عصمت چغتائی، معروف اردو ادیبہ، ناول و افسانہ نگار

عصمت چغتائی کی انسان دوستی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جیلانی بانو :

’’ وہ عصمت آپا اور شاہد صاحب کی شدید مالی پریشانیوں کا دور تھا، اس کے باوجود دونوں پُر سکون تھے۔ بڑی بیٹی سیما ایئر انڈیا کی ایئرہوسٹس تھی۔ چھوٹی منی کالج جاتی تھی۔

دوسرے دن ایک لمبے، دبلے، مسکین سی صورت بنائے یوسف صاحب آئے اور سیدھے عصمت آپا کے کمرے میں چلے گئے۔ عصمت آپا نے بتایا کہ یہ ہمارے دوست ہیں۔ رمی کھیلنے آتے ہیں۔ بیچارے پریشان ہیں۔ نوکری چھوٹ گئی ہے۔ بیوی بھی چلی گئی۔ ہم کارڈ کھیل کر ان کا دل بہلاتے ہیں۔

دوپہر کو ایک خاتون آئیں۔ ایک چھوٹی سی بچی کو گود میں لے کر۔ وہ عصمت آپا کی پڑوسن تھی۔ اولاد نہیں تھی۔ عصمت آپا نے ایک ہوم سے بچی دلوادی تھی۔ عصمت آپا بڑی دیر تک اس بچی کو گود میں اٹھائے کھیلتی رہیں۔ شام کو ایک دبلی سی لڑکی ایک بڑا سا بیگ اٹھائے آئی۔

میں عصمت آپا کے کمرے میں گئی تو آپا منھ پر بال بکھیرے، گھٹنوں پر کپڑا پھیلائے کشیدہ کاری میں مصروف تھیں۔ میں تعجب کے مارے اچھل پڑی: ”آپا! آپ کو سینا آتا ہے؟“

”کہاں آتا ہے! اچھے بھلے کپڑے کی ریڑھ مارتی ہوں۔ بیچاری بے سہارا لڑکی ہے۔ کپڑے سی کر لاتی ہے۔ میں اڑوس پڑوس میں بکوا دیتی ہوں۔ یہ آرڈر کا کام ہے۔ آج ہی دینا ہے اس لیے اس کی مدد کر رہی ہوں۔“

یہ وہی عصمت چغتائی تھیں جو اپنے کڑوے سچ سے دل نوچنے میں مشہور تھیں مگر وہ انسان کے دل تک پہنچنے کے اتنے مشکل راستے بھی جانتی تھیں۔ میں سچ مچ حیران ہو گئی تھی۔

وہ کسی کی اُداسی کے زہر کو اپنے وجود کی مٹھاس سے بدل سکتی ہیں۔ ایک فلمی کہانی لکھ کر ہزاروں روپے کمانے کی بجائے ایک غریب لڑکی کے لیے کپڑے سی سکتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں انہیں مظلوم عورت کے آنسوئوں سے چڑ ہے جو شوہر کے جوتے کھا کر آنسو بہاتی ہے۔ بے کار، مفت خور، گھروں میں آرام کرنے والی عورتوں سے نفرت تھی جو مرد کی دست نگر ہیں، اس لیے شوہر کی جوتیاں کھاتی ہیں۔

عصمت چغتائی نے موضوع سے بغاوت کی، اسلوب سے،اندازِ تحریر سے، مگر ان کے کردار سماج سے بغاوت نہیں کرتے۔ وہ زندگی کی تلخ سچائیوں کو اسی طرح دیکھتی ہیں جیسی وہ ہیں۔ وہ اس پابندی سے انحراف کرتی ہیں، جو ادیب عورت پر معاشرے نے لگائی تھی۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں جنس کو ایک عام انسانی جذبے کی طرح برتا کہ پڑھنے والے چونک پڑے۔ وہ نئے لکھنے والوں کی چیزیں بہت دلچسپی سے پڑھتی تھیں لیکن اپنی رائے دینے اور ان پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتی تھیں۔

”تمہیں جو لکھنا ہے لکھو…. تمہارے سر پر ڈنڈالے کر کیوں سوار ہو جائوں کہ ادھر چلو….“

وہ نقّادوں کو محلے کی بوڑھیاں کہتی تھیں جن کا کام عیب جُوئی کرنا اور پابندی لگانا ہے۔ انہیں کوئی چیز پسند آتی تو خط میں تعریف کرنے کا انداز الگ ہوتا۔‘‘


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں