جماعت اسلامی کی تکریم نسواں واک، لاہور، پاکستان

عالمی یوم خواتین: منفرد موقف رکھنے والے لوگ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ خان:
آٹھ مارچ 2020 ، ’عالمی یوم خواتین‘ نے پاکستانی خواتین کو دوحصوں میں تقسیم کردیا، ایک وہ جو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا بیانیہ رکھتی ہیں اور دوسری وہ جو سمجھتی ہیں کہ خواتین کو معاشرے میں اپنے جسم نہیں بلکہ اپنی صلاحیتوں اور محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنا چاہئیے۔

گزشتہ کئی روز سے ان دونوں حصوں کی باہم شدید کشمکش جاری تھی اور جاری ہے۔ جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں، ٹوئٹر پر ایک نظر ڈالی تو وہاں کئی ٹرینڈز نظر آئے۔ بعض ٹرینڈز ’میرا جسم مرضی‘‘ والوں کے تھے جیسے #AuratAzadiMarch اور#AuratMarch2020۔ اور بعض دوسرے طرز فکر کی حامل خواتین نے بنائے۔ مثلاً #فحاشی مارچنامنظور اور #MeraHijabMeriMarzi۔

یہی حال فیس بک پر پوسٹیں کرنے والوں کا ہے، وہاں بھی پورے جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے کے خلاف معرکہ آرائی کی جارہی ہے۔ اپنا موقف درست اور دوسرے کا موقف باطل ثابت کرنے کے لئے دلائل کے انبار لگائے جارہے ہیں،

تاہم میں سمجھتی ہوں کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹرسراج الحق نے درست طرزعمل اختیار کیا ہے۔ انھوں نے ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والے گروہ کو معاشرے سے کاٹ پھینکنے کے بجائے انھیں معاشرے کے ساتھ جوڑنے کی طرف قدم بڑھائے ہیں۔

اسلام آباد میں تکریمِ نسواں مارچ سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے لگانے والی خواتین شاید کچھ محرومیوں کا شکار ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان خواتین سے معاشرے نے کوئی ناانصافی کی ہو۔ انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ان خواتین کے ساتھ ملیں گے اور ان کے جائز مطالبات کے لئے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آواز اٹھائیں گے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں ایک دوسرے کو معاشرے سے کاٹ ڈالنے والے بہت ہیں، ایک دوسرے کو گالی دینے والے بہت ہی زیادہ ہیں لیکن اعتدال کی راہ اختیار کرنے والے بہت کم۔ ایسے ہی چند لوگ سوشل میڈیا پر بھی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

رقیہ اکبر چودھری چند گنے چنے سوشل میڈیا ایکٹویسٹس میں سے ایک ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
’’کیا یہ مناسب ہے کہ چند ایک نامناسب نعروں کی وجہ سے ہم پوری تحریک کو ہی رد کر دیں؟ کیا ہمیں ایسا کرنا چاہیئے۔ نہیں۔ ان نعروں کو رد کیجئے،ان نمائندوں کو رد کیجئے جو غیر اخلاقی اور غیر اسلامی افکار و خیالات کی ترویج میں مصروف عمل ہیں مگر خواتین کی پوری تحریک کو رد مت کیجئے بلکہ آگے بڑھ کر اس تحریک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لیجئے۔ یہی دانش مندی ہے اور یہی وقت کی ضرورت۔آنے والے وقت کی دستک سن لیجئے یہ آپ کی اور میری آنےوالی نسلوں کی بھلائی کیلئے ہی ہے‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’یقیناً خواتین کی ایک کثیر تعداد کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ میرا باپ میرا بھائی میرا شوہر میرے ساتھ کھڑا ہے تو الحمد للہ وہ سب خوش قسمت عورتیں ہیں لیکن ضروری نہیں سب ہی آپ کی طرح خوش قسمت ہوں۔ اپنی ذات کے حصار سے باہر نکل کر دیکھئے آپ کو ایسی کئی خواتین نظر آئیں گی جو مسائل کی چکی میں پس رہی ہیں تو گزارش ہے ان کیلئے سوچئے ، بولئے۔اور اگر اللہ نے لکھنے کی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے تو پلیز لکھئے بھی‘‘۔

رقیہ اکبر چودھری کا کہنا ہے کہ ’’عورت کی اپنے حقوق کیلئے تحریک ’’مردوں سے نفرت اور جنگ‘‘ کی تحریک نہیں ہے، یہ مذہب اور سیکولر طبقے کی جنگ بھی نہیں ہے۔ اسے بزور مردوں سے نفرت یا بیزاری کی تحریک مت بنائیں نہ ہی اسے مذہب کے متصادم کوئی تحریک ثابت کرنے کی کوشش کیجئے۔ عورتوں کے مسائل کے نام پر ان دونوں گروہوں کو اپنے اپنے چورن بیچنے کی عامیانہ حرکت نہیں کرنی چاہیئے۔ یہ جدوجہد یہ جنگ صرف ’’استحصالی‘‘ قوتوں کے خلاف مظلوم کی ظالم کے ساتھ ہے۔ یہ کمزور اور طاقتور کے مابین اختیارات کے ناجائز استعمال کی جنگ ہے‘‘۔

ان کا کہنا ہے کہ ’’سماجی ناہمواری ،معاشرتی اونچ نیچ اور بوسیدہ روایات ( جن کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ تعلق نہیں) کے خلاف جدوجہد کو مذہبی یا صنفی رنگ دے کر بگاڑ پیدا مت کریں۔ مذہبی طبقوں سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی مذہب کا چورن بیچنا بند کر دیجئے۔ کون انکاری ہے اس بات سے کہ اسلام نے عورتوں کو حقوق دیئے۔ سوال تو یہ ہے کہ جو حقوق اسلام نے دیئے وہ اسلام کے پیروکاروں نے بزور طاقت روک کیوں لیئے؟‘‘

ایک فیس بک یوزر سائرہ فاروق کہتی ہیں:
’’جن خواتین کو یہ لگتا ہے کہ عورت مارچ غلط ہے تو دراصل یہ وہ بیگمات ہیں جن کے سوداسلف بیٹ مین لاتے ہیں، جن کا کھانا کک پکاتا ہے۔ وہ اپنی محدود سوچ سے کیا جان پائیں گی کہ مساوی تعلیم ہونے کے باوجود مساوی تنخواہ نہیں ملتی۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھا چکی ہوں اور یہ بھی جانتی ہوں کہ آواز بلند کرنے پر متنازعہ بنا کر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چند ولگر نعروں سے عورت مارچ کا تاثرغلط ضرور ہوا ہے امید ہے اس بار ایسا بینر نہیں لگے گا۔ یقیناً اس بار عورت کے بنیادی مسائل پر بات ہوگی۔‘‘

وہ کہتی ہیں:
’’شعیب منصور کے جملے سے بہت پہلے ہی یہ جملہ بولا گیا کہ ’’جب پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو‘‘ کتنوں نے سنا؟؟؟ کیا یہ نیا جملہ تھا؟ ہرگز نہیں!!
پیدا ہوتے ہی بہت ساری لڑکیاں کم عمری میں ہی یہ جملہ سوچتی ہیں مگر کہہ نہیں سکتیں مگر جب یہ جملہ فلم کی آواز بنا تو بند دروازوں کے پیچھے بیٹھی بیٹیوں نے سانس لیا۔ اس جملے کی بازگشت نے پورے ایشیا کو جھنجھوڑا۔ یہ آواز دنیا نے سنی اور پتہ چلا کہ ہاں پاکستان کی عورت زندہ ہے لیکن اس جملے کو لکھنے والا مرد تھا‘‘۔
سائرہ فاروق کا کہنا ہے:
’’بات صرف اتنی ہے کہ آپ اپنے گھر میں آسودہ ہیں تو ضروری نہیں کہ جھگی والی بھی آسودہ ہو۔ دیکھیے ہمارے سماج کی اکثریت عورتوں کے کچھ بنیادی مسائل ہیں، جب تک ہم انہیں ہائی لائٹ نہیں کریں گے، انہیں پلیٹ فارم نہیں دیا جائے گا تو کیا پتہ چلے گا کہ عورت کو کیا مسئلہ ہے؟‘‘

’’میرا ماننا ہے کہ طبقاتی نظام میں بنیادی حقوق آسانی سے نہیں ملتے لیکن چلیں آغاز جہاں سے بھی ہو ہمیں ان کی تائید کرنی چاہیے اور جہاں تک اصلاح کی بات ہے تو وہ ہم مارچ آنے سے پہلے ہی کر رہے ہیں حالانکہ ان کا منشور واضح ہے، لیکن یاد رکھیں! الگ کھڑے ہوکر عورت مارچ کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔‘‘

لندن میں مقیم پاکستانی نژاد ثمینہ رشید بھی سوشل میڈیا پر ایک بڑا حلقہ رکھتی ہیں، ان کا کہنا ہے:
’’چودہ سو سال پہ جو حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا)کی سنت تھی، وہ فیس بک کی پچاس سالہ “سی ای او” آج دنیا کو بتا رہی ہیں۔ ہم مسلمان ہیں اور ایک اسلامی ملک کے باوجود بھی ام المومنین کی سنت کو رائج کرنے کا کبھی سوچتے بھی نہیں، نکاح آسان بنانے کی بات نہیں کرتے‘‘۔

’’لاکھوں بیٹیاں جہیز کے انتظار میں بال سفید کر بیٹھیں، ہزاروں نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں، معاشی انڈپینڈنٹس نہ ہونے کے باعث شادی ہی ان لڑکیوں کی زندگی کی واحد تبدیلی ہوسکتی ہے لیکن لڑکی والے پروپوزل نہیں بھیج سکتے کیونکہ رواج نہیں ہے۔ ام المومنین کی سنت کو رواج پر فوقیت ہے۔ اسکے باوجود بھی کوئی کمپئین نکاح آسان کرنے کی اور جہیز لینے کی نہیں چلتی، کوئی مارچ اس مقصد کے لئے نہیں ہوتا۔‘‘

ثمینہ رشید کا کہنا ہے کہ
’’خدارا قانون سازی کی بات نہ کیجئیے گا کیونکہ سماج کے یہ رویے قانون سے نہیں فرد کی سوچ میں تبدیلی سے بدلتے ہیں ۔ خود کو بد لئے سوچ کو بدلئے عورت کے لئے زندگی آسان بنائیے ۔
آپ کا معاشرہ خود بدل جائے گا۔ اور پھر ان پینتیس چھتیس عورتوں کے بے ہودہ نعرے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔‘‘

اب آپ ہی بتائیے کہ آپ اعتدال کی حامل ان آوازوں کے ساتھ ہیں یا آپ بھی ان دو بڑے گروہوں کے ساتھ ہیں، جو ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ اس مضمون کے آخر میں فیڈ بیک ضرور دیجئے گا، کمنٹ ضرور کیجئے گا۔

ویسے مجھے تو
رقیہ اکبرچودھری کے اس سوال نے بہت جھجھوڑا ہے کہ
’’کیا یہ مناسب ہے کہ چند ایک نامناسب نعروں کی وجہ سے ہم پوری تحریک کو ہی رد کر دیں؟‘‘
سائرہ فاروق کی یہ بات بہت اچھی لگی:’’الگ کھڑے ہوکر عورت مارچ کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں۔‘‘
ثمینہ رشید کی یہ بات بہت بھلی لگی کہ ’’عورت کے لئے زندگی آسان بنائیے، آپ کا معاشرہ خود بدل جائے گا۔ اور پھر ان پینتیس چھتیس عورتوں کے بے ہودہ نعرے اپنی موت آپ مر جائیں گے۔‘‘

اور میں تو بہت خوش ہوئی ، جب پڑھا کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگانے والی خواتین کے ساتھ بیٹھیں گے، ان کے مطالبات سنیں گے اور انھیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کریں گے۔
اب آپ کا کیا خیال ہے؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں