عورت

اے بنت حوا!

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرشائستہ جبیں:

یہ ایک چھوٹے سے شہر کا سرکاری کالج ہے. کالج میں متوسط اور نادار طبقے کی بچیاں زیرِ تعلیم ہیں جن میں سے اکثر کے لیے معمولی سرکاری فیس ادا کرنا بھی مشکل ہوتا ہے لیکن اسی کالج کے سالانہ مینا بازار میں ان طالبات کے لباس اور جدید فیشن کے انداز و اطوار آنکھیں خیرہ کرتے ہیں. اکثریت مغربی طرز کے لباس پہنے، بال کھولے، پٹی کی مانند دوپٹہ گردن سے لپیٹے، بھاری میک اپ لگائے نظر آتی ہے.

ان میں سے اکثریت کے گھروں میں بیرونی دنیا سے رابطہ کا واحد ذریعہ ٹیلی ویژن ہے لیکن وہ لباس اور فیشن کی سب باریکیوں سے بخوبی آگاہ ہیں. ٹی وی ڈراموں اور مارننگ شوز نامی ہنگاموں میں جو لباس اور انداز و اطوار دکھائے جاتے ہیں وہ غریب گھرانوں تک کی بچیاں من و عن نقل کر کے فخر محسوس کرتی ہیں.

اسی چھوٹے سے شہر کے ایک نمایاں پرائیویٹ کالج کے مینا بازار کا منظر بھی دیکھتے چلیں. یہاں نسبتاً خوشحال گھرانوں کے بچے بچیاں زیرِ تعلیم ہیں. یہاں طالبات کی اکثریت مکمل مغربی پہناوؤں میں ملبوس ہے جن میں ظاہر ہے دوپٹے کا کوئی گزر نہیں. گنتی کی چند بچیاں جو روایتی لباس شلوار قمیض اور دوپٹہ پہنے ہیں، اُنہیں عجیب نخوت بھری نگاہوں کا سامنا ہے کہ یہ جدید فیشن سے لاعلم ہیں اور پہننے اوڑھنے کے سلیقے سے واقف نہیں ہیں.

یہ محض دو مناظر نہیں ہیں، ایک پورا ذہنی ارتقاء کا عمل ہے اور اس کے پیچھے نام نہاد میڈیا کے ہر ہر فورم کی محنت شامل ہے. بہت مہارت اور پلاننگ سے بڑی سرمایہ کاری کر کے مسلمان عورت کو اس مقام پر لایا گیا ہے کہ وہ نام نہاد فیشن کی دوڑ میں لک کر اپنی مذہبی و اخلاقی اقدار کو ترک کر دیں.

مکمل جسم چھپاتا ہوا لباس پہنے خواتین کو دقیانوسی قرار دے کر معاشرے میں اچھوت بنا دیا گیا ہے. ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین نے ایسے ہی حیا سوز مغربی پہناوے زیب تن نہیں کر لیے، اس کے لیے طویل عرصہ میڈیا کے ذریعے ذہن سازی کی گئی ہے اور پھر نوبت یہاں تک پہنچی ہے.

ایک سرکاری ادارے میں اچھے عہدے پر کام کرنے والی خاتون کے مطابق ان کی بھابھی خود اپنی بیٹیوں کے لیے جدید سے جدید لباس بنواتی ہیں، انہیں رقص اور موسیقی کی تربیت دلوا رہی ہیں اور ایک گھریلو تقریب میں بیٹیوں کے رقص کے مظاہرے کے بعد وہ فخر کر رہی تھیں کہ ان کی بیٹیاں عام لڑکیاں نہیں بلکہ ماڈل گرلز دکھائی دیتی ہیں، جس معاشرے میں ماں اس خطوط پر بچیوں کی شخصیت تراش رہی ہو، وہاں آنے والی نسلوں سے آپ کیا امید رکھ سکتے ہیں.

اسی ادارے میں کام کرنے والی ایک خاتون، اپنی ساتھی خاتون کی باحجاب بیٹی سے ملنے کے بعد انہیں یہ سمجھاتی پائی گئیں کہ بچی کے حلیے پر توجہ دیں، آج کل ایسی لپٹی لپٹائی لڑکیوں کو کوئی پسند نہیں کرتا. اچھی جگہ رشتہ کرانا ہے تو بچی کا دوپٹہ اترواؤاور اسے جدید دور کے تقاضوں کے مطابق لباس پہننا سکھاؤ.

ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون کی بیٹی نے بی ایس آنرز میں داخلہ کے لیے شہر کے دو تعلیمی اداروں میں درخواست جمع کرا رکھی تھی، دونوں جگہ وہ منتخب ہو گئی، ان کی والدہ سے جب پوچھا گیا کہ بچی کے کس ادارے کا انتخاب کیا ہے تو انہوں نے دوسرے نمبر والے ادارے میں بھیجنے کا بتایا اور حیرت کا اظہار کرنے پر کہا کہ پہلے نمبر والے ادارے میں خواتین، طالبات کے لئے عبایا پہننا لازم ہے اور وہ عبایا پہنا کر اپنی بیٹی کی شخصیت مسخ نہیں کرنا چاہتیں.

ان کے منتخب کردہ ادارے میں اگرچہ تعلیمی معیار اتنا عمدہ نہیں لیکن وہاں جدید انداز و اطوار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنی بیٹی کی پراعتماد شخصیت کے لیے اس ادارے میں بھیج رہی ہیں.

عبایا کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر جان کر مجھے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی اہلیہ محترمہ کی بات یاد آئی. یونیورسٹی میں میری ایک جونیئر طالبہ فہم قرآن کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب کی خدمات پر مقالہ لکھ رہی تھی. ڈاکٹر صاحب کے اہل خانہ سے ملاقات کے لئے میں اس کے ہمراہ گئی.

اُسے دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ نے بہت محبت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ :
”بیٹی! آپ یونیفارم میں کیوں نہیں ہیں؟ “
ابھی ہم ان کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ انہوں نے پھر فرمایا:

”اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورت کے لباس کی جو حدود و قیود بتائی ہیں، ان کے تحت عبایا آپ کا یونیفارم ہے اور آپ کو گھر سے باہر نکلتے اس کا اہتمام کرنا چاہیے. دین تو”ادخلوا فی السلم کافۃ“ یعنی پورے کا پورے دین میں داخلے کا نام ہے، کچھ معاملات اختیار کرنے اور کچھ میں من مانی کا نام نہیں“.

چونکہ میڈیا کے ہر فورم پر باپردہ خواتین کو ڈری سہمی، اعتماد سے عاری دکھایا جاتا ہے یا پھر حجابی لڑکیوں اور خواتین کو گھروالوں کو دھوکہ دیتے اور حجاب کو اپنی غیر اخلاقی سرگرمیوں کو چُھپانے کی آڑ کے طور پر دکھایا جاتا ہے.

داڑھی، دوپٹہ، برقع ہمارے ڈرامے میں غریب، نادار، کمزور یا دھوکہ باز افراد کی شناخت کی علامت کے طور پر دکھائے جاتے ہیں. ہمارے معاشرے کے ذہن اسی نہج پر پختہ کر دیئے گئے ہیں اور ہم غیر محسوس انداز میں یہ زہر اپنی رگوں میں اتار چکے ہیں.

اسلام دین فطرت ہے اور اس سے بڑھ کر فطرت کے قریب احکام دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں دیتا. اسلامی تعلیمات کے مطابق لباس موسم اور معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر بنایا جائے گا، لیکن وہ ستر پوشی کے تقاضے پورے کرنے والا ہو. لباس کے حوالے سے احکام خداوندی اس طرح ہیں.
یبنی آدم قد انزلنا علیکم لباساً یواری سوآتکم وریشا.

ترجمہ :اے بنی آدم ہم نے تمہارے لیے لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے لیے زینت اور حفاظت کا بھی ذریعہ ہو. (الاعراف 7:26)

یعنی ایسا لباس ہو جو شرم و حیا، غیرت و شرافت، جسم کی ستر پوشی اور حفاظت کے تقاضوں کو پورا کرے اور جس سے سلیقہ و تہذیب اور زینت و جمال کا اظہار بھی ہوتا ہو. لباس کا مقصد زینت و آرائش اور موسمی اثرات سے حفاظت بھی ہے لیکن اولین مقصد قابلِ شرم حصوں کی ستر پوشی ہے.

اللہ تعالیٰ نے شرم و حیا انسان کی فطرت میں پیدا فرمائی ہے. یہی وجہ ہے کہ جب حضرت آدم اور حضرت حوا کا جنت کا لباس فاخرہ اُتروا لیا گیا تو وہ درختوں کے پتوں سے اپنے جسموں کو ڈھانپنے لگے. اس لیے لباس میں اس مقصد کو مقدم رکھ کر ایسے لباس کا انتخاب کیا جائے جس سے ستر پوشی کا مقصد بخوبی پورا ہو سکے. ساتھ ہی یہ اہتمام بھی رہے کہ لباس موسمی اثرات سے حفاظت کرنے والا بھی ہو، اور ایسا سلیقے کا لباس ہو جو پہننے والے کی زینت و جمال اور تہذیب کا عکس ہو.

لباس تنگ اور باریک بھی نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے جسمانی ساخت نمایاں ہو. تنگ اور چُست لباس پہننے والی عورت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا کہ ایسی عورت نہ تو جنت میں داخل ہو گی اور نہ ہی اس کی خوشبو پا سکے گی.

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس بنو تمیم کی چند عورتیں آئیں جو باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں. ام المومنین نے ان سے فرمایا کہ اگر تم مومنہ عورتوں میں سے ہو تو یہ لباس مومنہ عورتوں کا نہیں ہے.

معلوم ہوا کہ عورت کا باریک یا چُست لباس پہننا جس سے جسم نمایاں ہو، اہل علم کے نزدیک غیر متصور ہے. لباس کے حوالے سے خصوصاً ستر پوشی اور شرم و حیا کی تعلیمات اسلام کے دین فطرت ہونے کی عکاس ہیں.

جدید تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ لباس کے انسانی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں. باپردہ اور مکمل لباس پہننے والے مردوخواتین اور نامکمل اور ستر کو چھپانے کو ناکافی لباس پہننے والوں کی شخصیت میں بہت فرق ہوتا ہے.

2012 میں امریکا کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے لباس کے حوالے سے تحقیقات کیں جن کے مطابق خاص قسم کے کپڑے انسانی نفسیات اور کارکردگی پر اثر انداز ہوتے ہیں. محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لباس علامتی معنی رکھتا ہے. لندن کالج آف فیشن کے ایک طالب علم کی تحقیق کے مطابق لباس ہماری شخصیت اور صلاحیت پر گہرا اثر رکھتا ہے. ان کا کہنا ہے کہ لباس کے اثرات منفی بھی ہو سکتے ہیں اور مُثبت بھی. کپڑے محض آپ کے احساس اور اظہار پر ہی اثر انداز نہیں ہوتے بلکہ دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کے رویے پر بھی اثر ڈالتے ہیں.

سوچنے کی بات ہے کہ جدیدیت کے نام پر اپنے مذہب اور معاشرت کی نفی کرتے تنگ و چست لباس، مسلمان خواتین کو شرم و حیا کے زیور سے عاری کرنے کے ہتھیار تو نہیں. ہمارا مذہب حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے اور ہم ترقی یافتہ ہونے کی دھن میں مبتلا ہو کر ایمان کے تقاضوں سے دور تو نہیں ہو رہے. یاد رکھیں :وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور.
ترجمہ :اور دنیا کی زندگی تو محض ایک دھوکے کی پونجی ہے. (آل عمران 3:185)

اور ہم اس دھوکے کی پونجی کے حصول کے لیے اپنے ایمان کو داؤ پر تو نہیں لگا رہے، مومن عورتوں کی زیب و زینت صرف ان کے محرم افراد کے لیے ہوتی ہے، نا محرم سے توصیف کے لیے نہیں.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “اے بنت حوا!” جوابات

  1. شیبا ء عر فا ن Avatar
    شیبا ء عر فا ن

    السلام و علیکم و رحمتہ اللہو بر کا تہ۔آج کا عنوان معا شرے کی زوال پزیری کا منہ بو لتا ثبو ت ہے۔نام نیہاد میڈ یا اور تر بیت کی کمی نے آج معا شرے کو اس نہج پر کھڑا کر دیا ہے کہ کسی سے با ت کرتے ہوئے بھی سو دفعہ سو چنا پڑتا ہے کہ لوگ آپ کو ہی دقیہ نوس اور جا ہل کہ کے با ت ختم کر کے گزر جا تے ہہں۔کہ آپ نے اپنی زندگی سے سیکھا ہی کیا ہے یہ سب وقت کی ضرورت ہے آپ کو کیا پتہ۔اللہ پا ک سب بیٹوں کو شر م۔و حیا عطا کرے جو معا شرے کی اصلاح کا ذریعہ ہو۔۔

  2. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    ہمیشہ کی طرح بہت اچھی تحریر … دل کو چھو لینے والی..اللہ ہمیں بھی پوری طرح دین میں داخل ہونے والا بنائے.. بغیر کسی کمی بیشی کے..

  3. Ramsha Raza Avatar
    Ramsha Raza

    Boht alaa tehreer ek boht achy topic ky sath jis ko smjhna hmary liye boht zroori hy.. Or hm me sy koi na koi ic society ky modern nzryaat ki wja sy victim bn chuka hy.. Allah hm sb ko apny deen ko smjhhny or us pr aml krny ki tofeeq dy.. Ameen..

  4. Kalsoom.razzaq Avatar
    Kalsoom.razzaq

    MashAllah…aik umdaa tehreer..boht imp topic pay likha hy…Allah pak..hm sb ko deen e islam.ke taleemat pay amal paira rakhy ameen

  5. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Ma’sha’Allah buhhtttt khubsurat tehreer..Allah hmain is pr Amal krny ki toufeeq atta farmaye.. ameen