خاتون، موم بتی، کتاب

الاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دعا عظیمی کی سحرانگیز کہانی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دعا عظیمی۔۔۔۔۔۔
دسمبر کی یخ بستہ ہوا تھی… بدن تمازت کی تلاش میں تھے، روح جو ازل سے پیاسی تھی اپنا سوال بھول چکی تھی…
تنہائی بھری شام … چاروں طرف دھند کا راج نظر دیکھتی تھی مگر دودھیا اندھیرے سے گھبرا کے لوٹ آتی تھی…
آؤ خود سے مل لیں
میں نے چونک کے دیکھا…
آواز تھی یا واہمہ

تخیل تھا یا خواہش
سرسراہٹ تھی… دفعتاً بجلی چلی گئی۔
گھپ اندھیرا تھا…سفید ماربل کی ٹائلز اندھیرے سے بغلگیر تھیں
کون تھا…

یو پی ایس کی بیٹری پچھلے ماہ جواب دے چکی تھی
موم بتی ماچس ہی واحد حل تھا
جلتی شمع لرزتی لو نے سائے کو سہولت دی.. سائے پھیل اور سمٹ رہے تھے…
آؤ خود سے ملتے ہیں

خود سے ملنے کا موسم عروج پہ تھا
مجھے محسوس ہوا
میرا بدن موم سے بنا ہے
اور میری آنکھ سے آنسو ٹپکا
اور حرف کی بتی جل رہی تھی
آؤ خود سے ملتے ہیں

خود سے مت ڈرو
تنہائی کچھ نہیں ہے…اگر تم اپنے ساتھ ہو تو تنہا کیونکرہو….
میں نے تنہائی کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کے دیکھا وہ ہنسنے لگی ، مجھ سےمت ڈرو میں تمہارا وہم ہوں
تم جڑ چکی ہو
خود سے، حرف سے
جو حرف سے جڑ جائے زمانہ اس کے ساتھ ہوتا ہے

دروازہ بجا
میں ڈر گئی…کون؟
میں ایک مسافر منگتا
ہائے دروازہ کیسے کھولوں؟

صاحب تالا لگا کے گئے ہیں
میں نے کی ہول سے دیکھا
وہ کانپ رہا تھا
میں نے کمبل پکڑا اور دیوار سے باہر پھینک دیا
اس نے کمبل کو دیکھا جیسے بلی چھیچھڑے کو
اور چلا گیا
کیا وہ پاگل تھا شاید پاگل ہو مگر اسے کیسے پتہ چلا کہ میرا دوازہ بجائے گا تو اس کی ضرورت پوری ہوگی

میں اندر آئی
موم بتی جل رہی تھی
آنکھ سے موتی ٹپکا
ہم سب غیر مرئی دھاگوں کی بتی سے جڑے ہیں
ہم تنہا نہیں کوئی ہے جو ہمیں جوڑے ہوئے ہے
خوشی اور تشکر کا آنسو میری آنکھ سے ٹپکا….
شمع جلتی رہی…اور مجھے نیند نے اپنی گرم آ غوش میں لے لیا..
اندر ایک الاؤ تھا.محبت کا الاؤ.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں