دہی بھلے

قربانی والی بکرا عید

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

نبیلہ شہزاد :

اسلم اپنے دونوں بیٹوں دس سالہ شکیل اور بارہ سالہ فیصل کے ساتھ نماز عید پڑھ کر سیدھا اپنے گھر ہی آیا۔ شکیل اور فیصل نے راستے میں متعدد بار کھڑے ہو کر لوگوں کے گھروں سے باہر بندھے دنبے، بھیڑیں اور بچھڑے دیکھنے کی کوشش کی۔ وہ دونوں بھائی آپس میں ان قربانی کے جانوروں کی قیمتوں کا تعین بھی کرتے اور ان کے حسن و جمال کا مقابلہ بھی کرتے۔ اسلم کو یہ سب کچھ ایک آنکھ نہ بھایا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کے بیٹے ان جانوروں میں مگن ہوں۔ وہ انہیں جلد از جلد گھر میں لے کر آنا چاہتا تھا۔ اسے خوف تھا کہیں اس کے بیٹے بھی قربانی کے جانور کا مطالبہ نہ کر دیں۔

اسلم ایک چھوٹے سے کارخانے میں سولہ ہزار ماہانہ تنخواہ پر ملازم تھا۔ بیوی کفایت شعار، سگھڑ اور سلائی کڑھائی جاننے والی تھی اس لیے گھر کا گزر بسر کسی نہ کسی طرح ہو جاتا تھا۔ مشکلات ومصیبت کا آتش فشاں تو اس وقت پھٹا جب کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون ہوا۔

چھوٹے بڑے تمام کاروباری مراکز بند ہو گئے۔ بڑی بڑی ملوں اور کارخانوں کے مالکوں نے اپنے ملازموں کو کچھ نہ کچھ دیا لیکن چھوٹے کارخانے جو خود شدید خسارے میں تھے وہ اپنے ملازمین کو کیا دیتے۔

تین چار ماہ کے لاک ڈاون میں حکومت فی خاندان کے حساب سے بارہ ہزار روپے دے کر فارغ ہو گئی۔ وہ بھی کہیں کہیں ہی کسی کو ملا۔

پانچ بچوں کے باپ اسلم کا گھر میں فارغ بیٹھنے کا مطلب فاقوں کو گلے لگانا تھا۔ خاتون خانہ رقیہ جو پہلے بھی سلائی کڑھائی کا کام کر کے گھر کی کفالت میں شوہر کا ساتھ دیتی تھی، اب بھی سلائی کے لیےکئی گھروں میں پیغام بھجوایا لیکن کورونا کے خوف سے لوگوں کا گھروں سے نکلنا محال تھا اور شہر، دکانیں بند ۔ وہ خریدتے تو سلواتے نا۔

کچھ کہیں راشن کے تقسیم کی خبر بھی ملتی مگر سفید پوش اسلم کے لیے یہ خبر بے معنی ہوتی۔ لائن میں لگ کر ہاتھ پھیلانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ ان سارے حالات میں جسم و روح کا رشتہ باقی رکھنے کے لیے ان کے پاس ایک ہی حل تھا اور وہ تھا رقیہ کی سونے کی بالیاں۔۔۔۔ رقیہ نے اپنے کانوں سے بالیاں اتاری اور بیچنے کے لیے اسلم کے ہاتھ پر رکھ دیں۔

اسلم نہ چاہتے ہوئے بھی بیچنے کے لیے چلا گیا اور ان روپوں سے لاک ڈائون کی مدت میں کھینچ تان کر دال روٹی چل گئی۔عید الفطر کے بعد کارخانہ کھل گیا اور رقیہ کے پاس بھی سلائی کا تھوڑا بہت کام آنا شروع ہو گیا۔ یوں دونوں میاں بیوی کی سخت جدو جہد سے بکرا عید تک سارے گھر والوں کے لیے سستے والے کپڑے کا ایک ایک جوڑا بنانے میں کامیاب ہو گئے۔

وہ اس بار گرمیوں میں کپڑے خرید ہی نہ سکے تھے اور پچھلے سال والے بھی تقریباً ناکارہ ہو چکے تھے۔ بچے نئے کپڑے ملنے پر خوش تھے اور دبے دبے الفاظ میں قربانی کے جانور کی خواہش کا بھی اظہار کرتے۔ لیکن اسلم نے اگلے سال لینے کی بات پر ٹالا۔

اسلم اور بیٹوں کے گھر آنے سے پہلے ہی رقیہ نے سویاں ابال کر رکھ لی تھیں۔ تینوں بچیاں بھی نئے کپڑے پہن کر خوشی خوشی گھر میں گھوم رہی تھیں۔ رقیہ سب کو ابلی سویوں پر دودھ چینی ڈال کر پیش کر رہی تھی۔ سویاں کھاتے ہوئے لڑکوں کے دھیان بکروں پر ہی مرکوز تھے۔ میں ۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔اور بھاں۔۔۔۔ بھاں۔۔۔۔۔کی آوازیں انہیں کتنا مسحور کر رہی تھیں۔

سویاں کھائے چار گھنٹے گزر چکے تھے، بچے اب بھوک محسوس کر رہے تھے۔ سچی بات ہے کہ رقیہ کا اپنا دل بھی چاہ رہا تھا کہ کلیجی پھیپھڑے کے قورمے والے سالن کے ساتھ پیٹ بھر کر روٹی کھائے۔

”امی! ابھی تک کسی نے ہمارے گھر گوشت نہیں بھیجا؟ امی ! میرا بوٹی کھانے کو دل چاہ رہا ہے“ ننھی ثمینہ نے للچائی سی آواز میں ماں کے سامنے دل کی چاہ کا اظہار کیا۔

بیٹی کی معصوم سی چاہ سن کر رقیہ کا دل بیٹھ گیا لیکن اپنی اندرونی کیفیت کو پسِ پشت ڈال کر ظاہری طور پر مضبوط لہجہ اپنا کر کہنے لگی:
” چھوڑو بوٹیوں کو یہ دیکھو، میں کتنے مزے کے دہی بھلیاں بنا رہی ہوں۔ چلو سب سے بولو کہ ہاتھ دھو کر بیٹھیں۔ میں ابھی لے کر آ رہی ہوں۔“

رقیہ نے بچوں کے سامنے دہی بھلیاں کا ڈونگا رکھا اور سب بچوں کو کٹوریوں میں ڈال کر دینے لگی۔ بھلیاں دیکھ کر شکیل کہنے لگا :
”امی! بکرا عید تو گوشت والی عید ہوتی ہے اور آپ ہمیں بھلیاں کھلا رہی ہیں۔“

امی نے شکیل کی بات سنی ان سنی کر دی لیکن فیصل سے زیادہ گوشت کھانے کی چاہ کس کی تھی؟ جسے لاک ڈائون کے دوران تیز بخار ہو گیا۔ ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور تو بند پڑے تھے۔ رقیہ اور اسلم اسے قریبی کلینک میں لے گئے۔ ڈاکٹر نے دور بیٹھے ہی کورونا کے شک کا اظہار کر دیا۔

ابو امی فیصل کو گھر لے آئے تازہ پانی کی پٹیوں کے ساتھ ساتھ پیناڈول کھلانی شروع کر دی۔ اور ہر گھنٹے کے بعد نمک ملے نیم گرم پانی کے غرارے ۔۔۔۔۔۔ گلا تو دو دن بعد ہی ٹھیک ہو گیا لیکن بخار بدستور کئی دن جاری رہا اور نحیف سی جان پر ڈھیروں نقاہت چھوڑ گیا۔ اس دوران فیصل نے شوربے والے گوشت کی خواہش کی۔ بکرے کا گوشت تو دستِ خرید سے باہر لیکن اسلم برائلر مرغ کا آدھا کلو گوشت لے آیا۔ اور بخار سے پیدا ہونے والی منہ کی کڑواہٹ کا کچھ ذائقہ کچھ تبدیل ہوا۔

عصر کا وقت ہو گیا لیکن کسی طرف سے گوشت نہ آیا۔ ہاں البتہ اردگرد مختلف جگہوں پر گوشت بانٹا ضرور گیا تھا۔ ہاتھ پھیلانے والوں نے تو خوب جمع بھی کر لیا۔ اسلم جیسے خوددار بندے کے لیے یہ کیسی آزمائش تھی؟ جسے اپنے بچوں کے چہروں پر بکرا عید کی خوشیاں منانے کی تڑپ نظر آ رہی تھی۔

چلو رقیہ! پیاز کا تڑکا لگا کر بچوں کے لیے چاول بنا لو، مغرب ہونے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ اتنے میں لوہے کا بنا بیرونی دروازہ زور زور سے کھٹکا۔ شکیل نے تیزی سے دروازہ کھولا۔ اور خوشی خوشی گوشت کا پیکٹ پکڑے ماں کی طرف دوڑا۔ ” امی گوشت آ گیا۔۔ ۔ امی گوشت آ گیا۔۔۔۔۔“

ساتھ والے حاجی صاحب کے گھر سے گوشت آگیا ہے۔ رقیہ گوشت پکڑے اسلم کی طرف مڑی اور کہنے لگی:
”اسلم یہ کیا؟۔۔۔۔۔ بڑے گوشت کی تین بڑی موٹی ہڈیاں دو چربی کے ٹکڑے اور تین بوٹیاں۔۔۔۔۔۔؟؟ “

” کوئی بات نہیں فیصل کی امی۔ لوگوں نے دنبوں بکروں کی قربانی کی ہے۔ اور ہم اپنی گوشت کھانے کی چاہ کی قربانی دے دیتے ہیں۔ چلو اس کا شوربہ بناؤ۔ ہم چاولوں پر ڈال کر کھائیں گے۔“


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “قربانی والی بکرا عید” جوابات

  1. راشدہ قمر Avatar
    راشدہ قمر

    نبیلہ بہت اچھا لکھا ہے
    ما شاء اللہ

  2. قانتہ رابعہ Avatar
    قانتہ رابعہ

    کہانی کا انجام بہت اچانک اور متاثر کن ہے