ڈاکٹرجویریہ سعید، اردو کالم نگار، ماہر نفسیات

زخم کی جراحت کے بعد کا درد

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر جویریہ سعید :

دن ذرا لمبے ہونے لگے ہیں۔ اجنبی دیس کی گلیاں اور لوگ مانوس لگتے ہیں۔ ہلکے پھلکے مذاق کرتے میرے لہجے میں اعتماد جھلکنے لگا ہے۔ اس تھوڑے سے عرصے میں قدم اس قدر جما لیے ہیں کہ بازو کھول کر دوسروں کے لیے سایہ کرسکوں۔

میرے اردگرد پھولوں کے ڈھیر لگے ہیں، حوصلہ بڑھاتی، مان دیتی آوازیں ہیں۔۔ آئی کین سی یو ہیو گرون ان ٹو اے ویری کوفنڈنٹ اینڈ کومپیٹنٹ لیڈی، آئی لوو یو، وی ول مس یو، یور ہیلپ مینٹ اے لاٹ، یو آر اے ویل لووڈ پرسن، یو ڈڈ گریڈ، پلیز اسٹے ود اس، ایوری ون سپیک ویری ہائی آف یو۔۔۔ ۔۔۔ خوشبو، مسکراہٹیں پھول اور ادھر ادھر جلتے بہت سے چراغ۔۔۔

مگر میں یہاں بیٹھی ہوں۔ شہر سے دور اس ویرانے میں چپکے سے بہتے اس چھوٹے سے جھرنے کے پاس ایک پتھر پر۔ سناٹے میں چپ چاپ کھڑے درختوں میں کچھ کھوجتی ہوئی۔

مجھ سے چند ہی قدم دور وہ پائنچے چڑھائے پانی میں چل رہا ہے۔

سامنے درخت سے گلابی پھول ٹوٹ کر پانی میں آن گرا۔ بہتا ہوا سیدھا اس کے قدموں میں آیا ۔ اس نے جھک کر اٹھا لیا اور مجھے پیش کرتے تمسخرانہ انداز میں کہا۔۔۔
” ایسے ہی کئی پھول ملتے رہے ہیں نا تمہیں؟ “

میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور ہونٹ بھینچ کر نگاہیں پھیر لیں۔
اس نے دھیرے سے اس پھول کو دوبارہ بہتے پانی کی نذر کردیا۔
اور میرے چہرے کے پاس آکر کہا:
”Don’t you agree that you’re a good person, but not a good Muslim?“
میرا حلق خشک ہونے لگا۔

” کیا یہ دونوں مختلف باتیں ہیں؟“
ہاں بالکل۔۔“ اس نے آنکھیں سکیڑ کر دور افق کو دیکھا۔

” ایک اچھا انسان دوسروں کے لیے مفید ہوتا ہے لیکن اگر وہ اچھا مسلمان نہ ہو۔۔۔ تو خود اپنے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ “
میں نے منہ بنا کر کہا:
” تو یہ سب ہم اپنے لیے ہی تو کرتے ہیں۔۔ یہ پھول، خوشبو اور چراغ میرے وجود کو خوبصورت بناتے ہیں۔ میں اچھی لگتی ہوں۔ کسی کے کام آنے سے ، کسی کا درد دور کرنے سے خوشی ملتی ہے۔۔۔۔“

” اس باپ کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنے بچے کی بہترین تعلیم ، سکون اور خوشی کے لیے راتوں کی نیند ، کھانا پینا، اپنا خیال رکھنا، دوا، علاج کی فکر۔۔۔ سب قربان کرتا جائے۔ اولاد کو اچھا گھر بناکر دینے کی دھن میں سولہ سولہ گھنٹے محنت مزدوری کرے، خود بھوکا رہ لے، الٹا سیدھا کھائے، کئی بیماریاں لگا لے۔ علاج سے غفلت برتے۔۔ اور پھر اولاد خوشحال ہو جائے اور یہ بوڑھا بیمار تنہا۔۔۔ تمہارے خیال میں اولاد کا اظہار تشکر اس کی خوشی اور نفع کے لیے کافی ہے؟ “

میرے حلق میں پھندا سا بن گیا۔
” نہ تو یہ بھی تو اچھائی ہے۔ اولاد کے لیے باپ نہ کرے تو ان کا خیال کون رکھے گا؟ “

اس نے جھک کر کنکر اٹھایا اور مسکرا کر پانی میں اچھال دیا۔۔ ” خود کو خدا سمجھ بیٹھا تھا؟
یا یونانی دیوتا اطلس جس نے اپنے کندھوں پر آسمان سنبھالا ہوا تھا۔ “

میری آنکھیں دھندلی ہورہی تھیں۔۔ مگر ہمزاد کو بھیگی آنکھیں کب روکتی ہیں۔۔ وہ کہتا رہا:
”اپنی روح کے مطالبات پر دھیان دینا بھی ضروری ہے۔۔۔ روح خدا سے خالص تعلق سے جلا پاتی ہے۔
اگر روح کو یہ غذا نہ ملتی رہے تو وہ لاغر ہو جائے گی۔

دل کو گناہ کا مرض لگ جائے اور اس کے علاج کی فکر نہ ہو،
دل اللہ کے ذکر سے غافل ہو اور اس کی پروا نہ رہے۔۔
نماز میں خشوع نہ ہو اور اس کو حاصل کرنا ضروری نہ لگے۔

تلاوت قرآن کی پابندی نہ ہو۔۔
سیرت طیبہ کے چمن سے پھول سمیٹے زمانے بیت جائیں۔۔
مگر تم دل کو تسلی دیے جاؤ کہ دوسروں کے لیے دان کیے گئے
میرے لفظ،
میری مسکراہٹ،
میرا دلاسا،
میری محنت،
میری اپنی روح کے لیے بھی کافی ہے تو یہ نفع کا سودا تو نہیں ہے۔
تمہارے اپنے اضطراب اور تشنگی کا علاج کون کرے گا۔

وقت نکال کر سوچا کرو
دوسروں کے نفع کے ساتھ ساتھ خود اپنے لیے کیا خزانہ جمع کیا ہے ۔۔۔ وہ جو خالص اس کے لیے ہے۔
صرف تمہارے اور اس کے بیچ ہے؟
سوچو سوچو۔۔۔۔۔ ان باتوں کی فکر محض اچھے انسان کو نہیں ہوتی۔۔۔
اچھے مسلمان کو ہوتی ہے۔۔۔ “

وہ بادلوں کے پیچھے سے نمودار ہوتے سورج کو دیکھ رہا ہے۔
اور میں اپنے خالی دامن کو آنسوؤں سے بھگو رہی ہوں۔۔
آپ پوچھیں گے درد کیوں ہورہا ہے؟
میں کہوں گی: زخم کی جراحت کے بعد درد تو ہوتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں