متحدہ عرب امارات، امید، مریخ مشن

عرب ”سرخ مٹی“ کے تعاقب میں!

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد بلال اکرم کشمیری:

عرب دنیا کا مریخ (سرخ سیارے)کے لیے پہلا خلائی مشن 15 جولائی کو جاپان کے سب سے بڑے خلائی مرکز ٹینگشیما سے روانہ کیا جائے گا۔ مشن سے متعلق اقدامات کو حتمی شکل دی جارہی ہے۔ مارچ 2015میں متحدہ عرب امارات نے مریخ پر مشن بھیجنے کا اعلان کیا تھا،اس مشن کی تکمیل میں ہندوستانی خلائی تحقیقاتی ادارے آئی ایس آراو (ISRO)کا بھی حصہ شامل ہے۔

مسلم دنیا میں اسے ایک بڑا قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔اس سے قبل عرب ممالک نے عمارتوں سے متعلق عظیم منصوبوں میں بہت شہرت حاصل کی،

گزشتہ دہائیوں سے عرب ممالک کی سوچ میں یکسر تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔ جہاں ایک جانب سعودی عرب نے 80کی دہائی میں خلائی مشن کی داغ بیل ڈالی اور اس کے پہلے خلا باز سلطان بن سلمان السعود 17جون 1985میں خلا سے ہو کرآئے،اسی طرح پہلے شامی جبکہ دوسری عرب شخصیت محمد فارس 22جولائی 1987کو خلامیں گئے، آذربائیجان کے موسی کو 1987اور 1990میں خلا میں جانے کا موقع ملا جس کا کل دورانیہ 541دن بنتا ہے۔

اگست 1988میں افغانستان کے عبدالاحد مہمند خلائی مشن کا حصہ بنے۔عرب امارات نے گزشتہ برس ہزا المنصوری کو Soyuz MS-15 کی 143 فلائیٹ میں سائنسی تحقیق کے لیے بین الاقوامی خلائی سٹیشن میں بھیجا تھا۔

متحدہ عرب امارات میں 2006میں قائم ہونے والے محمد بن راشد سپیس سینٹر(MBRSC) اپنے مشن الامل(امید) کو خلا میں روانہ کرنے کے ساتھ ساتھ مریخ کے حالات پر مبنی ”سائنس سٹی“ بنانے کا بھی خواہش مند ہے۔اس کے ساتھ ساتھ یو اے ای 2117میں مریخ پر انسانی آباد کاری کے منصوبے پر بھی غور کر رہا ہے۔ محمد بن راشد المختوم کے مطابق اس منصوبے کو ”امید“ کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ اس مشن سے لاکھوں عرب نوجوانوں کی امید جڑی ہے۔

”امید“ مکعب شکل اور ایندھن سمیت 1500کلوگرام کا ہے جبکہ 2.37میٹر چوڑا اور2.90میٹر لمبا ہے۔اس پر 600واٹ کے تین سولر پینل نصب کیے گے ہیں جو کہ اس کی بیٹریز کو چارج کریں گے۔ خلا میں بھٹکنے سے بچانے کے لیے اس میں سٹار ٹریک سینسر بھی نصب کیے گے ہیں۔ یہ ”امید“495ملین کلو میٹر(307ملین میل)کا سفر طے کر کے تقریباً200دنوں بعد مریخ کے مدار میں پہنچے گی۔

ڈپٹی پراجیکٹ منیجر سارہ الامیری منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔بشکریہ خلیج ٹائم

ایم بی آر ایس سی پروگرام منیجمنٹ ڈیپارٹمینٹ کے ڈائریکٹر اور مشن مارس کے پراجیکٹ منیجر عمران شرف کے مطابق اس اقدام کا مقصد سائنسی پیش رفت کے ساتھ ساتھ خطے کے ثقافتی اور سائنسی اعتبار سے سنہرے دور کا احیا ہے۔ تاریخی اعتبار سے عرب دنیا کسی دور میں علم و تحقیق کا مسکن ہوا کرتی تھی،اورعرب امارات نوجوانوں کو ایک مضبوط پیغام دینا چاہتا ہے کہ وہ بھی کبھی علم کی آماج گاہ تھے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے خطے کی تعمیر کا عزم کیجیے۔

اماراتی خلائی مشن کی 32سالہ سابق ڈائریکٹر ڈیپارٹمنٹ آف ریسرچ اینڈ ڈیویلمپنٹ امارات انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ڈپٹی پراجیکٹ منیجر سارہ الامیری کے مطابق اس مشن کے اثرات دور رس ہوں گے۔وہ کہتی ہیں:

”یہ کوئی قلیل المدتی مشن نہیں بلکہ اصل میں یہ ایک جاری رہنے والا مشن ہے، جس سے حاصل ہونے والی معلومات کئی برسوں تک مفید ہوں گی۔ اس سے ملکی اور عالمی محققین بھی فائدہ اٹھائیں گے۔انہوں نے مشن کے متعلق تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس مشن کے ذریعے مریخ پر موسمیاتی تبدیلیوں کی تصاویر لی جائیں گی اور اس کے لیے تین طرح کے آلات بھیجے جا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس خلائی مشن میں ”انفراریڈ سپیکٹرومیٹر“(اس آلے سے استعمال ہونے والی ٹیکنیک کو انفراریڈ سپیکٹرو سکوپی کہتے ہیں،جو کہ مالیکیولز کے فنکنشل گروپ کو بتاتی ہے) (Emirates Mars InfraRed Spectrometer (EMIRS))نصب ہے جو مریخ میں کرہ ہوائی کی نچلی سطح کی جانچ کرے گا اور وہاں کے ماحول کا مطالعہ کرے گا۔

اس کے علاوہ ایک انتہائی جدید ترین کیمرہ (Emirates exploration Imager (EXI))بھی اس مشن میں موجود ہے، جو مریخ پر اوزن کی تہہ کی تصاویر بنائے گا، جبکہ الٹراوائلٹ یا بالائے بنفشی سپیکٹرومیٹر (Emirates Mars Ultraviolet Spectrometer (EMUS))بھی اس مشن کا حصہ ہے، جس کے ذریعے مریخ کی سطح سے 43 کلومیٹر دور سے اس سیارے پر موجود آکسیجن اور ہائیڈروجن کا پتہ چلایا جائے گا۔

الامیری نے بتایا کہ ان آلات کے ذریعے محققین دن کے تمام اوقات میں اس سرخ سیارے کا مشاہدہ کرسکیں گے۔الامیری نے پانی میں موجود عناصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”ہم اس مشن کے ذریعے مریخ کے ماحول کو بہتر انداز سے جاننے کی کوشش کریں گے،اور پتہ لگانے کی کوشش کریں گے کہ کیا مریخ کا موجودہ موسمی نظام آکسیجن اور ہائیڈروجن کی کمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے؟“

یہ عرب مشن پندرہ جولائی کو جاپانی خلائی مرکز سے روانہ ہو گا جب کہ اس کی واپسی مئی2021 میں ہوگی۔اگر اس میں اضافہ کیا گیا تو 2025تک اس منصوبے کو چلایا جا سکے گا۔ گلف ریاستوں خاص طور پر متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں تعلقات کی گرم جوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کے اس مشن کو سراہا اور اس کو مبارکباد پیش کی ہے۔

خلا میں روانگی کی تفصیلات:
بین الاقوامی وقت کے مطابق 14جولائی رات 8:51 منٹ پر جبکہ یو اے ای کے معیاری وقت کے مطابق 15جولائی رات 12:15بجے اور جاپان کے معیاری وقت کے مطابق صبح5:51منٹ پر مسٹو بوشی H-IIAبوسٹر کے ذریعے خلا میں روانہ کیا جائے گا۔

امید ہے کہ مسلم دنیا جہاں اب سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کی جانب رواں دواں ہے، وہاں اپنے داخلی مسائل کے حل کی جانب بھی توجہ دے گی،تانکہ فلسطین،کشمیر اور شام جیسے جنگ زدہ ملکوں کے مسائل بھی حل ہو سکیں اور وہ بھی اس ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

آج وقت کی اہم ترین ضرورت ہے کہ تمام مسلم ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں اور جسد واحد کی عملی شکل اختیار کریں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں