خاتون پر تشدد

بیوی کی تذلیل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

روز و شب/ شبانہ ایاز :

ہمارے معاشرے میں شوہر کی مار، تضحیک، تذلیل اور سب کے سامنے بیوی کی بے عزتی کرنا ایک عام سی بات ہے۔

جھگڑے کس قسم کی باتوں پہ ہوتے ہیں، ذرا ملاحظہ فرمائیے:
روٹی گرم نہیں ملی، پانی مانگنے پر فوراً پیش نہیں کیا گیا، کھانا وقت پر نہیں بنا، نمک کم یا زیادہ تھا، کپڑے استری نہیں ہوئے تھے اور اور اور…

ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتنی بُری طرح پٹتی ہوئی میری بہنیں، میری بیٹیاں جنھیں ان کے ماں باپ پھولوں کی طرح پال کر جوان کرتے ہیں. ماں باپ اپنے خون پسینے سے اُن کی آبیاری کرتے ہیں، پھر کسی دن کوئی آتا ہے سج دھج کر، سو دو سو لوگ لے کر. اُنھیں کھانا بھی کھلایا جاتا ہے، عزت بھی دی جاتی ہے، احترام سے نوازا جاتا ہے. بیٹی کے استعمال کے لیے ہر طرح کی چیز ”جہیز“ کے نام پہ دی جاتی ہے اور یقین کیجئیے ایسی ایسی چیزیں والدین دیتے ہیں جو اُن کے اپنے گھر میں بھی موجود نہیں ہوتیں۔

چند دن کی خوشیوں کے بعد یہ نام نہاد مرد، جن کو اپنی مردانگی پہ بہت غرور ہوتا ہے، کسی چھوٹی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ایک کمزور و ناتواں عورت پر ہاتھ اُٹھا کر، اپنی مردانگی و طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں.

ایسے میں اللہ کے ہاں کیسی پکڑ ہو گی کبھی اس بارے میں بھی یہ مرد سوچ بچار ضرور کریں.
اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ:
وہ دنیا تھی جہاں تم بند کرتے تھے زباں میری،
یہ محشر ہے، یہاں سننی پڑے گی داستاں میری

مجھے سمجھ نہیں آتی آخر کیوں ہمارے معاشرے میں مرد کے غصے کا یہ کہہ کر ”دفاع“ کیا جاتا ہے کہ ” وہ تو مرد ہے، غصے میں ہاتھ اُٹھ جاتا ہے، تو کیا ہوا، مرد ایسے ہی ہوتے ہیں، تم معاف کر دو، اپنا گھر بچاؤ“

ایسے مرد کا ہاتھ غصے میں اپنے افسر ، اپنے سینئیر یعنی کسی طاقتور پر کیوں نہیں اُٹھتا؟؟؟؟
اُس وقت مردانگی کہاں جاتی ہے؟

آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیے آپ کو ایسے بے شمار کیس نظر آئیں گے، عورتیں اپنے خاندان اور شوہروں کی عزت کا سوچ کر چپ رہتی ہیں، کسی سے ذکر تک نہیں کرتیں، اپنے آنسو پی جاتی ہیں۔

آج اس سراب سے خدارا باہر نکل آئیے کہ مرد اہسے ہی ہوتے ہیں.

ہاتھ اُٹھانے والے مرد ، مرد نہیں ہوتے وہ تو مرد کی کھال اوڑھ کر مردانگی کی نام پر صرف وحشت دکھاتے ہیں مگر اندر سے گیدڑ ہوتے ہیں، نہایت ہی بزدل اور مردانگی سے عاری۔

سب کے سامنے اتنے میٹھے ہوتے ہیں جیسے ان سے بڑھ کر کوئی پیار کرنے والا انسان دنیا میں موجود ہی نہیں۔

اپنے آپ کو دنیا کا مظلوم ترین انسان بنا کر پیش کرتے ہیں کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان مردوں کو
کسی روز ٹھنڈے دماغ سے، ٹھنڈے کمرے میں نیند پوری کر کے، ایک کاغذ اور قلم لے کر تسلی سے بیٹھ کر سوچنا اور لکھنا چاہیےکہ کیا ایک عورت ذات پر، اپنے بچوں کی ماں پر، کسی کی بہن بیٹی پر ہاتھ اُٹھانا مردانگی ہے؟

کل کو میری بہن کی بھی شادی ہو گی، بیٹی کی بھی شادی کروں گا، اگر اُس کا شوہر اُس پر ہاتھ اُٹھائے گا تو مجھ پر کیا بیتے گی؟ کیا میں وہ سب سہہ سکوں گا؟ کیا میری بہن بیٹی کے جسم پر بے دردی سے لگائی گئی ضربیں، ڈنڈے، جوتے، تھپڑ اور اُن کے زخم اور اُن سے بہتا لہو، کیا میں دیکھ سکوں گا، سہہ سکوں گا؟

صاحب ! ہوش کے ناخن لیجیئے، وقت ہے سمجھ جائیے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

اِس طرح کے مرد جوانی ڈھلتے ہی، ناکارہ سامان کی طرح، گھر کے ایک کونے میں پڑی چار پائی پر کھانستے کھانستے مر جاتے ہیں. اپنی ہی اولاد بات کرنے کی روادار نہیں ہوتی، بس احترام کی وجہ سے کچھ بولتی نہیں، اُن میں پیار کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں