محبت کرنے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے اور گلاب

انتخاب ۔۔۔۔۔۔ حمیرا ثاقب کا لکھا خوبصورت اردو افسانہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نورِجہاں نے نظر اٹھائی… شیشے سے بنا محل یوں جگمگا رہا تھا جیسے ہیرے ہوں…. اور اس سفید رنگ سے ایسی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں کہ ہزاروں رنگ چم چم کرتے نظر آ رہے تھے…

ایک طمانیت سے بھری خوب صورت مسکراہٹ نورِ جہاں کے سُرخ سُرخ ہونٹوں پر بکھر گئی… وہ نرم روی سے چلتی ہوئی ایک دیوار پر آویزاں زَمردیں آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی… سفید ریشم کے ڈھیلے ڈھالے لبادے میں نورِ جہاں کا حُسن یوں شعائیں مار رہا تھا کہ وہ خود مبہوت رہ گئی….

”ارے…!! یہ میں ہوں…!!“ نورِ جہاں کھلکھلائی تو دودھیا دانتوں سے سفید چمک پھوٹی… وہ ٹکٹکی باندھے خود کو دیکھے گئی… دوشیزگی کی چمک لیے اس کی سنہری آنکھوں میں اس درجہ کشش تھی کہ اُسے خود سے حجاب محسوس ہونے لگا۔

”اللہ…!! کتنا دل چاہتا تھا نا…!! کہ ایسا حسن و جوانی اپنی مکمل شکل میں حاصل ہو جائے…“
”تو آخر یہ دن آ ہی گیا…. اللہ اللہ“
”اففف…“ اس کی سانسیں بے ترتیب ہونے لگیں…

محل کے بیرونی دروازے پر ہلکی سی دستک نے نورِ جہاں کو چونکا دیا۔ اس کے متوجہ ہوتے ہی دروازہ نیم وا ہوا…
”نورِ جہاں…!! کوئی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ اندر آنے کی اجازت ہے؟؟” ایک شیریں آواز آئی تھی…
”آنے دیجیے“ نور جہاں نے اپنا لباس درست کیا اور اپنی ست رنگی اوڑھنی کو وقار سے پھیلا لیا…

اب وہ محل کے وسیع و عریض ہال کے عین وسط میں آ کر کھڑی ہو گئی…
آنے والے نے سر کو خم دے کر سلام کیا تھا…
شناسائی کی ایک چمک نورِ جہاں کی آنکھوں میں ابھری تھی…

”وعليكم السلام“ وہ انتہائی نرم انداز میں بولی تھی اور ایک طلائی کرسی کی طرف اشارہ کر کے بولی ” تشریف رکھیے نا…!!“
”جی…!! کیسے ہیں آپ؟“ نورِ جہاں نے آنے والے شخص کو جو عمر میں اُس کا ہی ہم سِن تھا، مخاطب کیا تھا…“

”میں ٹھیک ہوں۔“ اُس کے قرمزی لب مسکرائے اور شہد رنگ آنکھوں میں نورِ جہاں کے لیے وارفتگی اور بڑھ گئی…
”ابھی معلوم ہوا کہ اپ یہاں تشریف فرما ہیں تو اذنِ بازیابی لے کر ملنے چلا آیا…“ اسی نرم اور دھیمی آواز میں جو شروع سے اُس کا خاصہ تھی، وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوا….
”اچھا…!!“ نورِ جہاں نے سر ہلایا۔

”مگر میرے دل میں تو ایسی کوئی بھی خواہش پیدا نہ ہوئی تھی…. میں تو ابھی تک اپنا محل بھی ٹھیک سے نہیں دیکھ پائی…“

ایک سایہ سا اس جوان کے چہرے پر آ کر گزر گیا….
”آپ کہاں تشریف رکھتے ہیں؟“ نورِ جہاں نے پوچھا
”میرا محل اُدھر نشیب میں ہے۔“ نوجوان نے ادھ کھلے دروازے کے سامنے کی طرف اشارہ کیا تھا….“
”اچھا….!!“

”میں تو اس لیے حاضر ہوا تھا کہ ہم اپنے اُسی تعلق کو یہاں بھی استوار رکھتے ہیں…. ہمیشہ ہمیشہ کے لیے….“
نورِ جہاں نے اپنی مخمور آنکھیں اوپر اٹھائیں

”میں نے ابھی اس بارے میں کچھ نہیں سوچا….“ وہ تھوڑا رُک رُک کر بولی تو نوجوان کے چہرے پر اُداسی چھا گئی…
”سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے نورِ جہاں! ہم پہلے بھی ایک تھے اور اب بھی ایک ہی رہیں گے۔“ نوجوان نے محبت بھری بے تابی سے کہا تھا….

نورِ جہاں نے سوچا کہ کیا مجھ سے رائے نہ لی جائے گی کہ میری خواہش کیا ہے؟؟ کیا اب بھی مجھے سوچنے کی اجازت نہ دی جائے گی…. اس کے دل میں ملال آیا ہی تھا کہ اس کے کان کے قریب ایک دلگداز سرگوشی ہوئی۔

”نورِ جہاں!! ہر حال میں آپ کی خواہش اور آپ کی مرضی مقدم ہو گی… یہاں آپ اپنی مرضی کی آپ مختار ہیں… جو دل چاہے کیجیے…“

نورِ جہاں نے جوان کی طرف دیکھا جو سر جُھکائے اُس کے جواب کا منتظر تھا۔ تب نورِ جہاں پر باور ہوا کہ وہ سرگوشی صرف اُس کے لیے تھی اور کسی نے نہ سُنی تھی…. اس کا اعتماد بحال ہوا اور اُس نے ہموار، رواں آواز میں کہا کہ”میں اِس بارے میں سوچ کر آپ کو بتاؤں گی… آپ انتظار کیجیے….“

یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی جس کا واضح مطلب تھا کہ وہ جوان اب جا سکتا ہے….
جوان کے چہرے پر حیرت ثبت تھی… اُسے شاید نورِ جہاں سے اِس بے اعتنائی کی توقع ہرگز نہ تھی…. مگر محل نورِ جہاں کی ملکیت تھا اور اُس میں رُکنے کے لیے اس کا اِذن بہت ضروری تھا…..

چنانچہ وہ نوجوان اٹھا اور سلام کر کے رُخصت ہو گیا….
نورِ جہاں اپنے سر سبز و شاداب پائیں باغ میں تھی…. گلاب کے تختوں کے پاس کھڑی اپنے سرخ لباس میں وہ اِن گلابوں سے ممتاز تر نظر آ رہی تھی….

پائیں باغ کے کشادہ دروازے پر ہونے والی مدھم سی دستک کا انداز کچھ یوں تھا کہ نورِ جہاں کا دل بہت خوش گواری سے دھڑکا… اور وہ کسی بھی آوازسے پہلے دروازے پر جا پہنچی…

سامنے ایک چمکتے چہرے والا جوان کھڑا تھا… نورِ جہاں نے محبت سے اُس کی طرف دیکھا اور دلفریب مسکراہٹ سے اُسے نوازا….
”آ جائیے!!“

پائیں باغ میں موجود نقرئی کرسیوں پر دونوں آمنے سامنے بیٹھ گئے…
نورِ جہاں نے بغور آنے والے کو دیکھا جو نیچی نظر سے اُسے دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا… اس کی جگمگاتی پیشانی پہ دونوں بھنوؤں کو ملاتی ایک نفیس سی بالوں کی لکیر نے نورِ جہاں کے دل کو اسی دن کی طرح آج بھی اپنی گرفت میں لے لیا جیسے پہلی بار بغور دیکھنے پر لیا تھا… ننھا سا سیاہ تِل اس جاذبیت کو اور بڑھا رہا تھا… اپنے چہرے پر نورِ جہاں کی محویت کو محسوس کر کے جوان تھوڑا شرما سارہا تھا….

نورِ جہاں کھلکھلا کر ہنسی… تو وہ بھی چھینبی سی ہنسی ہنسا….
”اب بھی خاموش رہیں گے…“ نورِ جہاں نے اپنے سُرخ لب دانتوں تلے دبائے تھے….
”نہیں…!! آج تو آپ کی دعوت پر آیا ہوں…. بولنے کے لیے….“ وہ شریر انداز میں بولا تھا
” تو بولیے نا…!! میں آپ کو سُننا چاہتی ہوں…“ نورِ جہاں نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا کر گھنیری پلکوں کی جھالر سنہری آنکھوں پر گِرا لی تھی….

”میری خوش نصیبی ہے کہ آپ نے میرا مان رکھا اور اپنے وعدے کو پورا کیا…. اور میں یہاں آپ کے سامنے موجود ہوں….“ اس کے بھرے بھرے ہونٹ کچھ کچھ جامنی سے تھے مگر وہ بھی اُس کے چہرے کے حُسن کو بڑھا رہے تھے۔
”ہوں…!!“ نورِ جہاں نے آسودہ سی سانس لی….

”اب آپ بتائیے کہ کیا حکم ہے میرے لیے!“ اُس کی بھنورا سی آنکھوں سے شرارے پھوٹ رہے تھے۔
”او ہو…!! اب یہ بھی مجھے ہی بتانا پڑے گا۔“
نورِ جہاں نے بے تکلفی سے کہا تو نوجوان ہنسنے لگا ۔
”جی جی…!! آپ ہی کو بتانا پڑے گا۔“

”میں یہاں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے….“ نورِ جہاں نے سُرخ پڑتی رنگت کے ساتھ نظریں جُھکا کر کہا تھا…
جوان گھبرا گیا….”یہ کیسے ممکن ہے بھلا!!“

”یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے…. لگتا ہے آپ کو اِس پر یقین نہیں آیا اب تک…“ نورِ جہاں اُس کے کُھردرے جواب پر سنجیدہ ہو گئی تھی…
”جی شاید…! شدید پابندیوں کی زندگی گزار کر ابھی بھی اِس پر یقین آنے میں کچھ وقت لگے گا…“

”مجھے تو پہلے بھی یقین تھا اور یہاں آ کر مجھے اور بھی پختہ یقین دلایا گیا ہے کہ یہاں میں اپنی مرضی کی مختار ہوں… جو میرا دل چاہے گا وہ کروں گی…“
”وہ تمام پابندیاں، سختیاں، آزمائشیں جو ہم سہتے رہے ہیں… یہاں اُن کا شائبہ تک نہیں ہے…. ابدی سکون، ابدی خوشی، ابدی محبت اور ابدی ساتھ…“

نورِ جہاں نے بے باکانہ اُن بھنوراسی آنکھوں میں جھانکا تھا…. جہاں پتلیوں پر اُس کا ہی چہرہ نقش تھا…. اُس کے یوں دیکھنے پر وہ جُز بُز ہو گیا تھا….
”لوگ کیا کہیں گے… مقدس رشتوں کو جسمانی محبت میں بدل ڈالا….“ جوان ہکلایا تھا…

نورِ جہاں کے نقرئی قہقہے کی کھنک سے اُس کا پائیں باغ گونج اُٹھا تھا…. اور گھنے سبزوں سے خوش رنگ اور خوش گلو پرندے نکل نکل کر اُڑنے لگے تھے….

”لوگ کہہ چکے جو انہوں نے کہنا تھا… پروا نہ کیجیے اب کسی بھی بات کی… اور بس وہ بتائیے جو دل کے اندر ہے… اگر میں وہاں نہیں ہوں تو…. نورِ جہاں دوبارہ اس بات کو کبھی نہ دُہرائے گی…“

جوان نے کرنٹ کھا کر نورِ جہاں کی طرف دیکھا تھا…. اُس کی سنہری آنکھوں میں اِک الوہی سی چمک تھی۔ کچھ دیر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہی پھر ایکدم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی…

اُس کے کھڑے ہوتے ہی جوان بھی اُٹھ کھڑا ہوا…
”آپ حکم دیں اور میں بجا نہ لاؤں… یہ ممکن ہی نہیں… یہ میرے لیے عین سعادت ہے…. اتھاہ خوش نصیبی ہے۔“

شدت جذبات سے اُس کے ہونٹ کانپنے لگے اور آواز میں محبت عود آئی..
”وہ….. وہ…“ ایکدم نوجوان ہچکچایا…
”کیا وہ…وہ…؟“ نورِ جہاں زیرِ لب مسکرائی…

”اُن کو اعتراض ہو گا اس پر…“ وہ مدھم سے لہجے میں بولا تھا…
”تو ہوتا رہے… مجھے بتایا گیا ہے کہ میری زندگی کی مختار یہاں میں خود ہوں…“
نورِ جہاں نے طلائی چوڑیوں کو انگلیوں سے کھنکھنایا تھا….

”آپ نے کانچ کی چوڑیاں اتار دیں…“ جوان نے بھرپور انداز میں مُسکرا کر نورِ جہاں کا مرمریں ہاتھ پکڑ لیا تھا… اور نورِ جہاں نے اپنے انتخاب کو چشمِ محبت سے دیکھ کر پلکیں جھکا دی تھیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “انتخاب ۔۔۔۔۔۔ حمیرا ثاقب کا لکھا خوبصورت اردو افسانہ”

  1. ھنادی Avatar
    ھنادی

    نام تو بتاتے کون کون سے کردار تھے۔۔