سیدقاسم محمود اور اسلامی انسائیکوپیڈیا

سیدقاسم محمود سے تحریک انصاف کی ناانصافی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

غلام محی الدین۔۔۔۔۔۔
تقلید انسانی معاشرے کے ارتقاءمیں اہم ترین کردار ادا کرنے والے عناصر میں سے ایک ہے۔ وہ یوں کہ اگر کسی معاشرے کے سربرآوردہ افراد نے جدوجہد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے خیر کی شاندار مثالیں قائم کیں اور شر کے خلاف جہد مسلسل کو شعار کیا تو بعد میں آنے والوں کے لیے خیر کا چراغ لے کر آگے بڑھنے کا راستہ موجود ہوتا ہے۔

شر کی ترغیب، ترویج اور تربیت کے ادارے نہیں ہوتے پھر بھی برائی کی کشش معاشروں میں اپنا کام دکھاتی رہتی ہے۔ اسے دبائے رکھنے کے لیے اعلیٰ ترین سطح پر حکمت اور دانش مندی کے ساتھ اثر انداز ہونا لازم ہے۔ اسی طرح خیر اور مثبت رویوں کو پروان چڑھانے کے لیے الگ سے محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس جہد مسلسل کے معاشرے پر مثبت اثرات کو دو چند کرنے اور قافلہ خیر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک اور چیز کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ علم و حکمت اور فکر و فن کے میدانوں میں اپنی زندگیاں لگا دینے والوں کے حضور سپاس گزاری ہو۔

معاشرے کو ذہنی اور روحانی اعتبار سے اوپر اُٹھانے کے لیے لازم ہوتا ہے کہ معاشرتی عزت، مرتبہ اور اہمیت کو خیر کے لیے کوشش اور جدوجہد کے ساتھ منسلک کردیا جائے۔ ہمارے اپنے ملک کی طرح جن معاشروں میں عزت و توقیر کا پیمانہ علم و حکمت کے بجائے دولت اور مادی شان و شوکت قرار پاجائے وہاں انحطاط کے عمل کو کسی طور نہیں روکا جاسکتا۔

انسانی معاشروں میں تقلید کے چلن کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان دوسرے جانداروں سے یوں مختلف ہے کہ ان کے برعکس انسان بیک وقت انسانی معاشرے کی دو سطحوں پر زندگی برتنے کا تجربہ حاصل کررہا ہوتا ہے۔

پہلا تجربہ اس کی اپنی پیدائش سے لے کر موت تک کے سفر کا تجربہ اور دوسرا نسل انسانی کے روز اول سے لے کر اب تک طے ہونے والے سفر کا تجربہ۔ انسان سے ہٹ کر تمام جاندار اپنی زندگی ایک ہی طرح سے گزار کر ختم ہوجاتے ہیں جبکہ انسان اپنی زندگی کے تجربے کو آئندہ نسل کو منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یوں تہذیب و ثقافت کا کام یہ ہوا کہ واضح کرتی جائے کہ ماضی کا کیا کچھ قابل تقلید ہے اور کیا کچھ چھوڑ دینا ہے اور کن باتوں کی بیخ کنی کرنی ہے۔ بس! یہی معاشرتی ارتقاءمیں انسان کی جانب سے مثبت شراکت داری اور اعانت ہے۔

اس شراکت داری کی بھی مختلف سطحیں ہوسکتی ہیں، جیسے افلاطون نے کہا تھا کہ ہیرو ہزاروں میں ایک ہوتا ہے، دانشور لاکھوں میں ایک جبکہ کسی ہنر میں یکتا اور فکر و فن میں تکمیل کی انتہائی سطح کو پالینے والے لوگ نایاب ہوتے ہیں۔ ایسا شخص کروڑوں میں کوئی ایک ہوتا ہے۔

افلاطون کی یہ بات ان شخصیات کی طرف اشارہ ہے جو علم، ہنر، فن اور خدمت کے میدانوں کی نئی وسعتیں طے کرتی ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے تقلید کی ایسی روشن مثالیں قائم کرتی ہیں کہ مخیر العقول کارنامے ممکنات کے حدود میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ہماری مختصر تاریخ میں ایک اہم نام سید قاسم محمود کا ہے جنہوں نے آنے والوں کے لیے ایسی روشن مثال قائم کی کہ محض ایک فرد اگر کمر کس لے تو کس قدر فکری و علمی خدمات انجام دے سکتا ہے۔

سید قاسم محمود نے والد سید ہاشم علی شاہ زمیندار تھے۔ خود تعلیم یافتہ نہ تھے اور سرسید احمد خان کی مسلمانوں کو مغربی تعلیم دلانے کی تحریک کو کفر سمجھتے تھے، ان کی اہلیہ فردوسی بیگم نے اپنے بڑے بیٹے کو تعلیم دلانے کے لیے شوہر سے ٹکر لی اور اپنا زیور بیچ کر بیٹے کو سکول میں داخل کرایا۔

بیٹے نے بھی ماں کی جدوجہد کا پاس رکھا اور پرائمری امتحان میں پنجاب بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ سر سکندر حیات انہیں ایوارڈ دینے ان کے قصبے کھرکُھودا آئے۔ میٹرک کے امتحان میں پورے امبالہ ڈویژن میں اول اپوزیشن حاصل کی۔

پاکستان ہجرت کے بعد وہ تن تنہا ایسے علمی کام کرگزرے جنہیں انجام دینے کے لیے دوسرے ممالک میں ادارے روبہ عمل لائے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود اپنی زندگی میں بھی اور بعد از مرگ سرکاری کی جانب سے سپاس گزاری اور اعتراف ہنر کے باقاعدہ اظہار سے محروم رہے۔

ہمارے ہاں رائج طریقہ کار یہ ہے کہ ہر صورت خالصتاً میرٹ پر کیے جانے والے فیصلوں کے متقاضی معاملات بھی شخصیات اور گروہی خواہشات پر کیے جاتے ہیں۔ سو سید قاسم محمود کسی سرکاری ایوارڈ کے ذریعے ملک و قوم کی خدمت کی سند امتیاز سے محروم ہی رہے۔ حالانکہ ایسا کرنا عالم پر نہیں بلکہ ریاست کا اپنے اوپر احسان ہوتا ہے۔

سید قاسم محمود کے تعارف کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ دانشور، افسانہ نگار، ناول نگار، مدیر، پبلشر، مترجم اور سب سے بڑھ کر انسائیکلو پیڈیا مرتب کرنے والے پہلے پاکستانی کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔

ادبی نشر میں سید قاسم محمود کے افسانے، قاسم کی مہندی ، چلے دن بہار، افسانوں کے مجموعے ناول ’دیوار پتھر کی‘ ایک ناولٹ پنڈت جواہر لال نہرو اور انوکھی کہانیاں معلومات کے شعبے میں انسائیکلو پیڈیا آف قرآن، انسائیکلوپیڈیا مسلم انڈیا، سیرت انسائیکلوپیڈیا، انسائیکلوپیڈیا تاریخ انسانیت، پاکستانی بچوں کا انسائیکلوپیڈیا، انسائیکلوپیڈیا پاکستانیکا، انسائیکلوپیڈیاسائنس، انسائیکلوپیڈیا ایجادت، انسائیکلوپیڈیا فلکیات، بے بی انسائیکلوپیڈیا، اردو جامع انسائیکلوپیڈیا، اردو انسائیکلوپیڈیا سے ترتیب و تدوین کا کام کیا۔

ان کی دیگر تصانیف اور مرتب کردہ کتب ہیں۔ آسان معاشیات، حیثیت کے جدید نظریے، مبادی معاشیات، حصول سیاست، قلوپطرہ کی کہانی، اسکندر اعظم کی کہانی، سردار عبدالرب نشتر، سائنس کیا ہے، جنسی رسومات، نواب محمد اسماعیل خان، فرہنگ معیشت، قائداعظم کا پیغام (قائداعظم کی تقاریر اور تحریروں کا مجموعہ) بیسیوں صدی اور آمریت، اسلامی دنیا 2012ءعلم قرآن، اسلامی سائنس، روح القرآن، روح الحدیث، پیام رومی، نواب محمد اسماعیل خان، پیام اقبال بہ نوجوان ملت، ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تقریریں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ خواتین، اجالا، قندیل، صادق، لیل و نہار، صحیفہ، سیارہ ڈائجسٹ، ادب لطیف، کتاب، خیالات، قافلہ، علمی ڈائجسٹ، طالب علم، سائنس میگزین، افسانہ ڈائجسٹ، پاکستان ڈائجسٹ، اسلامی ڈائجسٹ، احیائے حلافت اور احیائے علوم جیسے رسائل جرائد کی ادارت کے فرائض انجام دیئے جبکہ مغربی ادب کے شاہکار ناول اور ڈرامے، الیگزینڈر پُشکن، اینتون چیخوف، کارل کاپک، ڈی ایچ لارنس، ایڈورا ویلٹی، فیودور دیستومسکی، فرینک براونی اور بالزک کی منتخب کہانیوں اور چارلس ڈارون، جسٹس جاوید اقبال، کینتھ والکر اور ٹی ایس ایلیٹ کی نان فکشن تصانیف کو اردو میں منتقل کیا۔ یہ سب ان کی علمی ادب اور فکری خدمات کا انتہائی مختصر سا جائزہ ہے۔

اس جولائی کے مہینے میں سید قاسم محمود کے قریبی دوست مظہر سلیم مجوکہ کے توسط سے قومی ورثہ ڈویژن کے سیکرٹری نے سید صاحب کے بیٹے سے رابطہ کرکے انہیں یہ خبر سنائی کہ سید صاحب کو ستارہ امتیاز یا تمغہ امتیاز عطا کیا جانا طے پایا ہے۔ لہٰذا ان کا پروفائل بھیجا جائے۔

یہ بھی کمال کی بات ہے کہ سرکاری اداروں کے پاس ملک کی اہم شخصیات کے بارے میں معلومات کا کوئی ذریعہ موجود نہیں۔ اس بات کی تصدق 25 جولائی کو مقتدرہ قومی زبان کے ڈائریکٹر نے بھی سید صاحب کے بیٹے کو بذریعہ فون سنائی کہ سول ایوارڈ کے لیے کیس تیار کرکے بھجوایا جارہا ہے۔ لہٰذا ایک مرتبہ پھر اردو اور انگریزی زبانوں میں پروفائل بھجوانے کی فرمائش پوری کردی گئی۔

مظہر مجوکہ نے آٹھ اگست کو سید صاحب کی اہلیہ محترمہ و فون پر آگاہ کیا کہ تمغہ امتیاز یا ستارہ امتیاز دیئے جانے کا فیصلہ ہوچکا ہے لیکن جب 14 اگست کو ایوارڈز کا اعلان ہوا تو سید قاسم محمود کا نام شامل نہ تھا۔ سید صاحب کی جگہ ایک مرتبہ پھر ایک ایسی خاتون کو نواز دیا گیا جو قبل ازیں تمغہ حسن کارکردگی سے فیض یاب ہوچکی ہیں۔

عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں انتہائی قلیل تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں موسمی بخار بھی ہوجائے تو گالی پاکستان کو دیتے ہیں۔ پاکستان کے اندر کچھ ناگوار گزرے تو بھارت جاکر ان کی آواز کے ساتھ آواز ملاتے ہیں۔ غیر ملکی ایجنڈوں کی تکمیل کے لیے اتنی موم بتیاں روشن کرتے ہیں کہ موم کی قلت ہوجائے لیکن کشمیر میں انسانی المیے پر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں ان کا کبھی وجود ہی نہ تھا۔

نیچے سے لے کر اوپر تک یہ اتنے موثر ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ تبدیل کروا دیں۔ ممکن ہے فیصلہ ساز اچھی نیت ہی سے یہ سب کررہے ہوں لیکن انہیں ہتھیلی پر سرسوں جمانا آتا ہے۔ یہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن اپنے اثرورسوخ میں کروڑوں پر بھاری ہیں۔ اس مرتبہ 14 اگست پر جن لوگوں کو سول ایوارڈ دیئے جانے کا اعلان ہوا ہے ان میں بہت سوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن سید قاسم محمود کا معاملہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔

اس معاملے میں کم از کم اتنی احتیاط ضرور برتی جانی چاہیے تھی کہ اگر ان کو ایوارڈ دیئے جانے میں ایک فیصد بھی شک تھا تو ان کے گھر والوں کو اس معاملے سے آگاہ ہی نہ کیا جاتا۔ کیونکہ یہ وہی قاسم محمود ہیں جو گزشتہ دور میں سول ایوارڈ حاصل کرنے سے اس لیے انکار کرچکے ہیں کہ ایسے حکمران جن پر کرپشن کے الزامات ہوں ان سے ایوارڈ حاصل کرنا مناسب نہیں۔
٭٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں