سے منسلک ہوگئے، 18 سال تک وہاں رہے۔’’وہ صدر ایوب خان، یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے پرسنل ائیر سٹاف میں شامل تھے۔1966ء میں پاکستان ائیرفورس نے امریکہ سے پہلا سی ون 30 جہاز خریدا، اس کی ٹریننگ حاصل کرنے کیلیے میرے والد امریکی ریاست جارجیا کے دارالحکومت اٹلانٹا گئے، وہاں40 دن کا کورس کیا۔ پھر جب والدصاحب پاکستان ائیرفورس سے ابو ظہبی ائیر فورس میں منتقل ہوئے وہاں ابو ظہبی کے حکمران شیخ زید بن سلطان کے پرسنل ائیر سٹاف میں شامل رہے‘‘۔ ڈاکٹرثاقب ریاض کے چھوٹے بھائی انجینئر، پی ٹی سی ایل میں سینئر پوزیشن پر ہیں، ان سے چھوٹے بھائی ایف بی آر میں ڈپٹی ڈائریکٹر اور سب سے چھوٹے بھی پی ٹی سی ایل میں انجینئر تھے، پانچ سال پہلے ان کی رحلت ہو گئی۔ تین بچوں کے باپ ڈاکٹرثاقب ریاض کے بیٹے نے حال ہی میں انجینئرنگ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی ہے اور ایک سرکاری ادارے کے ساتھ منسلک ہوا ہے جبکہ دو بیٹیاں میڈیکل کالج میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں