سکارف لئے ہوئے خاتون

اعتبارِ وفا۔۔۔۔۔۔ مدیحہ مدثرکی نئی اردو کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ملگجے سے حلیے میں بکھرے بال اور ویران چہرہ لیے وہ کسی اجڑے ہوئے دیار کی باسی لگ رہی تھی۔ خالی خالی نظروں سے وہ سب کویوں دیکھ رہی تھی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو حالانکہ وہ سب اس کے اپنے تھے اس کے گھر والے،لیکن کچھ تھا جو اس کے اندراس شدت سے ٹوٹا کہ وہ سنبھل نہ پا رہی تھی۔۔۔۔ رتجگے کی چغلی کھاتی آنکھیں رو رو کر سوجی ہوئی تھیں۔ مینا نے ترحم سے اسےدیکھا تھا اور پانی کا گلاس لیے اس کے پاس چلی آئی تھی۔۔۔۔

’’کیا حال بنا رکھا ہے فاطمہ! یہ لو پانی پیو!!‘‘ اس نے پانی کا گلاس فاطمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔فاطمہ نے غائب دماغی سے اسے اجنبی نگاہوں سے یوں دیکھا کہ اس کا دل کٹ گیا۔ پھروہ بے ساختہ اس کے گلے لگ گئی ، کب سے حلق میں پھنسےآنسو تیزی سے باہر آرہے تھے۔ دوسری جانب فاطمہ ساکت رہی۔

ڈھولکی کی تھاپ پہ گیت گاتی لڑکیاں آتے جاتے فاطمہ کی طرف کوئی نہ کوئی چٹکلہ اچھال دیتی تھیں جسے سن کر وہ شرما جاتی یا موقع تاک کر جواب دیتی اور پھر خوب قہقہے لگتے۔۔۔۔آج فاطمہ کی مہندی تھی،سو گھر بھر کی رونقیں عروج پہ تھیں،کزنز،سہیلیاں سب جمع تھے۔

فون کی گھنٹی بج بج کر چپ ہو چکی تھی لیکن اس شوروغل میں کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی سو وہ گھنٹی بھی کوئی نہ سن پایا۔۔۔کہ اچانک ابا کا موبائل بج اٹھا۔۔۔

’’ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔۔‘‘ وہ کال رسیو کرتے ہی باہر کی جانب بڑھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں مینا بھاگتی ہوئی آئی اور بولی: ’’ارے ارے ہوشیارباش! فاطمہ کے سسرال والے مہندی لے کر آ رہے ہیں۔ ابھی ابا کے فون پہ ان کا فون آیا ہے وہ بس نکل رہے ہیں۔۔۔‘‘ پھولےسانسوں سے اعلان کرتی وہ باہر لپکی کہ اماں وغیرہ کو اطلاع دینا باقی تھا۔۔۔

مہندی،بارات،ولیمہ سب بخیروعافیت انجام پا گیا اور فاطمہ یک دم سے معتبر ہو گئی کہ وہ گھر کی بڑی بہو تھی اور بہت دوستانہ ماحول کا حصہ بنی تھی،اس کے سسرال والے سلجھے ہوئے،پڑھے لکھے افراد تھے۔۔۔

زندگی سکون سے گزرنے لگی اور چند سالوں میں وہ پیارے پیارے دو بچوں کی اماں بن گئی،مینا کی بھی شادی ہو گئی،دو بھائی تھے ، سووہ بھی وقت پہ بیاہے گئے،سب اپنے اپنے گھروں میں شاد تھے۔۔۔۔اماں،ابا تو جیسے انتظار میں تھے کہ اِدھر ان کی ذمہ داریاں پوری ہوں اور اُدھر وہ ابدی سفر پہ روانہ ہوں۔۔۔۔ سو وہ عرصہ ہوا رب کے مہمان ہو چکے تھے۔۔۔اور وقت کی رفتار اب ان چاروں بہن بھائیوں کو اماں،ابا کے مقام پر لے آئی تھی۔۔۔

فاطمہ کے شوہرِ نامدار بہ سلسلہ روزگار بیرونِ ملک مقیم تھے۔۔۔بیٹی میڈیکل کی طالبہ تھی،بیٹا ابھی دسویں جماعت میں تھا کہ اس کی ننداپنے شوہر سمیت اس کے گھر آن بسی کہ اس کے میاں ریٹائر ہوئے تھے اور کیونکہ وہ سرکاری ملازم تھے اور سرکار کی طرف سے ملےفلیٹ میں رہتے تھے۔ سو انہوں نے فلیٹ خالی کیا تو دونوں میاں،بیوی فاطمہ کے گھر پہنچے کہ فاطمہ کے سسر ابھی حیات تھے سو وہ ٹہکے سے ’’ابا کے گھر “رہنے آئے۔۔۔۔

ان کے دونوں بچے بیرون ملک مقیم تھے، سو دونوں میاں بیوی نے سوچا کہ جب تک اپنے ذاتی گھر کا بندوبست ہوتا ہے ہم ادھر رہ لیتے ہیں کیونکہ طاہرہ باجی (نند)کے میاں سگے پھوپھی زاد تھے سو اجنبیت کی کوئی دیوار حائل نہ تھی۔ فاطمہ تھوڑا سا پریشان تھی کہ طاہرہ باجی کی فطرت سے خوب آگاہ تھی۔۔۔۔ وہ نہایت جھگڑالو،کام چور اور زبان دراز عورت تھیں جن کی ساری عمر خاوند سے نہ بنی تھی۔ میکے آتی تھیں تو مانو فاطمہ ہر وقت ذہنی طور پہ کسی نہ کسی ہنگامے کے لیے تیار رہتی تھی کہ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کب کس بات پہ وہ بگڑ جائیں۔۔۔

اب جو کچھ عرصہ مستقل ان کے آنے کی خبر ملی تو اس کا دل یک دم بیٹھ سا گیا۔۔۔اس نے بلال صاحب سے ذکر کیا اپنی کیفیت کا، تو انہوں نے بیگم کو تسلی دی اور بولے:’’ارے وہ کون سا مستقل رہیں گے،چند ماہ کی بات ہے ان کا گھر مکمل ہو جائے تو وہ شفٹ ہوجائیں گے،تم مت گھبراؤ ۔۔۔۔ مجھے اپنی زوجہ کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے بھئی،کچھ غلط نہ ہو گا ان شاء اللہ‘‘ آخری جملہ متبسم لہجے میں کہتے وہ فاطمہ کے اندر توانائی بھر گئے تھے۔۔۔ فون بند ہو چکا تھا لیکن اب فاطمہ پر سکون تھی کہ بلال صاحب کی ذراسی توجہ،کوئی میٹھا جملہ،اسے نئے سرے سے جوان کر دیتا تھا۔۔۔۔

اللہ اللہ کر کے وہ گھڑی آئی کہ وہ میاں بیوی اپنے سامان سمیت پہنچے،فاطمہ سلیقہ مند اور کام کاج میں تیز تھی سو جھٹ پٹ سب کام نمٹا لیتی۔ طاہرہ باجی ابا کے سرہانے جانے کون سے قصے لے کر بیٹھی رہتی تھیں،ان کے میاں آفاق ،فاطمہ کے سگھڑاپے اورسلیقے کے روزِ اوّل سے قائل تھے۔ معاملہ فہم اور خوش اخلاق ہونا اس کی اضافی خوبیاں تھیں جو اسے ہر محفل میں نمایاں رکھتیں۔۔۔۔

چند دن ہی گزرے تھے کہ طاہرہ باجی اپنی اصلیت پہ آ گئیں،شوہر سے روز ہی جھگڑ پڑتیں،بچے باہر سے فون کرتے تو ان کو الگ سناتیں کہ تمہارے ابا کے ساتھ رہنا عذاب ہے،آفاق صاحب بھی ہر وقت ضبط کے مراحل سے گزرتے کہ وہ واقعی ایک نفیس طبع انسان تھے اور قسمت کی ستم ظریفی کے سبب وہ طاہرہ باجی کے میاں بن بیٹھے تھے،سو دامے،درمے،سخنے اس بے جوڑ تعلق کو نبھا رہےتھے۔۔۔۔

وہ ایسی ہی ایک خزاں کی اداس شام تھی،طاہرہ باجی اور آفاق بھائی میں زوردار جھڑپ ہوئی تھی اور اب طاہرہ باجی دروازہ بند کیےکمرے میں بیٹھی تھیں اور اب انہوں نے تب تک باہر نہ آنا تھا جب تک سب ان کی خوب منت نہ کر لیتے۔۔۔۔آفاق بھائی بیزارسے باغیچے میں بیٹھے تھے،تیز ہوا چل رہی تھی،لان کی سبز گھاس،خزاں کے پیلے،چُر مُر کرتے پتوں تلے چھپی ہوئی تھی،ٹنڈ منڈ درختوں پہ گلہری کی آمدورفت جاری تھی،پرندوں کا شور اس سارے منظر میں رنگ بھرتا معلوم ہو رہا تھا۔۔۔کہ فاطمہ شام کی چائے کی ٹرے لے کر آئی اور خیالوں میں کھوئے آفاق بھائی سے مخاطب ہوتے ہوئے انھیں چائے کی طرف متوجہ کیا۔۔۔ وہ یک دم جیسے کسی خیال سے چونکے اور ٹرے رکھ کر پلٹتی فاطمہ کو بے ساختہ مخاطب کر بیٹھے:
”بھابھی ذرا بات سنیے گا پلیز‘‘
جانے کیا تھا ان کے لہجے میں کہ فاطمہ نے حیرت سے پلٹ کر انکو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔

’’براہ مہربانی آپ کچھ دیر یہاں بیٹھ سکتی ہیں؟؟؟اگر آپ کے پاس وقت ہو‘‘ ،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سب کام فاطمہ کے ذمہ ہی ہےاور اس چیز کا انھیں بے حد قلق تھا کہ وہ خود کو اضافی بوجھ محسوس کرتے ہوئے کوشش کرتے کہ کچھ مدد کروا دیں،فاطمہ نے ان کی ابتدائی مدد کی پیشکش کو ہی رسان سے رد کر کے ان کی مزید پیش قدمی پہ بند باندھ دئیے تھے۔۔۔۔

’’جی بولیے کچھ چاہیے آپ کو؟؟؟‘‘ فاطمہ نے جواب دیا تو وہ گویا ہوئے:
’’ نہیں، دل بہت بوجھل ہے، طاہرہ کے رویے پہ سوچا آپ سے کچھ دیربات کر لوں۔ آپ پلیز بیٹھ جائیے ۔۔۔‘‘
فاطمہ خاموشی سے دوسری کرسی پہ ٹک گئی اور سوالیہ نگاہوں سے ان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
’’دراصل میں بہت پریشان ہوں،اب عمر کے اس حصے میں اعصاب پہلے جیسے مضبوط نہیں رہے،بی پی کے مرض نے رہی سہی برداشت بھی ختم کردی ہے،بھابھی آپ ہی کچھ سمجھائیے طاہرہ کو کہ خدارا اب تو وہ کچھ سمجھداری کا مظاہرہ کر لے،آپ سے ہی کچھ سیکھ لے‘‘
جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے فاطمہ کو وہ بہت عاجز لگے۔۔۔اس نے بے بسی سے ان کو دیکھا اور بولی:
’’بھائی ! آپ جانتے ہی ہیں ان کو بھلا کون سمجھا سکا ہے آج تک،وہ خود کو کبھی غلط تسلیم کریں تو اصلاح کی جانب قدم بڑھائیں ناں‘‘،فاطمہ کی بات میں بہرحال وزن تھا کہ وہ جو کہہ رہی تھی درست کہہ رہی تھی۔ طاہرہ باجی نے کبھی خود کو غلط نہ سمجھا تھا۔۔۔۔۔

’’آپ صبر کیجیے اور دعا کیجیے کہ جب ہم بے بس ہونے لگیں تو سب سے طاقتور ہتھیار دعا ہی ہے۔۔۔۔‘‘اپنی بات کے اختتام پہ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔آفاق بھائی نے خاموشی سے اس کی بات سنی اور بولے:
’’بلال واقعی خوش نصیب ہے بھابھی،آپ نے دو جملوں میں معاملہ سمیٹ دیا یوں جیسے ریشم کو سلجھایا جائے۔۔۔۔‘‘فاطمہ دھیمی سی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے اندر بڑھ گئی اُس طوفان سے یکسربے نیاز جو اس کے سر پہ آنے والا تھا۔۔۔۔

اگلے چند دن بعد جو ہوا وہ کسی قیامت سے کم نہ تھا،فاطمہ کو اچانک بخار نے جکڑ لیا تھا،گھر کی ذمہ داری طاہرہ باجی ناک بسورتےسنبھالے ہوئے تھیں کہ بھاوج کے سر پہ خوب عیش کی عادت ہو گئی تھی۔آفاق بھائی عیادت کی غرض سے فاطمہ کے کمرے میں چلے گئے تھے۔۔۔۔۔اور طاہرہ باجی نے ان کو وہاں جاتے دیکھ لیا تھا۔۔۔انہوں نے فورًا ابا کے کان میں جا کر انتہائی غلط انداز میں اس بات کو پہنچایا اور بولیں:

’’ پہلے بھی کئی دفعہ میں نے آفاق کو فاطمہ کے گرد دیکھا ہے۔۔۔۔۔‘‘ابا کے سامنے فاطمہ کی ساری زندگی تھی لیکن بیٹی کی باتوں نے ان کی بوڑھی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی اور انہوں نے ہر اس یاوہ گوئی کو سچ مانا جو فاطمہ اورآفاق کے خلاف طاہرہ نے کی۔۔۔

بات یہاں تک رہتی تو الگ بات تھی لیکن بلال کو فون پہ جانے ابا نے کس انداز میں اور کیا کہہ کر بات کی کہ ان کا فون فاطمہ کو ہلاگیا۔۔۔۔ وہ اس پہ اس عمر میں شک کر رہے تھے جب ایسی بات سوچتے بھی شرم آتی ہے،فاطمہ کو لگا اس کے سر سے چادر نوچ لی گئی ہے،وہ ایک لفظ بولے بنا بھائی کے گھر آ گئی۔۔۔۔ وہ بہت کم میکے جاتی تھی سو اس کی آمد کی خبر سن کر مینا اسے ملنے بھاگی چلی آئی،لیکن وہ ایسی وحشت زدہ ہو رہی تھی کہ مینا اسے دیکھ کر گھبرا گئی،اور جب اسے سارے معاملے کا علم ہوا تو وہ کتنی ہی دیرمارے دکھ کے کچھ بول نہ پائی کہ اس کی اتنی اچھی بہن کی عمر بھر کی ریاضتوں کا یہ صلہ دیا گیا تھا۔۔۔۔۔سب سے زیادہ دکھ بلال پہ ہو رہا تھا کہ وہ کیسے ایسی بے پر کی بات پہ یقین کر سکتے ہیں جبکہ وہ فاطمہ کے ساتھ ساتھ اپنی بہن کی فطرت سے بھی خوب آگاہ تھےپھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسے میں عمر اور خولہ نے ماں کا بھرپور ساتھ دیا اور باپ کے سامنے ڈٹ گئے۔۔۔۔۔۔ پردیس میں بیٹھے بلال کو عمر کی باتوں نے جیسے باور کروا دیا کہ فاطمہ پہ تہمت لگائی گئی ہے اور اب اس کے بچے،بچے نہیں رہے کہ کچھ محسوس نہ کریں ۔۔۔۔۔۔

عمر نے من و عن ساری تفصیل بلال کو بتائی کہ پہلے دن سے اب تک کیسے حالات جا رہے تھے،بلال فورًا چھٹی لے کر وطن آئے،آفاق بھائی اتنے بدترین الزام کے بعد گھر چھوڑ کر جا چکے تھے اور اب وہ بضد تھے کہ طاہرہ کو طلاق دیں گے۔۔۔۔۔۔سواب سب ان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔۔۔۔عمر نے پھوپھی کو بھی آئینہ دکھایا تھا اور اب وہ شرمندہ شرمندہ سی تھیں کہ ان کی لگائی آگ ان کے گھر کو ہی جلانے لگی تھی،ابا بیماریوں میں گھرے دواؤں کے سہارے زندگی کے دن پورے کر رہے تھےسو ان کی ذہنی حالت بہت قوی نہ رہی تھی اور یہ بلال کو گھر پہنچ کر کچھ دن میں اندازہ ہو گیا تھا۔۔۔۔

آج موسم نے بہت دن بعد انگڑائی لی تھی،بارش کُھل کر برسی تھی۔۔۔۔اب بارش کے بعد والی حبس تھی جس نے فضا کوبوجھل کر رکھا تھا۔۔۔۔۔کچے صحن میں چھاجوں مینہ نے برس کر پانی کھڑا کر دیا تھا۔۔۔۔ فاطمہ کو آج مہینہ ہو چلا تھا ابا کے بنائےگھر میں جہاں زندگی کا ایک حصہ گزرا تھا،بچے روز ملنے آتے اور واپسی پہ اصرار کرتے لیکن ایک چپ تھی جو اس کو لگ گئی تھی اورانکار جو کسی طور اقرار میں نہ بدل رہا تھا۔۔۔۔۔

دروازے پہ بجتی گھنٹی نے اس کی توجہ اُدھر مبذول کروائی تو بلال کو زبیر بھائی سے ملتے دیکھا وہ فورًا کمرے میں چلی گئی۔۔۔آنکھیں بے ساختہ ہی شفاف پانیوں سے بھر گئی تھیں۔۔۔۔

’’معاف کر دو فاطمہ پلیزززز،میں مجرم ہوں تمہارا،مجھے ابا اور طاہرہ باجی نے اس طرح سے سب بتایا کہ نا چاہتے ہوئے بھی مجھے سب سچ لگنے لگا،تمہاری وفا پہ اعتبار ہے مجھے، بس وقتی گرد تھی جو اب چھٹ گئی ہے، پلیز معاف کر دو اور گھر چلو سارا گھر کاٹنے کو دوڑتاہے تمہارے بن،بچے الگ مجھ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے ہیں۔۔۔۔۔۔۔‘‘

وہ ایک ہی سانس میں بولتے چلے گئے،فاطمہ نے بھیگا چہرہ ان کی طرف موڑا اور بولی:
’’ شادی کے ایک طویل عرصے کے بعد بھی اگرمیری وفا کا اعتبار اتنا کچا ہے تو کیوں جاؤں میں آپ کے ساتھ؟؟؟‘‘

’’یار! غلط فہمی ہوگئی تھی‘‘،فاطمہ نے تڑپ کر دیکھا اور بولی:
’’غلط فہمی؟؟؟؟؟‘‘
جوابًا بلال نے شرمندہ ہو کر نظر چرائی تھی۔۔۔۔۔

’’بچے انتظار کر رہے ہیں فاطمہ!ابا بھی معافی مانگنا چاہتے ہیں تم سے،لو میں بھی ہاتھ جوڑے کھڑا ہوں جو چاہے سزا دے لو یا پھرمعاف کر دو،لیکن خدارا گھر چلو‘‘
بات کے اختتام پہ ان کی آواز میں گھلی نمی بے ساختہ فاطمہ کو تڑپا گئی کہ جو بھی تھا وہ اس کے شوہرتھے اور اب غلطی تسلیم کر کے اسے منانے آئے تھے،اور اس کی عزت اور وقار بھی اسی گھر سے جُڑا تھا جہاں سب اس کےمنتظر تھے۔۔۔۔

سو اس نے بے ساختہ بلال کے ہاتھ تھامے اور نم آنکھوں سے مسکرا کر آمادگی ظاہر کی۔۔۔۔۔باہر بادل زور سے گرجا اور ایک بارپھر بارش شروع ہو گئی ،لیکن اب حبس کا زور ٹوٹ چکا تھا۔۔۔مٹی کی بھینی بھینی خوشبو من مہکا رہی تھی،ڈوبتے سورج کی کرنیں بھی مسکراتی معلوم ہو رہی تھیں،فاطمہ بیگ پیک کر چکی تھی،ایک نئی صبح ان کی منتظر تھی۔۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں