عید کا چاند

عید ایک رسم یا تہوار؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ:

اللہ کا بے پناہ شکر ہے کہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے کی وجہ سے ہم بھی مسلمان ہیں اور اسی طریقہ پر عمل پیرا ہیں جو بزرگوں سے چلا آرہا ہے۔ ہم ان ہی مواقع پر خوش ہوتے ہیں جب وہ خوش ہوئے، جن کاموں کو انھوں نے مذہبی فریضہ سمجھ کے کیا ہم انھیں انتہائی محبت اور عقیدت کے ساتھ کرتے ہیں خواہ وہ شریعت کی نظر میں ذرہ بھر اہمیت نہ رکھتے ہوں۔ اب جب کہ عید کا تہوار ہم سے چند گھنٹے کے فاصلے پر ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں منائی جارہی ہے تو مجھ سے کسی نے سوال کیا:
کیا ان حالات میں جب کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر خوف، دکھ اور غم کے سیاہ بادلوں نے ہمارے دلوں کو مردہ کر دیا ہے ہمیں عید منانا چاہئیے؟؟

جب یہ سوچا جائے کہ بہت سے گھرانوں میں کورونا کی وجہ سے سوگ کی کیفیت ہوگی، اور جب یہ بھی سامنے ہو کہ ہمارا خدا ہم سے ناراض ہے تو ہم عید کیسے منا سکتے ہیں، کوئی کورونا کے مرض میں مبتلا ہو کے ان دیکھے خوف میں کوئی دنیا سے چلا گیا تو گھر والے آنسو پونچھیں یا عید منائیں؟

کہیں پی آئی اے کے طیارے نے ایک ایک منٹ کی ایسی اہمیت دنیا کے سامنے رکھ دی کہ سوچنے والوں نے کبھی کہاں سوچاہوگا، رمضان میں دو تین حریت پسند مجاہدین کی شہادت اور ہندوئوں کی بربریت نے صف ماتم بچھا رکھی ہے ۔

کاروبار مندے ہیں، ڈالر اور سونا ہر کس و ناکس کی پہنچ سے دور اور روپیہ جیب میں ہو بھی تو غیر اہم، کیا ہم عید مناتے اچھے لگیں گے؟؟

کیا ہمیں بحیثیت مسلمان غم زدہ لوگوں کے غم میں شمولیت کا احساس دلانے کے لیے عید منانا لازم تو نہیں ؟؟ عید کے دن کے یہ چار سجدے، یہ دو رکعت، یہ بارہ تکبیریں اتنی اہم بھی نہیں کہ ان کے بغیر گزارہ نہیں، گلے تو مل نہیں سکتے، کورونا کے خوف سے مصافحہ کر نہیں سکتے، ہماری بھی عید کیا عید ہوگی جسے مناتے ہوتے ایک آنکھ ضرور ہی اشک بار ہو۔

میرا جواب ایک ہی ہے:
”ہاں! ہمیں عید ضرور منانا چاہئیے، بھلے گھروں میں کورونا کی دہشت کا راج ہو،
بھلے حرم کے خالی ہونے سے دل خون کے آنسو روتا ہو،
بھلے رب کی ناراضی کا احساس اندر تک کچوکے لگاتا ہو،
بھلے آپ کورونا میں مبتلا ہوں یا رہ چکے ہوں،

بھلے انفرادی اور اجتماعی طور پر امت مسلمہ کے جو بھی حالات ہوں، ہمیں یہ دو رکعت، یہ چار سجدے، یہ بارہ تکبیریں ہر صورت میں ادا کرنا ہیں۔

اگر دنیا بھر کے مفتیان کرام اجتہاد کا دروازہ کھول دیں اور عید کی نماز گھر پر ادا کرنے کو کہیں تو گھر پر ہی ادا کر لیجئیے۔
محلے کی مسجد اپنا ظرف کھول دیتی ہے تو اسے انکار مت کیجئیے
کہیں عید گاہ پر پڑھنے کے حالات ہوں تو بھی مہربان رب کا شکر بھی شامل کر لیجئیے۔

یہ عید کی نماز ضرور ادا کیجئیے، اس سے صرف ان لوگوں کےلیے رخصت ہے جن کے گھروں میں کوئی اللہ کو پیارا ہوچکاہے اور اسے تین دن مکمل نہیں ہوئے۔ بس! وہی عید نہ منانے کا شرعی عذر رکھتے ہیں کہ سوگ صرف تین دن کا ہے، اپنے پیاروں میں سے کسی کو رخصت ہوئے اگر چار پانچ یا اس سے زیادہ دن گزر چکے ہیں تو آپ کا عید نہ منانا اللہ اور اس کے محبوب کی ناراضی کا باعث بن سکتا ہے۔

ہم سات آٹھ سو سال ہندوئوں کے پڑوس میں گزار کے سال کے کسی بھی دن ملنے والے جدائی کے دکھ کی بناء پر کہتے ہیں،” فلاں فوت ہوگیا تھا تو اس کے بعد پہلی عید ہے، پہلی عید کبھی منانے کا سوچنا بھی نہیں، بے شک رخصت ہونے والا گیارہ ماہ قبل رب کے پاس پہنچا ہو مگر اس کے بعد عید نہ منانا مذہبی نقطہ نظر سے حرام سمجھا جاتا ہے۔

ہم مسلمان ہیں تو ہماری رسموں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے، یہ عقیدہ سراسر ہندوئوانہ ہے کہ بندہ فوت جب بھی ہو پہلی عید منانا منع ہے بلکہ اگر کوئی منالے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے جانے والے سے محبت نہیں تھی۔اسلام کا مزاج ذرا مختلف ہے، وہ سوگ صرف تین دن کے لیے پھر ظاہری میل جول یا خوشی کے مواقع پراس فوتیدگی کو ممانعت نہیں سمجھا جائے گا سوائے بیوہ کے جس کی عدت چار ماہ اور دس دن کی ہے۔

عید کہتے ہی بار بار آنے کو ہیں، یہ لمحات جب آپ کے پاس پلٹ کے آہی گئے تو انہیں ٹھکرائیے مت، ان کو وقار کے ساتھ قبول کیجئیے، رب کا شکر ادا کیجئیے، میزبانی اچھی ہوئی یا نہیں اس نے اپنے مہمان کو آپ کے پاس تیس دن کے لئےبھیجا۔ اب اگر آپ کا رب آپ کے پاس اس مہمان کی خاطر مدارت پر اجر دینا ہی چاہتا ہے وہ لیلہ الجائزہ کے ذریعے مزدوری بھی دینے کو تیار ہے تو للہ نا شکری مت کیجئیے!

یہ بھائی چارے اور محبتوں کے اظہار کا دن ہے، کنجوسی مت کیجئیے، رنجشیں بھلا دیجئیے کہ رمضان نے یہی سبق دہرایا تھا سینہ بے کینہ۔

صدقہ فطر نماز عید کی ادائیگی سے قبل ادا کرنا لازم ہے، اس کا اہتمام کیجئیے، اور نماز کے لیے جانے کے حالات بنیں یا نہ بنیں، تکبیرات پر تو پابندی نہیں، گھر میں بھی اٹھتے بیٹھتے بہ آواز بلند تکبیرات پڑھئیے۔
گھر والوں کو شوق دلائیے، شیطان ہر اللہ اکبر، اس کی کبریائی کے اعتراف سے زیادہ بھاری کلمات کوئی نہیں۔

جن سے دل خراب تھا انہیں عید کی خوشیوں میں مبارکباد دیں، یہ سوئے رہنے یا غفلتوں کا نہیں رب کے انعام کا دن ہے۔
اٹھئیے اور دل سے اس کی خوشیوں میں شریک ہوجائیے، جو غمزدہ ہیں ان کی دل جوئی کیجئیے۔
عید مبارک۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “عید ایک رسم یا تہوار؟” جوابات

  1. عافیہ علی Avatar
    عافیہ علی

    ماشاءاللہ بہترین اور جامع تحریر.. عید ایک رسم یا تہوار ؟ حالات حاضرہ کے تناظر میں بہترین رہنمائی.. اللہ سب عمل کی توفیق دے.. امین عید منانا رمضان کی طرح ایک عبادت اور قرب الہی کا ڈریعہ ہے یہ تحریر پڑھ کے یہ بات بہت اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے. تقبل اللہ منا ومنکم.. اللہ اکبر کبیرا..

    1. قانتہ رابعہ ۔۔۔tehreemzerwaa@gmao Avatar
      قانتہ رابعہ ۔۔۔tehreemzerwaa@gmao

      بہت شکریہ پیاری عافیہ میرا لکھنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ انجانے مین نیکی سمجھ لیں اور مزید ناراضگی کا موجب ہو ۔۔بہت دعائیں

  2. نادیہ بشری Avatar
    نادیہ بشری

    ماشاء اللہ۔۔ پرزور انداز بیان اور بروقت تحریر۔۔۔

  3. قانتہ رابعہ Avatar
    قانتہ رابعہ

    جزاک اللہ خیر

  4. صائمہ اسما Avatar
    صائمہ اسما

    ماشاء اللہ بروقت رہنمائی بھی احساسات کی ترجمانی بھی