خاتون کا ہاتھ، قلم، نوٹ بک

توکل علی اللّٰہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

سمرہ ملک:
”کہاں ہو یار! میں تمہیں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں، یہاں کیوں بیٹھی ہو؟ “
زوہیب، ثانیہ سے کہہ رہا تھا ۔
”شفق کب سے کینٹین میں انتظار کر رہی ہے۔ اور تم۔۔۔“ وہ قریب آتے آتے رکا۔ ثانیہ نے جلدی سے ڈائری بند کرکے بیگ میں رکھی۔
”یہ تم کیا لکھ رہی تھیں؟“
”کچھ نہیں۔“
” بہت غلط بات ہے۔ ثانیہ تم نے مجھے اتنی بڑی بات نہیں بتائی۔“
”میں نے کیا نہیں بتایا؟“
”یہ جو تم چھپا رہی ہو۔ تم لکھتی ہو اور بتایا تک نہیں، لا ؤ ادھر دو ڈائری۔“ ثانیہ نے بنا کچھ کہے ڈائری اسے دیدی۔

زوہیب نے ایک نظر ڈال کر ڈائری کو بیگ میں ڈال دیا۔ ثانیہ اس کی کسی بات سے انکار نہیں کر پاتی تھی۔ وہ صرف کزنز ہی نہیں بہت اچھے دوست بھی تھے۔
”چلو کینٹین چلیں،“
”ہاں! چلیں بہت بھوک لگی ہے۔“

ابھی یونیورسٹی میں ایک ہفتہ ہی ہوا تھا کلاسز سٹارٹ ہوئے۔ ایجوکیشن کے سٹوڈنٹس تھے۔ تینوں، تین سال سے ساتھ تھے۔ اچھی بونڈنگ بن گئی تھی اب تو، پہلے انہوں نے گریجویشن کیا تھا۔ اور اب ثانیہ کی ضد پر یہاں ایڈمیشن لیا تھا۔ ان کی لیب اسسٹنٹ نے ان تینوں کا گروپ بنایا تھا، جو آج تک قائم تھا۔
”تم بیٹھو میں کھانے کو کچھ لاتا ہوں۔“

شفق ثانیہ کو دیکھتے ہی غصے سے بول پڑی: ”کہاں رہ جاتی ہو تم؟“
ان کا ٹیبل فوڈ کاؤنٹر کے ساتھ تھا اس لیے زوہیب بہ آسانی ان کی گفتگو سن سکتا تھا۔
”تم نے کیا سوچا ثانیہ پھر؟“
”کس بارے میں شفق؟“
”تم سے یہ امید نہیں تھی کہ تم بھول جاؤ گی۔ ارے بھئی بتایا تھا نا اگلے ہفتے رائٹنگ کامپیٹیشن ہے یونی میں۔ آئی مینز ناول / افسانہ رائٹنگ ۔ تم حصہ لے رہی ہو نا ؟“

”نہیں یار میں کیسے لے سکتی ہوں، یہ ناممکن ہے۔“
”کچھ نا ممکن نہیں ہوتا ،ممکن بنایا جاتا ہے، نا ممکن تو خود کہتاہے کہ میں ممکن ہوں“
شفق مسکرا رہی تھی۔
”مگر میں ہار جاؤں گی، میں اتنا اچھا نہیں لکھتی۔“
”تم یہ فیصلہ کیسے کرسکتی ہو۔ تم ہارنے سے ڈرتی ہو بھلا ، تم سوچ ہی کیوں رہی ہو ایسے؟“

شفق کی آواز اونچی ہورہی تھی۔ وہ بہت بار اسے سمجھا چکی تھی مگر ثانیہ کی مثال تو مانو ایسے تھی جیسے بھینس کے آگے بین بجانا۔
”کیا ہوگیا، کیوں بحث کر رہے ہو؟“
”زوہیب! دیکھو!! میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ یہ حصہ نہیں لے رہی۔ پچھلے تین سال سے لکھ رہی ہے خدا کی بندی، مگر کہتی ہے میں نہیں لکھ سکتی ۔ تم پڑھو زرا اس کی لکھی ہوئی کہانیاں، بہت اچھا لکھتی ہے۔“

”کیا بات ہے تم کیوں حصہ نہیں لینا چاہتی؟“
”میں اچھا نہیں لکھتی زوہیب“
”اس بات کا فیصلہ تم کیسے کرسکتی ہو ثانیہ؟
یہ تو پڑھنے والا بتائے گا کہ تحریر کیسی ہے، معیار کیا ہے لکھنے والے کا۔
ہاں۔ ۔ مگر۔ ۔۔“

”مگر کیا؟ کیا تمہیں اللّٰہ پر توکل نہیں ہے؟“
”ہے۔۔۔ زوہیب، بالکل ہے۔ الحمداللہ ۔ لیکن۔ ۔ ۔“
”لیکن کیا؟ یہ صلاحیت تو تمہیں اسی نے نوازی ہے۔ تحفہ دیا ہے تمہیں اس پاک رب نے، تم اسے استعمال نہیں کروگی؟“
”شفق بتا رہی تھی تم اچھا لکھتی ہو اور شاید اسلامک بھی ہے۔

” تم قرآن کی آیات اپنی تحریر میں استعمال کرتی ہو۔۔۔“
اللہ کی بنائی ہوئی ہر چیز مکمل ہے نا، تو اس میں خامی نہیں ہو سکتی۔
ہا ں! مگر کمی ہو سکتی ہے، وہ ہماری اپنی وجہ سے۔ اور کمیوں کو تو پورا کیا جاسکتا ہےمزید محنت، لگن اور کوشش سے۔“
ثانیہ شکست خوردہ انداز میں بولی:
”مجھے ہار سے ڈر لگتا ہے۔ میں ہارنا نہیں چاہتی، کبھی کبھی بھی ۔“
”واہ! اور ہار کے ڈر سے آپ وہ کام ہی نہیں کریں گی جو آپ بخوبی سرانجام دے سکتی ہیں۔
دیکھو! یار!! ہار سے تو نہیں ڈرنا چاہیے بلکہ ہار سے تو سیکھنا چاہیے۔
اور جب تک ہاریں گے نہیں تو مزید محنت کیسے کریں گے ؟
کیا تمہیں اللّٰہ پر بھروسا نہیں ہے؟ کہاں گیا سارا بھروسا، اعتماد اس ذات پر توکل اور یقین؟

تم تو خود ایسی ہی باتوں سے دوسروں کو کنونس کرتی ہو، پھر خود کیوں ہمت ہار جاتی ہو؟
تم کیوں سوچتی ہو تم ہار جاؤگی۔ وہ پاک اور رحیم ذات تمہیں ہارنے ہی نہیں دے گی۔ جب تم مکمل توکل اور یقین سے ہمت کروگی، تم اسی یقین سےمیدان میں قدم جماؤ، پھر دیکھنا مضبوطی اور ہمت وہ دے گا۔

لکھنا ایک صلاحیت ہے اچھا لکھنا نعمت اور نعمت امانت ہے ۔ نعمت کو استعمال نہ کیا جائے تو اس میں خیانت ہوجاتی ہے ۔ خیانت اچھا عمل تو نہیں ۔
جو لکھنا جانتے ہیں وہ نہ لکھیں تو ان کا نہ لکھنا گناہ ہوتا ہے ۔

قوم کا ان پر حق ہے ۔ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ لکھیں، وہ اس کو فرض کریں نا کہ قرض ۔ اگر تم اچھا لکھ سکتی ہو تو تم پر تمہارے قلم کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ ذمہ داریوں سے منہ نہیں موڑتے۔ ان کو پورا کرتے ہیں ۔
غزوات یاد ہیں نا؟ صحابۂ کرام کی مدد ان مشکلات میں اللّٰہ نے کیسے کی تھی۔ سب سے بڑھ کر غزوہ بدر۔
اللہ فرماتا ہے :

”اور یقیناً اللّٰہ تعالی نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بےسروسامان تھے۔ پس تم لوگ اللّٰہ سے ڈرتے رہو۔ تاکہ تم شکر گزار ہو جاؤ۔“

اسی آیت میں سر نے کیا بتایا تھا کہ اللہ اپنے بندوں کو شکرگزار بنانے کے لیے بھی مدد کرتا ہے ۔ تم اللّٰہ سے دعا کرو کہ وہ تمہاری مدد کرے۔ اور وہ تمہیں شکر گزار پائے گا۔

ان مشکل حالات میں کامیابی اللّٰہ ہی نے دی تھی،غیب کی مدد سے، حالانکہ ہم ان جیسے تو نہیں ہیں۔ وہ تو عالی مرتبہ اللہ کی رضا کے لیے جانیں قربان کردینے والے اور کہاں ہم۔
ہم سے تو چھوٹی سی بھی عزیز چیز قربان نہیں ہوپاتی کبھی کبھی۔

بائے دی وے۔۔۔ اس سب کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ وہ ذات ہے مدد کے لیے کافی۔۔۔۔ تم اس پر بھروسا کرو اورسب اس پر چھوڑ دو۔
اور اگر تم یہ سوچو گی کہ تم ہار جاؤ گی تو ، تو تم کفر کروگی۔“

”وہ کیسے؟“
”وہ ایسے کہ تمہارا ایمان کمزور ہوجائے گا، اور ایمان ایسے ہی کمزور نہیں ہو جاتا، یہ شیطان ہر دم ہمارے پیچھے ہے۔ پھر ابلیس تمہارے دل و دماغ میں وسوسے ڈالے گا اور مایوس کرے گا، تمہارے آگے سے پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے حملہ کرے گا ۔ وہ اوپر اور نیچے سے حملہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اوپر ہے دعا کا راستہ، نیچے ہے سجدے کا ۔یاد ہے سر عاطف نے کیا سمجھایا تھا؟
اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے۔“

”اور توکل کیسے ملتا ہے؟“
”وہ بھی دعا سے ملتا ہے ۔ دعا میں بہت طاقت ہے ۔
کوئی بھی ہماری ہمت نہیں ہوسکتا ، ہم اپنی ہمت خود ہوتے ہیں ۔ جب تک ہم ہی خود کو مضبوط نہیں بنائیں گے۔ تو کوئی دوسرا بھی مدد نہیں کر پائے گا۔
بچپن سے پڑھتے آرہے ہیں ہم:

”خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔“

پھر ہم یہ سب کیوں بھول جاتے ہیں؟
سارا کھیل پتہ ہے اس دماغ کا ہے ثانیہ جو جیسے سوچو گی وہ ویسے لگے گا اور ہوگا اور دوسری چیز یہ کہ تم کفران نعمت کروگی۔
کیا تمہیں یہ آیت یاد نہیں؟

”اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔“

یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اللّٰہ کی نعمتوں سے منہ موڑلیتے ہیں۔“
اگر ہار گئی تو جیت بھی جاؤ گی۔۔۔

”ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے“

یاد ہے؟
اور ہر ہار کے بعد جیت ہوتی ہے۔
اور تمہیں پتہ ہے نا کہ اللّٰہ کو صبر کرنے والے بہت پسند ہیں ۔
اللّٰہ فرماتا ہے وہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان کا دوست ہے۔
اگر ہار گئی تو صبر کرلینا۔ اس رب کو اچھا لگے گا۔
اللّٰہ کو کوشش اور محنت کرنے والے پسند ہیں۔“

وہ مان گئی ۔ وہ اپنی جیت اللہ کے سپرد کرنا چاہتی تھی۔ اب وہ وقت آگیا تھا جب اس کے ایمان کا امتحان تھا، آزمائش تھی۔

”اور جنہوں نے کہا ہم ایمان لے آئے تو کیا یہ کہہ دینے سے چھوٹ جائیں گے اور آزمائے نہ جائیں گے؟“
القرآن

جو جیتتا اس کو رائٹر آف دی ائیر کا ٹائٹل ملنا تھا۔
خوبصورت صبح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوئی تھی ۔ آسمان نیلا تھا، پرندے اپنی سریلی آوازوں میں اپنے اپنے انداز میں اللّٰہ کی پاکی بیان کر رہے تھے۔ ایسے میں ثانیہ نماز فجر ادا کرکے دعا مانگ رہی تھی۔
”یا اللّٰہ۔۔۔۔ اے رحیم بادشاہ!!! اے مجھ حقیر جان کے رب!!! میرے مالک!!! آج یا تو میں سلیکٹ ہو جاؤں گی یا پھر نہیں۔ مگر میرے مالک تو بہت رحیم ہے۔ تیری رحمت کی چادر بہت وسیع ہے۔اے اللّٰہ تو ”کن“ کہے گا اور ہو جائےگا تو چاہے گا تو ہوگا اے میرے خالق پھر تو چاہ لے ۔ میری مدد فرمانا۔ میں آپ کی مدد کی مستحق ہوں۔ آپ مجھے اپنا شکر گزار پائیں گے۔ آمین“

یونیورسٹی میں سارے انتظامات تقریب کے پورے ہو چکے تھے ۔مہمان خصوصی اور طلباء بھی آچکے تھے۔
مس آمنہ نے تقریب کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ آج تقریب کس حوالے سے منعقد کی گئی تھی۔
پارٹیسی پینٹس کے لیے اسٹیج کی دائیں جانب بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔آٹھ طلبا و طلبات چنے گئے تھے اب ان میں سے فیصلہ کیا جانا تھا۔ کون ہوگا ٹائٹل کا حق دار۔

ان طلباء کو اپنے لکھے گئے مضمون کے حوالے سے تین منٹ کی اسپیچ کا موقع دیا گیا تھا۔
ثا نیہ کی چوتھی باری تھی، دعا اپنی اسپیچ مکمل کرکے جاچکی تھی۔
ثا نیہ کا نام پکارا گیا تو وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسٹیج کی جانب بڑھی۔ مائک سنبھال کر اسنے سب سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر سورۃ الاخلاص کی تلاوت کی۔ پھر اس نے سب کو سلام کیااور اپنے اس عمل کی وضاحت کرنے لگی :

”میرا رب ہی اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ میں کیا حاصل کرتی ہوں آج ،توکل علی اللّٰہ میرا عنوان تھا۔ میرے عمل کی عکاسی یہیں ہوتی ہے۔ ہمیں کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اللّٰہ کو یاد کرلینا چاہیے۔ ناصرف کام بہترین انداز میں ہوتا ہے۔ بلکہ اللّٰہ اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔ توکل علی اللّٰہ سے مراد ہے کہ انسان کو کسی بھی مشکل، کسی بھی تکلیف یا کسی بھی خوشی کے لمحے میں صرف اور صرف اللّٰہ کی ذات پر توکل کرنا چاہیے اسی پر بھروسا کرنا چاہیے اسی سے امید لگانی چاہیے۔ وہ امیدوں کو توڑتا نہیں ہے ۔ آج کی دنیا اور اس دنیا کے باسی بہت ظالم ہوگئے ہیں ۔ ایسے میں ہمیں کیسے خود کو موٹیویٹ کرنا ہے، کیسے اپنی مدد آپ کرنی ہے کیسے اللّٰہ سے رشتہ جوڑنا ہے۔ اس سب میں سب سے پہلے تو اللّٰہ کی پاک کتاب مدد کرے گی۔ اس کے بعد ہم اور ذرائع سے بھی اپنے مسئلے حل کرسکتے ہیں۔

میری کہانی کا مقصد یہی بیان کرنا ہے کہ انسان کو اپنے تمام اچھے اور برے حالات صرف اللّٰہ سے بیان کرنے چاہیے ورنہ انسانوں کے آگے رونے روتے رہیں گے تو انسانوں ہی کے ہوکر رہ جائیں گے ۔ اپنے دکھوں کا ازالہ خود کرنا سیکھیں۔ کسی دوسرے کا کندھا تھامنے کی خواہش ترک کردیں۔ پھر جو اللّٰہ کو چھوڑ کر لوگوں کے پیچھے بھاگتا ہے تو اللّٰہ پھر اسے لوگوں ہی کہ پیچھے خوار کردیتا ہے۔ یہ دنیا فانی ہے۔ یہاں کا کوئی رشتہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے۔ اگرکو ئی رشتہ باقی رہے گا تو وہ صرف ہمارا اور اللہ کا تو کیوں نا ہم اس رشتے کو مضبوط کریں کہ کسی اور رشتے کی حاجت ہی باقی نہ رہے۔

میرا افسانہ اللہ سے دوستی پر انحصار کرتا ہے۔ ایک ایسے مایوس شخص کی کہانی جو مایوسی کا دامن چھوڑ کر توکل کی سیڑھی چڑھتا ہے۔ تو دنیا و آخرت کی کامیابیاں خرید لیتا ہے ۔ توکل ایمان کا تقاضا ہے ۔ اور ایمان میں کامیابی کے لیے توکل کی سیڑھی چڑھنی پڑتی ہے ۔“

وہ اپنی سپیچ مکمل کرکے سٹیج سے اتر گئی تھی ۔ اب نتائج کا لمحہ آن پہنچا تھا ۔
اس نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے گہری سانس لی اور میڈم کی اناؤنسمنٹ سننے لگی ۔ دوسری اور تیسری پوژیشنز بتادی گئی تھیں اس کو پہلی کی توقع نہیں تھی مگر پھر بھی وہ توکل کی سیڑھی سے اترنا نہیں چاھتی تھی اور اللہ نے اسے مایوس نہیں کیا تھا ۔ وہ پہلی پوزیشن حاصل کر چکی تھی ۔

میڈم مجمعے سے آخری کلمات کہتے ہوئے گویا ہوئیں:
”یہ تحریر بہت خوبصورت ہے لائبریری میں رکھوادی جائے گی ۔ آپ سب ایک بار پڑھیے گا ضرور ۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو انسان کو ہر مشکل سے گزرتے ہوئے توکل کو تھامے رکھنے کا درس دیتی ہے۔ یہ بتاتی ہے ، جتاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی حامی و مددگار نہیں ہوتا۔ صرف اسی سے امید لگانی چاہیے۔ مضبوط و مستحکم ارادے کے ساتھ ۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہر حال میں ہمیں توکل کرنے کی توفیق عطا کرے ۔ آمین ۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں