عمران خان، وزیراعظم پاکستان

عمران خان کی پاکستانیوں کو راضی کرنے کی کوشش ناکام

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:
حال ہی میں رائے عامہ کے ایک آن لائن جائزہ میں پاکستانیوں سے سوال پوچھاگیا کہ کیا حکومتی ریلیف پیکج سے مہنگائی میں کمی واقع ہوئی؟
74 فیصد پاکستانیوں کا کہنا تھا:
”نہیں“۔

رائے عامہ کا یہ جائزہ ’ایکسپریس میڈیا گروپ ‘ نے لیا۔ اس کی ویب سائٹ پر اس کے نتائج دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ہفتہ کے روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا:
” منصوبہ بندی کے تحت کچھ چینلز ہمارے خلاف پروپیگنڈا کررہے ہیں،عام آدمی سے پوچھتے ہیں کہ مہنگائی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ کدھر گیا نیا پاکستان؟ اور عام شہری برابھلا کہتا ہے۔“

چلیں!عمران خان نے یہ اعتراف تو کیا کہ عام شہری انھیں برا بھلا کہہ رہاہے۔ اگرچہ وہ اس کی ذمہ داری میڈیا پر عائد کرتے ہیں ، ان کا خیال ہے کہ یہ میڈیا والے ہی ہیں جو عام پاکستانیوں کو گمراہ کررہے ہیں، انھیں حکومت کے خلاف اکساتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا عام پاکستانیوں کو کس باﺅلے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ کسی کے اکسانے میں آجائیں گے؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ خود عمران خان کی حکومت باﺅلی ہوکر عوام کو مسلسل کاٹ رہی ہے، انھیں بھنبھوڑ رہی ہے، ایسے میں وہ حکومت کو برا بھلا نہ کہیں تو کیا کریں! کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگرعوام اپنی حکومت سے مطمئن ہوں تو اپوزیشن ایڑی چوٹی کا زور لگا لے ،وہ لوگوں کو حکومت کے خلاف نہیں کرسکتی۔

اس کی بہترین مثال ترکی ہے جہاں موجودہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کی’جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی‘ گزشتہ انیس برس سے حکمران ہے۔ اس پورے عرصہ میں اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو گرانے یا رجب طیب اردغان کو ہرانے کی متعدد کوششیں کیں، ایک طویل دھرنا بھی دیا لیکن کسی بھی عام انتخابات اور کسی بھی بلدیاتی انتخابات میں اپوزیشن کی دال نہیں گل سکی۔

رجب طیب اردوغان حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں جہاں عام ترکوں کی زندگی میں آسانی پیدا ہوئی، وہ پھولے پھلے ، وہاں ترکی چھوڑ کر بیرون ملک بھاگ جانے والے ملکی سرمایہ کار وطن واپس آئے، وہ اب خوب خوشحال ہیں اور معاشرے میں خوشحالی بانٹ رہے ہیں۔

ادھرعمران خان حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ عام پاکستانی بدترین مشکلات کا شکار ہیں، اب تو ان میں چیخنے چلانے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔ دوسری طرف مافیاز خوب ناچ رہے ہیں۔ عمران خان کے حامی دانشور، تجزیہ نگار بھی ان سے سخت مایوس ہوتے جارہے ہیں۔

ارشادبھٹی ، روزنامہ جنگ کے کالم نگار اور تجزیہ نگار، کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے کس قدرحامی تھے، انھیں برسراقتدار لانے والی میڈیاٹیم کے اہم رکن تھے، اب ان کے الفاظ یہ ہیں:

”مافیا کی چالیں، مہنگائی کی دھمالیں، ذخیرہ اندوزوں کی موج، باہم دست وگربیاں وزرا کی فوج، کمانے والے کما ر ہے، کھانے والے کھا رہے، عمرانی بڑھکیں خوف نہ ڈر، عوامی چیخیں رونا گھر گھر، نام ملک وقوم کا، دھندے سارے اپنے، حکومت بھلا بیٹھی منشور، اپوزیشن ہوئی عوام سے دور، غریب بے بس مجبور “۔

نو برس قبل جب ’سلیکٹرز‘ نے عمران خان کو اقتداردلانے کی کوشش شروع کی تھی، تب بھی ہم نے بتایاتھا کہ عمران خان پاکستانیوں کے نجات دہندہ نہیں بن سکیں گے، جب انھیں اقتدارمل گیا، تب بھی عرض کیا کہ وہ کیوں کامیاب نہیں ہوسکیں گے؟ جوباتیں ہم نے نو برس قبل کہی تھیں ، وہی اب ارشادبھٹی کہہ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی ناکامی کا سبب ”تبدیلی سرکار کی نالائقیاں“ ہیں۔

بقول ان کے :” اب یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ صاف نیتی، ایمانداری کے باوجود عمران خان کی حکومتی ناتجربہ کاری کا نقصان ہوا۔ عمران خان وزیراعظم بننے سے پہلے وزیر رہے نہ مشیر، بیورو کریسی کو ڈیل کیا نہ حکومت چلائی، یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ تحریک انصا ف کے زیادہ تر وعدے، دعوے، نعرے حقیقت پر مبنی نہیں تھے، اکثر باتیں ہوائی‘‘۔

’’یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ عمران خان جو رائٹ پیپل فار رائٹ جاب نہ لگا سکے، اس کا بھی بہت نقصان ہوا اور ہو رہا، یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ تبدیلی سرکار کی کنفیوژن، نالائقیوں نے کئی سنورے کام بھی بگاڑ دیے۔ تبدیلی سرکار کا فوکس نہیں، فالو اَپ نہیں، مطلب پہلے یہ پتا نہیں کرنا کیا، یہ پتا چل گیا کہ کرنا کیا تو یہ پتا نہیں کرنا کیسے۔یہ پتا چل گیا کرنا کیا، کرنا کیسے تو ’فوکس‘ مسئلہ، اگر یہ پتا چل گیا کرنا کیا، کیسے کرنا، فوکس بھی تو پھر فالو اَپ نہیں“۔

ارشادبھٹی کہتے ہیں: ”اب یہ بھی مان لینے میں کوئی حرج نہیں کہ حکومت مافیاز کے سامنے بےبس، دوائیوں والے اربوں کما چکے، ٹماٹر والے دہاڑی لگا گئے، چینی والوں کی نسلیں سنور گئیں، آٹے والے نوٹ چھاپ کر چلتے بنے، حکومت ٹی وی اسکرینوں پر بڑھکیں مار رہی، زبانی کلامی ڈرا رہی جبکہ مافیاز نوٹ چھاپی جا رہے۔ ‘‘

’’اگر حکومت دوائی اسکینڈل ملزمان کو نشانِ عبرت بنا دیتی تو ٹماٹر اتنا مہنگا نہ ہوتا، اگر ٹماٹر مہنگا کرنے والوں کا کچھ کر لیتی تو مہنگائی کو بریکیں لگ جاتیں، اگرحکومت آٹا مافیا کو منطقی انجام تک پہنچا دیتی تو چینی مافیا لوٹ مار نہ کر پاتا، اگر حکومت شوگر مافیا کا کچھ کر لیتی تو باقی مافیاز خود بخود تتربتر ہو جاتے“۔

عمران خان اور تحریک انصاف کے وہ کارکنان، جو ان سے مخلص ہیں، اپنے آپ سے مخلص ہیں اور ملک وقوم سے مخلص ہیں، وہ کم ازکم ارشادبھٹی ایسے لوگوں ہی کی باتوں پر دھیان دیں، کم ازکم وہ ارشادبھٹی جیسوں کو بھی لفافہ مافیا کا طعنہ نہ دیں۔ اب تک یہی ہورہاہے جو بھی عمران خان پر تنقید کرتاہے، اسے فوراً ملک دشمن قراردیدیاجاتاہے۔ اگریہی حالات رہے تو ارشادبھٹی کے بقول:
”مہنگائی، بےروزگاری، گورننس، پرفارمنس، اگر اگلے 3مہینوں میں اس حوالے سے کچھ نہ ہوا تو پھر کیا ہوگا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں“۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں