قاری ‌خوشی محمد الازہری

راولپنڈی کا درویش قاری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جو عمر بھر حکمرانوں کے ساتھ رہا مگر نہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا، نہ جی بھر کر سویا

محمد اویس :

بزرگ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کلام اللہ ہے اور اس کو تمام کلاموں پر وہی فوقیت حاصل ہے جو اللہ تبارک تعالٰی کو پوری مخلوق پر ہے۔ جو کلام اللہ سے جڑ گیا وہ عزت اور رفعت پا گیا۔ یہ اخلاص اور نیت کا سودا ہے۔ جس نے جتنی محنت اور اخلاص سے کلام اللہ کو سیکھا، پڑھا اور سکھایا اس کو دنیا میں اسی قدر رتبے نصیب ہوئے اور آخرت میں جو اس کا اجر ہو گا اس کا ادراک اس دنیا میں ممکن ہی نہیں۔

راولپنڈی اگرچہ ملک میں کئی حوالوں سے ممتاز حثیت رکھتا ہے مگر اس کا ایک خاص تعارف اور بھی ہے جو قرآن پاک کے ایک سچے خادم اور نوکر کی وجہ سے ہے۔ یہ شہر قاری خوشی محمد کا مسکن ہے۔ کون ہے اس ملک میں جو قاری خوشی محمد کو نہ جانتا ہو۔ وہ دلکش آواز آج بھی ملک کی ایک پوری نسل کے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو چکی ہے جس نے پی ٹی وی کے پروگرام ’ اقراء ‘ میں حروف تہجی سے لے کر قرآن پاک کی مکمل تجوید سکھائی، اور ان کا قصیدہ بردہ شر یف آج تک سب کی ز با نوں پر عام ہے۔

قاری خوشی محمد 14فروری 1943کو اوکاڑہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ جنگجو قبیلے کھرل راجپوت سے تعلق رکھتے تھے۔ خوشی محمد جنھیں پورا ملک ہمیشہ قاری خوشی محمد ہی پکارتا ہے، نے ابتدائی تعلیم اوکاڑہ سے حاصل کرنے کے بعد کراچی کے جامعہ قاسمیہ سے تین سال کا تجوید اور قرآت کا کورس مکمل کیا۔ مگر قرآن سے ایسا قلبی اور روحانی لگاؤ قائم ہو چکا تھا کہ ابھی تسکین نہ ہوئی اور پھر جامعہ الازہر، مصر سے گریجویشن کی۔

قاری خوشی محمد کا واحد تعارف قرآن ہے اور اس کے بعد کسی تعارف کی ضرورت بھی کیا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اور پل قرآن ہی کے لئے وقف کر دیا۔ قاری خوشی محمد درویشانہ صفات کے حامل مرد قلندر تھے۔ دن رات میں صرف چھ گھنٹے آرام کرتے۔ زندگی بھر کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ دن میں صرف ایک مرتبہ کھانا کھاتے۔

قاری خوشی محمد کم گو تھے وہ بھی اس قدر کہ چند لفظوں میں اپنا مدعا بیان کرتے۔ شاید یہ فصاحت و بلاغت قرآن سے وابستگی کا ہی نتیجہ تھی۔ وہ آرام بھی مختصر وقت کے لئے کرتے اور ہر وقت یہی فکر دامن گیر تھی کہ زندگی بہت مختصر ہے جو قرآن سے وارفتگی کا ذرہ بھر بھی حق ادا نہیں کر سکتی۔ قاری خوشی محمد کا مقصد حیات اللہ تبارک وتعالیٰ کی فرمانبرداری اور اسوہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر عمل کرنا تھا۔

قاری خوشی محمد کو اللہ تعالیٰ نے مختصر زندگی عطا فرمائی۔ 11اگست 1998کو صرف 56سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کا انتقال دراصل ایک مطمئن روح کا رب کائنات سے وصال ہی ہے جو پوری زندگی قرآن مجید کی مزدوری کرنے سے حاصل ہوا اور اس مزدوری کا صلہ بھی ہے۔ اس فانی دنیا کی مختصر زندگی میں رب کائنات نے قاری خوشی محمد کو کثیر اعزازات سے نوازا۔

پاکستان کے علاوہ سعودی عرب، اردن، مصر، کویت، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مراکش میں بھی ان کی روح پرور آواز میں کلام پاک کو ریکارڈ کیا گیا۔ قاری خوشی محمد کو سر زمین حجاز مکہ اور مدینہ میں بھی تلاوت کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے سپین میں 32 گھنٹوں میں پورے قرآن کی تلاوت مکمل کرنے کا بھی منفرد اعزاز حاصل کیا۔ سپین سے ان کی قرآت سعودی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر بھی نشر کی گئی۔ ابو ظہبی میں انہوں نے 85 گھنٹوں میں پورے قرآن کی قرآت ریکارڈ کرائی۔ گھنٹوں میں پورے قرآن کی ریکارڈنگ یہ ان کی قرآن سے وابستگی کا ہی ثمر تھا۔ یہ قاری خوشی محمد کی پرسوز آواز کا معجزہ تھا کہ 25 غیر مسلموں کے دل ان کی آواز سے پگھل گئے اور وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

قاری خوشی محمد نے اپنی عملی زندگی کا آغاز رینالہ خورد میں قائم گلیکسو کمپنی میں ملازمت سے کیا اور پانچ سال بعد پاک بحریہ میں شامل ہوئے مگر قرآن مجید سے وابستگی نے دل کو ایسے سوز سے آشنا کرادیا تھا کہ دل کہیں اور ٹکتا ہی نہیں تھا۔

انہوں نے ان ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیا اور لاہور میں مقیم ہو گئے جہاں انہوں نے درس نظامی کیا اور نعت خوانی میں بھی کمال حاصل کیا۔ بعد ازاں انھیں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ملازمت ملی جہاں سے وہ امپرومنٹ ٹرسٹ راولپنڈی میں ٹرانسفر ہوئے اور راولپنڈی کے آرائیاں محلہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں انہیں ایوان صدر کا امام مقرر کیا گیا۔ ان کو ایوان بالا کے پہلے قاری کی حیثیت سے جنرل ایوب خان کے دور میں تعینات کیا گیا۔

قاری خوشی محمد سے قرآن پاک سے وابستگی کا فیض ان کی اگلی نسل میں پہنچا اور ان کے دو بیٹوں قاری نجم مصطفی کو 2007اور محمد محمود کو 2015 میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ قاری خوشی محمد کو ان کی خدمات کے صلہ میں 1980میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

قاری خوشی محمد کے مزید اعزازات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ وہ انٹرنیشنل قرآن اکیڈمی، الاظہر اینگلو عریبک کالج، الا اظہر انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹر سائنسز اور الاظہر ویلفئیر ٹرسٹ کے چیئر مین رہے۔ وہ جنرل سیکرٹری صوت القرآن آرگنائزیشن، سعودی عرب بھی رہے۔اس کے علاوہ بہت سے دیگر اعزازات اور عہدے ان کے نصیب میں آئے۔ مگر قرآن پاک کے خادم کے لئے دنیاوی چمک کیا اہمیت رکھتی ہے۔ ہاں ! ان کا سب بڑا اعزاز یہ ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی باشعور مسلمان ہو جو قاری خوشی محمد کے نام سے آشنا نہ ہو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں