ارطغرل غازی، ترک ڈرامہ

ترک ڈرامہ ” ارطغرل غازی “ کی امریکا میں بھی مقبولیت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پاکستان میں ترک ڈرامے ارطغرل غازی نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور گھر گھر اس کے فنکاروں کے چرچے ہو رہے ہیں۔ لاہور میں ارطغرل کو خراج پیش کرنے کے لیے ان کے مجسمے بھی نصب کیے گئے ہیں۔ امریکا میں لوگ اس ڈرامہ سیریز کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

”ارطغرل غازی“، ترکی میں نشر ہونے کے بعد تاریخی پس منظر کی حامل یہ سیریزجہاں متعدد ملکوں میں ‌ڈبنگ کے بعد نشر کی گئی وہیں اس نے پاکستان میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔

نیٹ فلیکس پر اس سیریز کے پانچوں سیزنز موجود ہیں۔ امریکا میں بھی اسے ناظرین بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ عراقی نژاد امریکی خاتون ’ دعا الاروئی ‘ کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں‌ہوتا ہے۔

دعا الاروئی

دعا کہتی ہیں:
” ہم سب خاندان والے مل کر کافی اور سنیکس کے ساتھ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہی ہمارا فیملی ٹائم بھی ہوتا ہے۔ یہ ڈرامہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ یہاں تک پہنچنے کے لئے مسلمانوں نے کس قدر جدوجہد کی ہے۔“

ترکی سے تعلق رکھنے والے یلسن کایا کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک آدھ قسط دیکھی ہے کیونکہ امریکا میں رہتے ہوئے زیادہ وقت نکالنا مشکل کام ہے۔ میں زیادہ تر مزاحیہ فلمیں یا ڈاکومنٹریز دیکھتاہوں۔ لیکن ” ارطغرل “ ہمارا کلچر ہے اور مجھے پسند ہے۔ لیکن اتنا وقت کہاں سے لائوں؟ “

یلسن کایا

مسلمان ہی نہیں بلکہ یہاں ‌بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ بھی اس سیریز کو شوق سے دیکھتے ہیں۔ لائبیریا سے تعلق رکھنے والی ویلما کو اس میں‌ایک خاندان کے تصور نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں:

” وہ سب مل بانٹ کر کھاتے ہیں، اکٹھے ہنستے ہیں اور ایک ہی ساتھ روتے ہیں، میں‌ نے اس کے علاوہ اسلام کے بارے میں اور چیزیں ‌بھی جان لی ہیں کہ مسلمان کس موقع پر کیا کہتے ہیں، اور یہ کہ ان کا رہن سہن کیسا تھا،

ویلما

وائس آف امریکا کے مطابق بھاری سرمایے سے بنائے گئے اس پراجیکٹ ‌کو رجب طیب ایردوان حکومت کی حمایت شامل تھی جس پر کئی حلقوں کی طرف یہ تنقید کی گئی کہ ایردوان خلافت کی تاریخ‌ کو اجاگر کرکے ترکی کو اسلامی دنیا میں اہم مقام دینا چاہتے ہیں۔

لیکن پالیٹیکل سائنس میں‌پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے” ایردم تیکنیل “ اسے مختلف زاویے سے دیکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

ایردم تیکنیل

” سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایردوان ہی ہیں جو یہ سوچ ابھارنا چاہتے ہیں، یا پھر خلافت میں ان کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کچھ مخصوص لوگ اپنے مفادات کے لئے اس ڈرامے کے ذریعے ان کی نظروں میں آنا چاہتے ہیں۔ “

وائس آف امریکا کی ترک سروس سے تعلق رکھنے والے ارحام پولات کہتے ہیں کہ
” آپ ایردوان کو خلافت کا ایک فین کہہ سکتے ہیں، وہ ہمیشہ اس کے بارے میں بات کرتے ہیں لیکن ترکی میں‌ خلافت کے موضوع پر گزشتہ ایک دہائی سے ڈرامے بن رہے ہیں۔ ایردوان کو جب محسوس ہوا کہ ان کے حامی اور پرستار خلافت کے دور کو پسند کرتے ہیں تو شاید یہی ایک وجہ ہے ان کی اس پراجیکٹ کی حمایت کی۔“

یلسن کایا کہتے ہیں:
” میں نہیں سمجھتا کہ ایردوان ایسی کوئی کوشش کررہے ہیں، خلافت کبھی واپس نہیں آسکتی، آج کی جدید دنیا میں آپ ایسا کر ہی نہیں سکتے۔

سیدہ زیب رانجھا

وائس آف امریکا کی ’سیدہ زیب رانجھا ‘ کہتی ہیں:
”ترک گیم آف تھرونز کہی جانے والی اس سیریز کوپسند کرنے کی ہر ایک کی جو بھی وجہ ہو، لیکن ارطغرل کے پرستاروں کا کہناہے کہ اس کی ایک قسط دیکھنے کے بعد آپ اس کے پانچوں سیزنز دیکھے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ “


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں