کاروباری فرد ٹیکسوں تلے دباہوامحسوس کررہاہے

ری ٹیلرز کے لئے فکس ٹیکسیشن کا نظام

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد اعجازتنویر۔۔۔۔۔
تمام پاکستانیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے عمران خان کی حکومت شبانہ روز محنت کررہی ہے۔ یقیناً یہ کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری اقدام ہوتاہے۔ آج دنیا کی تمام ترقی یافتہ اقوام اپنی حکومتوں کو ٹیکسز کی صورت میں رقم فراہم کرتی ہیں جو قوم ہی کی زندگی میں آسانیاں فراہم کرنے پر خرچ ہوتی ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی جن اقوام میں ٹیکس چوری کا رواج ہے، انھیں اپنی حکومتوں پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ ان کے دئیے ہوئے ٹیکسز انہی کی بہتری پر خرچ کریں گی۔ آپ ایسی تمام اقوام کا تجزیہ کرلیجئے، ٹیکس دینے سے گریز کا سب سے بڑا سبب یہی نظرآئے گا۔

ایک دوسرا سبب یہ بھی ہوتاہے کہ ٹیکس لینے والے ڈنڈا لے کر قوم کے پیچھے پڑجاتے ہیں، حالانکہ ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنے ، پوری قوم کو اس کا حصہ بنانے کا واحد راستہ شعور پیدا کرنے اور ترغیبات دینے کا ہوتاہے۔ساتھ ہی ساتھ حکومتیں قوم میں اپنے بارے میں اعتماد کرتی ہیں کہ ان کا پیسہ انہی پر پوری دیانت داری سے خرچ ہوگا۔

پاکستان میں کاروباری حلقے جنھوں نے حکومتوں کو بڑے پیمانے پر ریوینیو فراہم کرناہوتاہے، مسلسل شاکی ہیں کہ ٹیکس اکٹھا کرنے والا ادارہ انھیں خوفزدہ کرتاہے۔ وہ انھیں ایک پیچیدہ نظام کا حصہ بناناچاہتاہے ، یہ عمل پہلے سے خوفزدہ کاروباری حلقوں میں مزید شکوک وشبہات پیدا کرتاہے۔

دنیا میں فکس ٹیکسیشن کا ایک نظام موجود ہے، پاکستان میں بھی فکس ٹیکسیشن کی تجویز 2016ءمیں ٹیکس اصلاحات سے متعلق ’سیدمسعود نقوی رپورٹ‘ میں پیش کی گئی تھی،بعدازاں یہ معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ فکس ٹیکسیشن کی بنیاد دکان کے سائز، کاروبار کی نوعیت اور حاصل ہونے والی آمدن کوبنایاجاناتھا۔

حکومت فکس ٹیکس ادا کرنے والے کو ایک ٹوکن جاری کرتی، جو وہ اپنی دکان میں ایک خاص مقام پر آویزاں کرتا، ایف بی آر والے آتے، اس ٹوکن کو دیکھ کر خاموشی سے واپس چلے جاتے۔ یوں کاروباری طبقے کو ہراساںکرنے کا سلسلہ ختم ہوجاتا۔

بعدازاں حکومتی حلقوں میں اس پر بھی سوچ بچار ہوتی رہی کہ فکس ٹیکسیشن کا نظام پہلے مرحلے پر اسلام آباد میں شروع کیاجائے یا پورے ملک میں ایک ساتھ ہی شروع کردیاجائے۔

پھر یہ اطلاعات آئیں کہ سب کچھ فائنل ہوچکا ، اب یہ نظام باقاعدہ رائج ہونے والا ہے، ایک اطلاع کے مطابق اسے 15اپریل2019ءکو نافذالعمل ہوناتھا تاہم اس کے بعد خاموشی سی چھاگئی۔

جب آپ ملک میں ٹیکس کلچرکی تشکیل کے مرحلے میں ہوتے ہیں تو بہت سی رعایتیں دینا پڑتی ہیں، ایسے میں اگرفکس ٹیکسیشن کو رواج دیاجائے تو اس سے لوگ بہ خوشی ٹیکس نیٹ میں شامل ہوتے ہیں ۔

بعض حلقے خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ فکس ٹیکسیشن کی وجہ سے حکومت زیادہ ریوینیو جمع نہیں کرپائے گی، یہ ایک خام خیالی ہے۔ اشیائے تعیش اور خدمات تعیش کی بنیاد پر فکس ٹیکسیشن کی جائے تو ریوینیو کی ساری کسرپوری ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس انداز میں یہ ایک منصفانہ عمل بھی معلوم ہوگا۔

حکومت نے فکس ٹیکسیشن کے نظام کو اب تک کیوں نافذ نہیں کیا، یہ ناقابل فہم امر ہے، جب کاروباری حلقے بالخصوص ری ٹیلرز بھی اس نظام کو خوش آمدید کہناچاہتے ہیں تو پھر اسے کیوں نافذ نہیں کیاجارہا۔ کیا حکومت بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے نتیجے میں ریوینیو میں کمی واقع ہوگی؟

ہم یقین دلاتے ہیں کہ ایسا ہرگزنہیں ہوگا۔ اس کے ایسے حیران کن نتائج سامنے آئیں گے کہ وزیراعظم عمران خان خود حیران رہ جائیں گے، وہ ایک سال میں 800ارب روپے اکٹھا کرنے کا اپناخواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھیں گے۔

اس تناظر میں ہم آج ایک بارپھر مطالبہ کرتے ہیں کہ چھوٹے اور بڑے دکانداروں ، سب کے لئے فکس ٹیکسیشن کا نظام وضع کیاجائے۔ کیونکہ اس سے بہت سے مسائل سے بچاجاسکتاہے،

اس کے نتیجے میں جہاں حکومت کے ریوینیو میں اضافہ ہوگا وہیں پاکستان میں ٹیکس نیٹ بھی بڑھے گا، تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ دکاندار اس پیچیدگی سے بچ جائیں گے جس سے انھیں ایف بی آر ڈراتا رہتاہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور کاروباری حلقوں کے درمیان میں اعتمادسازی قائم ہو اور انھیں پیچیدہ نظام کے بجائے سیدھے سادے نظام سے گزاراجائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں