صلاح الدین اور اے ٹی ایم مشین

صلاح الدین….دور ہوجا نظروں سے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عثمان جامعی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے سُن ہی رکھا ہوگادوسری جنگ عظیم کے دوران چرچل نے پورے اطمینان سے (میں جاویدچوہدری نہیں ہوں ورنہ ساتھ یہ آنکھوں دیکھا حال بھی لکھتا کہ سگار پیتے ہوئے، کرسی سے ٹیک لگاکر مسکرایا) کہا تھا ”ہماری عدالتیں صحیح کام کر رہی ہیں تو پھر ہمیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہراسکتی۔“

اس کُلیے کے تحت پاکستان دوسرے مَہا یُدھ سے دوچار چرچل کے برطانیہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ناقابل شکست ہے کہ ہمارے ہاں عدالتیں جگہ جگہ کام کر رہی ہیں، محلے کے تھڑوں سے ٹاک شوز تک اور چوراہوں سے تھانوں تک۔

ہمارے دیانت دار معاشرے کی ایک انصاف پرور اور ”صحیح کام کرتی“ عدالت نے، جو کراچی کے علاقے بہادرآباد میں لگی، پندرہ سال ریحان کو چوری یا ڈکیتی کی ”نیت“ کے الزام میں برہنہ کیا اور پھر ڈنڈے مار مار کر سزائے موت دے دی۔

یہ ٹھیک ہے کہ برہنہ کرنے اور ڈنڈوں سے ہلاک کرنے کی سزا ہمارے قانون میں نہیں، لیکن صاحب! آپ ان کتابی باتوں میں نہ پڑیں، چوری، بددیانتی اور لوٹ مار سے نفرت کرنے والے اس سماج کا جذبہ دیکھیں، جسے چوری تو کجا اس کی نیت بھی برداشت نہیں۔

ایسی ایک اور عدالت رحیم یارخان میں لگی، جہاں مجرم صلاح الدین ایوبی کو اس جرم کی پاداش میں مرنا پڑا کہ ملک کے اس سب سے بڑے چور (جسے کہنا تو ”چورترین“ چاہیے مگر اس سے بعض شرفاءکی توہین کا پہلو نکلتا ہے) نے ایک اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چُرایا تھا، یہی نہیں ساتھ ہی کیمرے کی طرف رُخ کرکے جانے کس کس کا منہ چِڑایا تھا۔

قانون کے رکھوالے، عدل کی گود کے پالے، انصاف کے متوالے ہمارے پولیس والے یہ قانون شکنی کیسے برداشت کرسکتے تھے، سو انھوں نے تھانے ہی میں عدالت لگائی، مجرم کو سزا سُنائی، اور پھر صلاح الدین کی جان لے کر حق کا بول بالا اور بدی کا منہ کالا کردیا۔ مجرم کے جسم پر نظر آنے والے تشدد کے نشانات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ ہماری پولیس جرائم سے کس قدر نفرت کرتی ہے اور قانون کی عمل داری کے لیے اس کے عمل کا دائرہ کسی بھی حد تک وسیع ہوسکتا ہے۔
ایسی ہی ایک عدالتی کارروائی ساہیوال میں بھی ہوچکی ہے، جسے بھلادیا گیا ہے۔

یہ عدالتیں یوں بھی خراج تحسین کی مستحق ہیں کہ یہ ہمارے نظام انصاف اور عدل کے ایوانوں کا قیمتی وقت ٹکے ٹکے کے لوگوں اور معاملات پر ضائع ہونے سے بچاتی ہیں۔ وقت بچنے ہی کے باعث تو ہماری اعلیٰ ترین عدالتیں اس قابل ہوتی ہیں کہ ڈیم بناسکیں، سیاست زدہ مقدمات کو پوری فرصت سے لمبا اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ سکیں۔ یہی فراغت ہمارے منصفین کو سرتاپا چومنے اور ناصر بٹوں سے تفصیلی گپ شپ کی فرصت فراہم کرتی ہے۔

صلاح الدین کے ماں باپ کی بدقسمتی کہ ”مجرم“ رائوانوار جیسے کسی ”بہادربچے“ کے ہاتھ نہیں لگا ورنہ انھیں یہ ثابت کرنے کے لیے پریشان نہیں ہونا پڑتا کہ ان کے بیٹے پر تشدد ہوا ہے، بلکہ بیٹے کی گولیوں سے چھلنی لاش کے ساتھ انھیں یہ خبر بھی گھر بیٹھے مل جاتی کہ ان کا فرزند دہشت گرد تھا۔ اسے صلاح الدین کے والدین کی خوش قسمتی بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان کا بیٹا رائوانوار سے قانون کے فداکار کے ہتھے نہیں چڑھا اور اس کی دہشت گردی کی وارداتوں پر پردہ پڑا رہا۔

ابے او ریحان، ابے او صلاح الدین! چوری اور پھر سینہ زوری، ہر طرف ننگے دھڑ کے ساتھ جھولتے نظر آتے ہو، اپنا تشدد زدہ سیاہ پڑجانے والا منہہ چڑاتے ہو، کیا کہنا چاہتے ہواپنی مظلومیت کا ڈھونگ رچا رہے ہو، شرم نہیں آتی،

تم سالے کوئی ملک ریاض ہو کہ مال لے کر چھوڑ دیے جاﺅ، سیاست داں تمھارے تلوے چاٹیں، جرنیل تم سے حصہ بانٹیں، میڈیا مالکان کی زبان تمھارے جوتے صاف کرے۔ تم کوئی نوازشریف ہو کہ تمھاری ڈکیتیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے حامی تمھارے وکیل بن جائیں، ایوانوں میں شور ہو،

تم کوئی زرداری ہو بے! کہ ہاتھ کی وہ صفائی دکھائو کہ عدالتیں باعزت بری کرتی رہیں، نام لیوا تمھاری معصومیت کے نعرے لگائیں، بے گناہی کے گیت گائیں، جہانگیرترین، علیم خان اور علیمہ خان ہو کیا سالے! ساری حکومت تمھاری چوریوں کے دفاع میں لگ جائے، قانون تمھارے پاس سے آنکھ جھکاکر گزر جائے، صادق وامین وزیراعظم تمھاری دیانت کی قسمیں کھائے۔

اپنی اوقات دیکھے بغیر چوری کرو گے تو یہی ہوگا۔
جاﺅ، دفع ہوجاﺅ
ریحان اپنی نیم برہنہ لٹکتی لاش اٹھا کر لے جا، اب مر بھی جا
صلاح الدین، منہ مت چڑا، بس کر، دور ہوجا نظروں سے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں