قیامت، دنیا کا اختتام

قیامت کا قرب: کیا آخری وقت آن پہنچا؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فاطمہ عمیر:
یہ دنیا کتنے سالوں سے چل رہی ہے اور اس دنیا کا اختتام کب ہوگا؟ یہ دونوں ایسے سوال ہیں کہ جن کی کھوج میں آج کا انسان ہر دم منہمک نظر آتا ہے۔

سائنس نے انیس سو ستر کے قریب اس بات کو جانا کہ دنیا ایک بڑے دھماکے کے نتیجے میں وجود میں آئی جس کو سائنس کی زبان میں ”بگ بینگ تھیوری“ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ اس کا ذکر قرآن مجید میں اللہ تعالی نے چودہ سو سال پہلے سورہ انبیاء میں آیت نمبر 30 میں کر چکے ہیں۔

”کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین باہم ملے جلے تھے، پھر ہم نے جدا کیا، پھر ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا۔ کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟

اور اسی طرح دنیا کے اختتام پر بھی بہت سے لوگوں نے نے پیشنگوئیاں کیں، کسی نے کہا کہ 2017 دنیا کا آخری سال ہوگا تو کسی نے 2018 ، سائنس اس بات کو تسلیم کرتی نظر آتی ہیں کہ اس دنیا کا اختتام ایسی حقیقت ہے جسے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔

بحیثیت مسلمان نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو چند علامات بتائی ہیں کہ جن کو پڑھ کر ہر عاقل اور بالغ شخص اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کس دور میں جی رہا ہے اور اس کو کیا حکمت عملی اختیار کر نی چاہیے؟

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ غزوہ تبوک میں چمڑے کے ایک خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے، میں خیمے کے صحن میں بیٹھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عوف! اندر آ جاؤ ، میں نے عرض کیا: پورے طور سے، اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں پورے طور سے ، پھر آپ نے فرمایا: عوف! قیامت سے پہلے چھ نشانیاں ہوں گی، انہیں یاد رکھنا، ان میں سے ایک میری موت ہے ، میں یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہو ایک، دوسری بیت المقدس کی فتح ہے،

تیسری ایک بیماری ہے جو تم میں ظاہر ہو گی اس کے ذریعہ اللہ تمہیں اور تمہاری اولاد کو شہید کر دے گا، اور اس کے ذریعہ تمہارے اعمال کو پاک کرے گا، چوتھی تم میں مال کی کثرت ہو گی حتیٰ کہ آدمی کو سو دینار ملیں گے تو وہ اس سے بھی راضی نہ ہو گا،

پانچویں تمہارے درمیان ایک فتنہ برپا ہو گا جس سے کوئی گھر باقی نہ رہے گا جس میں وہ نہ پہنچا ہو، چھٹی تمہارے اور اہل روم کے درمیان ایک صلح ہو گی، لیکن پھر وہ لوگ تم سے دغا کریں گے، اور تمہارے مقابلہ کے لیے اسی جھنڈوں کے ساتھ فوج لے کر آئیں گے، ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوج ہو گی۔

حذیفہ‌رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌سے قیامت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:(الأعراف: 187) ”اس کا علم میرے رب کے پاس ہے جسے اس کے وقت پر وہ خود ہی ظاہر کرے گا“۔ لیکن میں تمہیں اس کی نشانیاں بتا دیتا ہوں ۔ اس سے پہلے فتنہ اور هَرَج ہوگا۔

صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول فتنہ کے بارے میں تو ہمیں معلوم ہے یہ ہرج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حبشہ کی زبان میں هَرَجْ قتل عام کو کہتے ہیں اور لوگوں کے مابین اجنبیت ڈال دی جائے گی، کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا۔

اگر ہم آج کل کے طور پر نظر ڈالیں تو ہم با آسانی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسمارٹ فون کا فتنہ آج ہر خاص و عام کے گھر میں پہنچ چکا ہے۔ لوگ ایک گھر میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے لئے اجنبیت محسوس کرتے ہیں، والدین اور بچوں کے درمیان اجنبیت، میاں اور بیوی کے درمیان اجنبیت بہت، سوشل میڈیا پر فرینڈز کے ساتھ تمام باتیں شیئر کی جاتی ہیں جبکہ اپنے گھر والے اور رشتہ دار دور ہوتے نظر آتے ہیں۔

ابوذرعہ بن عمرو کہتے ہیں: مدینہ منورہ میں تین مسلمان مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے مروان کو سنا وہ علاماتِ قیامت بیان کر رہا تھا، اس نے کہا کہ قیامت کی پہلی علامت دجال کا خروج ہے۔ پھر یہ لوگ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں گئے اور مروان سے سنی ہوئی علامات ِ قیامت کا ذکر ان سے کیا،

سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مروان نے کوئی علمی بات نہیں کہی، اس بارے میں مجھے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ایک حدیث یاد ہے، جو مجھے ابھی تک بھولی نہیں ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سب سے پہلی علامتیں جو ظاہر ہوں گی، وہ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت چوپائے کا نکلنا ہے، ان میں سے جو علامت پہلے ظاہر ہوگی، دوسری اس کے بعد جلد ہی ظاہر ہوجائے گی۔

چونکہ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آسمانی کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے کہا: میرا خیال ہے کہ سب سے پہلی علامت سورج کا مغرب سے طلوع ہونا ہی ہو گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج جب غروب ہوتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتاہے، پھر واپس جانے کی اجازت طلب کرتا ہے اور اسے واپس جانے کی اجازت مل جاتی ہے،

جب اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہوگا کہ یہ مغرب کی طرف سے طلوع ہو، تو یہ معمول کے مطابق سارے امور سرانجام دے گا، عرش کے نیچے جا کر سجدہ ریز ہونے کے بعد حسب سابق واپس جانے کی اجازت طلب کرے گا، لیکن اللہ تعالیٰ اسے کوئی جواب نہیں دے گا، یہ دوبارہ اجازت مانگے گا، پھر بھی اسے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا، وہ تیسری مرتبہ اجازت مانگے گا ، پھر بھی اسے کوئی جواب نہیں دیا جائے گا،

یہاں تک کہ رات کا کچھ حصہ گزر جائے گا اور سورج کو یقین ہوجائے گا کہ اب اگر اسے واپسی کی اجازت مل بھی جائے تو وہ اپنے مقرر وقت پر مشرق تک نہیں پہنچ سکے گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب ! مشرق کس قدر بعید ہے! اب میرا اور لوگوں کا معاملہ، اس کا کیا بنے گا؟ یہاں تک کہ افق جب ایک گول حلقہ کی طرح ہوجائے گا تو وہ پھر ایک دفعہ واپسی کی اجازت طلب کرے گا، اب کی بار اسے کہا جائے گا: آج تم یہیں سے طلوع ہوجاؤ، چنانچہ وہ لوگوں پر مغرب کی طرف سے طلوع ہو جائے گا۔

اس کے بعد سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے یہ آیت تلاوت کی: {یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ آیَاتِ رَبِّکَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُہَا لَمْ تَکُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ کَسَبَتْ فِیْ اِیْمَانِہَا خَیْرًا۔} (سورۂ انعام: 158) (جس دن آپ کے رب کی بعض نشانیاں آجائیں گی تو اس وقت کسی ایسے شخص کا ایمان لانا اسے فائدہ نہیں دے گا، جو اس سے پہلے ایمان نہیں لایا ہو گا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی اچھا عمل نہیں کیا ہو گا۔) مسند احمد13034

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے محلات میں سے ایک محل یعنی اونچے مکان پر چڑھے پھر فرمایا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں کیا تمہیں نظر آ رہا ہے؟ میں بوندوں کے گرنے کی جگہ کی طرح تمہارے گھروں پر فتنوں کے نازل ہونے کی جگہوں کو دیکھ رہا ہوں۔ اس روایت کی متابعت معمر اور سلیمان بن کثیر نے زہری کے واسطہ سے کی ہے۔ صحیح بخاری 1878

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنے بچوں کو یہ کلمات دعائیہ اس طرح سکھاتے تھے جیسے معلم بچوں کو لکھنا سکھاتا ہے اور فرماتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الجبن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأعوذ بك من فتنة الدنيا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأعوذ بك من عذاب القبر»

”اے اللہ! بزدلی سے میں تیری پناہ مانگتا ہوں ‘ اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ عمر کے سب سے ذلیل حصے ( بڑھاپے ) میں پہنچا دیا جاؤں اور تیری پناہ مانگتا ہوں میں دنیا کے فتنوں سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔“ پھر میں نے یہ حدیث جب مصعب بن سعد سے بیان کی تو انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی۔ صحیح بخاری2822، صحیح مسلم 313

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز فجر کے بعد ایک موثر نصیحت فرمائی جس سے لوگوں کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں اور دل لرز گئے، ایک شخص نے کہا: یہ نصیحت ایسی ہے جیسی نصیحت دنیا سے ( آخری بار ) رخصت ہو کر جانے والے کیا کرتے ہیں، تو اللہ کے رسول! آپ ہمیں کس بات کی وصیت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”میں تم لوگوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے، امیر کی بات سننے اور اسے ماننے کی نصیحت کرتا ہوں، اگرچہ تمہارا حاکم اور امیر ایک حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو،

کیونکہ تم میں سے آئندہ جو زندہ رہے گا وہ ( امت کے اندر ) بہت سارے اختلافات دیکھے گا تو تم ( باقی رہنے والوں ) کو میری وصیت ہے کہ نئے نئے فتنوں اور نئی نئی بدعتوں میں نہ پڑنا، کیونکہ یہ سب گمراہی ہیں۔ چنانچہ تم میں سے جو شخص ان حالات کو پالے تو اسے چاہیے کہ وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر قائم اور جما ر ہے اور میری اس نصیحت کو اپنے دانتوں کے ذریعے مضبوطی سے دبا لے“۔ ( اور اس پر عمل پیرا رہے ) امام ترمذی کہتے ہیں: 1- یہ حدیث حسن صحیح ہے، جامع ترمذی2676

ان فتنوں سے پناہ میں آنے کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ دعائیں سکھائی ہیں جن کا ہمیں خود بھی اہتمام کرنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی یہ دعائیں پڑھانی چاہیے :

أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِي لَا يُجَاوِزُهُنَّ بَرٌّ وَلَا فَاجِرٌ مِّنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا وَمِنْ شَرِّ مَا ذَرَأَ فِي الْأَرْضِ وَمِنْ شَرِّ مَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ يَا رَحْمَنُ! فَطَفِئَتْ نَارُ الشَّيَاطِينِ وَهَزَمَهُمْ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ.

ابو خیثمہ زہیر بن حرب اور محمد بن مہران رازی نے مجھے حدیث بیان کی ۔ الفاظ رازی کے ہیں ۔ کہا : ہمیں ولید بن مسلم نے حدیث بیان کی ، انھوں نے کہا : ہمیں عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نے یحییٰ بن جابرقاضی حمص سے انھوں نے عبدالرحمٰن بن جبیر بن نفیر ہے ۔ انھوں نےاپنے والد جبیر بن نفیرسے اور انھوں نے حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ،

انھوں نے کہا : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا ۔ آپ نے اس ( کے ذکر کے دوران ) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی ۔ یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے۔ جب شام کو ہم آپ کے پاس ( دوبارہ ) آئے تو آپ نے ہم میں اس ( شدید تاثر ) کو بھانپ لیا۔

آپ نے ہم سے پوچھا تم لوگوں کو کیا ہواہے؟ ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول !صبح کے وقت آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں ( ایسا ) اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مجھے تم لوگوں ( حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر ( جہنم کی طرف بلانے والوں ) کا زیادہ خوف ہے،اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف ( اس کی تکذیب کے لیے ) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والاخود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ ( خود نگہبان ) ہوگا ۔

وہ گچھے دار بالوں والاایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے نور ہے ۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد العزیٰ بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔ وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے والا ہو گا اور بائیں طرف بھی ۔

اے اللہ کے بندو!تم ثابت قدم رہنا ۔ ہم نے عرض ۔ اللہ کے رسول !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے فرمایا : بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو ۔ وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ تو وہ آسمان ( کے بادل ) کو حکم دے گا ۔ وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی۔ شام کے اوقات میں ان کے جانور ( چراگاہوں سے ) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔

پھر ایک ( اور ) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں ( بھی ) دعوت دے گا ۔ وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے ۔ وہ انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے ۔ ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی ۔ وہ ( دجال ) بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس ( بنجر زمین ) کے خزانے اس طرح ( نکل کر ) اس کے پیچھےلگ جائیں گے جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بلائے گا اور اسے تلوار مار کر ( یکبارگی ) دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے والا ہدف ( یکدم ٹکڑے ہوگیا ) ہو ۔

پھر وہ اسے بلائے گا تو وہ ( زندہ ہوکر) دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا ۔ وہ ( دجال ) اسی عالم میں ہو گا جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہما السلام کو معبوث فرمادے گا ۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے ۔ جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی ۔

کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا ۔ اس کی سانس ( کی خوشبو ) وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی ۔ آپ علیہ السلام اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد ( Lyudia ) کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے ۔ پھر عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں اللہ نے اس ( دجال کےدام میں آنے ) سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے ۔ اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے ۔

وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے ( پیدا کیے ہوئے ) بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں ۔ آپ میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا ، وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے ۔ ان کے پہلے لوگ ( میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل ) بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو ( پانی ) ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے ۔ کبھی اس ( بحیرہ ) میں ( بھی ) پانی ہوگا ۔ اللہ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے ۔ حتیٰ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر ( قیمتی ) ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں ۔

اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان ( یاجوج ماجوج ) پر ان کی گردنوں میں کیڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح ( یکبارگی ) اس کا شکار ہوجائیں گے ۔ پھر اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اترکر ( میدانی ) زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو ۔

اس پرحضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی اللہ کے سامنے گڑگڑائیں گے تو اللہ تعالیٰ بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح ( کی گردنوں والے ) پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں اللہ چاہے گا جاپھینکیں گے ۔

پھر اللہ تعالیٰ ایسی بارش بھیجے گا جس سے کوئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا ( خیمہ ) اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا ۔ وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح ( صاف ) کر چھوڑےگی ۔ پھر زمین سے کہاجائے گا ۔ اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹا لاؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں ( اتنی ) برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا ۔

وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی ۔ اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ گدھوں کی طرح ( برسرعام ) آپس میں اختلاط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔

اہم بات یہ نہیں کہ ہم کو قیامت کے آنے کے سال کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ کس سال قیامت برپا ہوگی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ ہم سب مل کر اجتماعی طور پر کثرت سے استغفار کریں اور ان دعاؤں کا اہتمام کریں جورسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہیں اور اور ہر جمعہ کو سورہ کہف کا اہتمام کرے اور جتنا ہمارے بس میں ہو نیکی کا کام کرتے جائیں اور برائی سے خود بھی دور رہیں اور دوسروں کو بھی دور رکھیں تاکہ قیامت کے دن جب ہم اللہ کے حضور کھڑے ہوں تو یہ صدائیں ہماری منتظر ہوں ۔

اے اطمینان والی روح تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس حال میں کہ تو اس راضی اور وہ تجھ سے خوش بس شامل ہو جا میرے خاص بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں سورہ فجر 27 تا30۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں