ابن فاضل، کالم نگار سمندر کے کنارے کھڑ ے ہیں

جہازراں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابن فاضل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنی بھلی بری یا ڈھکی چھپی تاریخ ہم نے پڑھ ، سن یا دیکھ رکھی ہے اس کے بلحاظ تاریخ کی مشہور رانیاں یہ ہیں: جھانسی کی رانی، جنرل رانی، فلمسٹار رانی، رانی توپ، رانی مکرجی اور بلورانی. لیکن ان سب میں سے جو رانی ہمیں ذاتی طور پر بہت پسند ہے، بلکہ یوں سمجھ لیں کہ ہم عہد شباب سے ہی اس کے عشق میں گرفتار ہیں، وہ ہے جہازرانی.

احتیاط رہے کہ یہاں جہاز سے مراد ٹائیٹینک فلم والا جہازہرگز نہیں ہے اور نہ ہی جہازاور رانی کے درمیان ‘والی’ کی قطعاً کوئی گنجائش ہے. . تاریخ میں یوں تو بہت سے مشہور جہازراں گزرے مگرہماری نظر میں جنہوں نے بطور خاص جہازرانی میں نام کمایا وہ واسکوڈے گاما، کرسٹوفر کولمبس اور بابا دینہ تھے.

بلکہ شاید بابا دینہ کا نمبر پہلا ہو کہ ہم چشم دید گواہ ہیں، ان کی پرانے کیلنڈروں اور سگریٹ کی ڈبیوں سے بنائی کشتی، گلی میں کھڑے بارش کے پانی میں گھنٹوں تیرتی رہتی. دیگر دو کی جہازرانی البتہ سنی سنائی ہے. عصر حاضر میں جہازرانی میں جو نام اور روپیہ کمارہے ہیں ، وہ ہیں اپنے امارات کے شیخ احمد . جی بالکل وہی امارات ائیر لائن والے. بھئی کیا خوب جہازراں ہیں. ایک سو سے زائد اے 380 ائیر بس رکھتے ہیں.اور قریب اتنے ہی بوئنگ 777. اور بچونگڑے جہاز تو شمار میں ہی نہیں.

قابل خرگوشوی معمول کے مطابق ایک دن میں میں صرف چوبیس گھنٹے فارغ رہتے ہیں.لیکن آج کل کساد بازاری کی وجہ سے معمول سے کچھ زیادہ فارغ ہوتے ہیں، لہٰذا ہماری اصلاح کافریضہ اور بھی تندہی سے سرانجام دیتے رہتے ہیں، فرماتے ہیں کہ یہ ترکیب ‘جہازراں’ تاریخی طور پر بحری جہازوں کے لیے استعمال ہوتی آئی ہے، آپ اگر بضد ہیں تو امارات والوں کو. "ہوائی جہاز راں” کہہ لیں. .آپ ‘بحری جہازراں’ کہیں نا، اس میں امارات والوں کا کیا قصور ،کہ ہوائی جہاز سائنسدانوں نے دیر سے ایجاد کیا.اور بحری والوں نے ‘جہازراں’ پر پہلے ‘مل’ مار لیا. اس پر ان کا استدلال بڑا وزنی ہے. ان کے اپنے وزن سے بھی زیادہ…. فرماتے ہیں ہمارے والد صرف اس لیے والد ہیں کہ ہم سے پہلے "ایجاد” ہوئے، اور ان کے والد محض اسی خوبی کی بنا پرہم پر دادا لگے ہوتے ہیں…. اور انہوں نے کوئی رکاوٹوں والی دوڑ میں کپ نہیں جیتا ہوتا.

ترکیب جہازراں کا کُھرا تلاش کرتے ہوئے، ہمارا دھیان ‘راں’ کی طرف جاتا ہے. جاٹوں کی ایک گوتھ ہے. ہوسکتا ہے پہلے یہ بھی جہازراں ہی ہوں، پھر کوئی ان کا جہاز چرالے گیا تو محض "راں” رہ گئے. ورنہ اتنا عجیب اور پھسپھسا نام رکھنے کی کیا ضرورت تھی. اس سے تو بہتر تھا (raw) ہی رکھ لیتے کم از اسم بامسمی تو ہوتے. دوسرا امکان یہ ہے کہ راؤوں کا کوئی لڑکا ‘جہاز’ نکل آیا ہو. جسے سب ‘جہازراں’ کہتے ہوں. اور وہ بڑا ہو کر واسکوڈے گاما بن گیا ہو. ویسے بھی دیکھیں نا، واسکو ہی تو تھوڑا مختلف ہے ، یہ ‘دے’ اور ” گاما” تو بالکل اپنے اپنے سےلگتے ہیں .

عصر حاضر کی جہازرانی کے ذرائع میں، اپنے حجم، ساخت، ٹیکنالوجی اور قیمت کے لحاظ سے ہمیں ائیربس اے380 بہت متاثر کن لگتی ہے. آٹھ سو سے زائد سواریاں اور کل پانچ سوپچہتر ٹن وزن لیکر اڑنے کی صلاحیت رکھنے والا یہ جہاز اپنے اندر پورا ایک جہان رکھتا ہے. تین لاکھ پچیس ہزار لیٹر استعداد کے ایندھن کے ٹینک ہیں. یہ اے 380 ائیر بس کا ہمارا پہلا سفر تھا. ہم امارات کی ایک پرواز کے ذریعہ دوبئی سے شنگھائی جارہے تھے. لاؤنج کے دیوارگیر کانچ سے جہاز پر نظر پڑی تو جہاز سے قبل ہمارے ہوش پرواز کرگئے. اس قدر بڑا… کہ جیسے پورا جہاز کا جہاز.. بہت ہی بڑا… کیسے سمجھاؤں کہ کتنا بڑا جہاز.. بس یوں سمجھ لیں کہ ہاتھی سے بھی بڑا….. بلکہ ہاتھی تو کچھ بھی نہیں… ہمیشہ اُسی قیمت میں تیس فیصد زیادہ ملنے والے ڈٹرجنٹ کے پیکٹ سے بھی بڑا…….. بلکہ ہمارے حکمرانوں کے وعدوں اور ان کی کارکردگی کے درمیان موجود فرق سے بھی بڑا….. لیکن نہیں اس سے چھوٹا تھا…. شاید ‘شانہ بشانہ’ والی کسی آنٹی کے دل میں جاگزیں لمبی مونچھوں والے کسی درمیانے سائز کے لال بیگ کے خوف جتنا بڑا ….
یا شاید کسی بدعنوان سرکاری افسر کی لالچ جتنا… نہیں نہیں….. اولاد کی خواہشات کی تکمیل کی چکی میں پستے ہوئے کسی غریب باپ کی قوت برداشت جتنا…. بھیڑیوں کے اس ریوڑ میں جواں سال بیٹی کو کالج بھیجتے ہوئی ماں کے کالجے جتنا…

جہاز میں سوار ہوئے تو عجب ہی نظارہ تھا. مشرق سے مغرب تک اور مغرب سے مشرق تک تاحد نگاہ جہاز ہی جہاز… نشنشتیں ہی نشستیں… اور ان کے پیچھے مزید نشستیں اور ان کے پیچھے بھی اور نشستیں. سوار ہونے سے قبل ہمارا خیال تھا کہ اتنے بڑے جہاز میں کچھ کھلی کھلی سیٹیں ہوں گی. کہ سات گھنٹے کی پرواز کچھ سکون سے ہوجائے گی. مگر سیٹ پر بیٹھتے ہی لگا جیسے پابند ‘سراسر’ کردیا گیا ہو. بالکل اتنی جگہ تھی جتنے کہ ہم خود… ایسا لگا انڈے کو ایگ ٹرے میں رکھ دیا گیا ہو.

سرکاری ٹی وی پر جدید ٹیکنالوجی کی ترویج کرتے کسی ماہرمرغیات سے سنا تھا کہ انڈہ دینے والی مرغی کا ڈربہ بالکل مرغی کے حجم جتنا ہوتا ہے. تاکہ وہ زیادہ ہل جل کر اپنی توانائی ضائع نہ کرے اور سارا کا سارا زور انڈہ بڑا کرنے میں صرف کرے. لگتا ہے یہ پروگرام اس کمپنی کے فنانس ایڈوائزر نے بھی دیکھ رکھا تھا. مگر پھر بھی کچھ رحم تو کرتے کہ اس مرغی سے تو انڈہ پہلے ہی کمپنی وصول کر چکی تھی. اور مرغی مذکورہ روزانہ تو ایک انڈہ دینے کے موڈ میں نہیں.

بہرحال جیسے تیسے، پھنسے دھنسے آدھ گھنٹہ بڑے مہذب انداز میں جنٹلمین بن کربیٹھے گزار لیا. اس عمل میں ہمارے ہی نیچے ہمارا جو حصہ دبا ہوا تھا اس میں خون کی روانی بری طرح متاثر ہوچکی تھی. خیال تو یہ تھا کہ پرواز کرتے ہی باسہولت نشستوں پر ٹانگیں پسار کر پرسکون سوئیں گے کہ رات بھر کے جاگے تھے. مگر عالم یہ تھا ہم سے پہلے ہمارے جملہ اعضاء رئیسہ سوچکے تھے. مہذب بنےرہنے کے شوق میں ہمارے صرف بازوں، ٹانگیں کمر اور گردن سن ہوئے تھے. تب ہم نے فیصلہ کیا کہ مہذب نظرآنے سے بقید حیات رہنا کہیں زیادہ اہم ہے…. سو ضروری ہل جل کی جائے تاکہ جسم کے ہر حصے کو میٹابولزم کے لیے تازہ آکسیجن والا لہودستیاب ہو.

دائیں، بائیں تو حرکت کی گنجائش نہیں تھی. سو ہدف کے حصول کی خاطر ہم نے خود کو تھوڑا سیدھا کیا ٹانگیں سامنے کوپھیلائیں کہ پاؤں اگلی مرغی کے ڈربے.. مطلب نشست کے نیچے دور تک چلے گئے. اب جسم کو کسی قدر اکڑایا اس عمل میں ہمارا صرف رانوں کا نچلا حصہ اور کندھے سیٹ کے ساتھ لگے تھے باقی سارا جسم ہوا میں تھا. ہم بالکل چھوٹے بچوں کی "سلائیڈ” جیسے بنے تھے.

نیند کاغلبہ تھا. پوز کی تبدیلی سے جو کچھ آسودگی میسر آئی تو سوگئے. نیند میں لگا گھنٹہ بھر سوئے ہوں گے لیکن گھڑی نے بتایا کہ فقط بیس منٹ گزرے ہیں. جاگنے کی وجہ شعور کا ارتقاء نہیں بلکہ ہمارے جو دو مقامات مقدسہ سیٹ پرٹکے تھے اس بار ان میں گردشِ خون متاثر ہوئی تھی ،سو اب وہ سو چکے تھے. چونکہ یہ کھیل کا لازمی اصول تھا کہ یا ہم سوئیں گے یا ہمارے اعضاء. سو پھر سے ہم جاگ رہے تھے.

سوئے ہوئے اعضاء کو سہلایا، اور تازہ دم ہوکر پھر سے سونے کی تیاری کی. اس بار ہم نے "تبدیلی پوز” کی بابت رخ فاضل دائیں طرف کیا. دایاں گھٹنہ موڑکر سیٹ پر رکھا اور بائیں ٹانگ آزاد چھوڑی. سر سیٹ کے ساتھ ٹکایا. یوں سمجھ لیں کہ ہم اور سیٹ مل کر انگریزی حرف اے بنے تھے. پھر وہی معمول ایک گھنٹہ کی نیند جاگے تو بیس منٹ مزید گزر چکے تھے. اس بار سونے کی ذمہ داری دائیں کان، دائیں کندھے اور بائیں پاؤں نے ادا کی.

ایک بار یوں بھی ہوا کہ ہم نشست پر پچھلی طرف منہ کر کے تشہد بیٹھے ہوئے سر سیٹ پر ٹکا دیا . یوں جو منظر بنا وہ بالکل ایسا تھا جیسا گاؤں کی دو بوڑھیاں ایک دوسرے کے گلے لگ کر تعزیت کررہی ہوں. اس بار گھٹنے اور ماتھا سن ہوا. بس اگلا سارا سفر اسی طرز پر کبھی اردو کی ‘ح ‘اور کبھی انگریزی کا ‘ پی ‘ بنے طے کیا. اور ہر بار مختلف اعضاء جیسے آنکھ، چہرہ، پنڈلیاں وغیرہ سو کر اپنا اپنا فرض کفایہ ادا کرتے رہے. ایک اندازے کے مطابق سات گھنٹے کی پرواز میں ہم کل ملا کر سترہ اٹھارہ گھنٹے سولیے.

اس دوران ،درمیان درمیان میں جہاز کا عملہ مقدور بھر ہماری خدمت بھی کرتا رہا. کبھی کوئی صہیونی سازشوں ایسا نہ سمجھ میں آنے والا جوس اور کبھی کوئی الجبرا کے سوال جیسا لاینحل کھانا. اوپر سے امارات والوں نے مسلمان ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے خدمت پربھی غلمان مقرر کررکھے تھے. زمین پر تو ہماری بارہا بس ہوئی تھی. لیکن ائیر میں بس پہلی بار ہوئی. یوں ہم نے حق الیقین کی حد تک جان لیا کہ کمپنی نے جہاز کا نام "ائیربس” کیوں رکھا ہے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں