مریم نواز کی گاڑی، نیب دفتر کے باہر، پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنوں‌ کے درمیان

مریم نوازکی سیاسی بقا کا سوال

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عمران زاہد :

پنجاب پولیس نے ( مریم نواز کی نیب پیشی کے موقع پر) جو کچھ کیا ، ایسا عموماً حکومت کو نقصان اور اپوزیشن کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ کوئی ذی ہوش حکومت مظاہرین کو تشدد سے کنٹرول نہیں کرتی۔ ہمیشہ مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے اور کسی مخصوص مقام تک جانے کی اجازت دے کر ، نعرہ بازی کر کے دلوں کی بھڑاس نکال کر، انہیں پرامن طریقے سے منتشر ہونے کا موقعہ دیا جاتا ہے۔

ٹکراؤ سے ہمیشہ حکومت نقصان اور اپوزیشن فائدہ اٹھاتی ہے۔ اب یہ احباب پہ چھوڑتے ہیں کہ وہ ان عناصر کا سراغ لگائیں جو ایسا چاہتے ہیں اور ان کا پولیس پر بھی کنٹرول ہے۔ یہ بھی تحقیق طلب معاملہ ہے کہ وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں۔

حکومتی ورژن بھی اہم ہے۔
شہباز گل کے ٹویٹس پڑھ لیں۔ وہ تصویریں شئیر کر کر کے ثابت کرتا رہا کہ بہت ہی کم لوگ مریم نواز کے لئے نکلے ہیں۔ ایسا ہونا قرین قیاس بھی ہے۔ کیونکہ شہبازشریف یا حمزہ شہباز کی عدالت یا نیب میں پیشی کے دوران بھی نون لیگ کے کارکن جمع ہوتے ہیں ۔۔ لیکن ہلکی پھلکی نعرہ بازی وغیرہ کر کے منتشر ہو جاتے ہیں۔ ایک دفعہ لاہور ہائیکورٹ میں جج کی موجودگی میں کارکنان نے نعرے لگائے تو جج صاحب کو سرزنش کرنی پڑی۔

اتنے کم لوگ تو بہت آسانی سے کنٹرول کئے جا سکتے ہیں۔ میرا گمان ہے کہ پولیس والوں کی تعداد مظاہرین سے زیادہ تھی۔ ایسی صورت میں شیلنگ، لاٹھی چارج اور پتھراؤ وغیرہ تو انتہائی اقدام ہیں۔ یا تو شہبازگل کے دعوے کے مطابق لوگ بہت کم نہیں تھے ۔۔۔ یا پولیس نے جان بوجھ کر حالات کو اس نہج پر پہنچایا۔ پھر وہی بات کہ ۔۔ کون ایسا ہے جو حکومت کو نقصان پہنچانا چاہتا تھا اور اپوزیشن کو فائدہ۔

ان واقعات سے بلاشبہ نون لیگ کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہے۔ حکومت کی کمزوری ظاہر ہوئی۔ ہر حکومتی ترجمان کا منہ لٹکا ہوا نظر آ رہا ہے۔ ان کے مقابل مریم نواز نے اپنے روئیے میں متانت ، وقار اور مضبوطی کا مظاہر کیا۔ مریم نواز نے ثابت کر دیا کہ صرف وہ اکیلی ہی میدان عمل میں نکل آئے تو حکومت ڈگمگانے لگے گی۔ پولیس کے غیرضروری اقدام نے کومے میں پڑے شیر کو خوامخواہ جگا دیا ہے۔
خیر ایک لحاظ سے تو اچھا ہی کیا۔

پولیس والے مریم نواز کو آنے دیتے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا ؟ کارکن نعرے لگا کر اپنا جوش نکالتے اور بکھر جاتے اور مریم نواز اپنی پیشی کے بعد چپ چاپ گھر واپس چلی جاتی۔ اللہ اللہ خیر صلا۔

پولیس کی غیر ضروری جارحیت کے بعد دوسری چیز جس نے مجھے حیران کیا وہ نیب کا پیشی کینسل کرنے کا اعلان تھا۔ اس کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ یہ نیب نے کمزوری کا اظہار کیا ہے۔ جب مریم نواز پہنچ ہی گئی تھی اور مطالبہ بھی کر رہی تھی تو بھیا کرلیتے انٹرویو۔ اس سے کیا فرق پڑنا تھا؟

مریم نواز کا یہ دعویٰ خاص طور پر قابل غور ہے کہ جس الزام پر مریم نواز کو کوٹ لکھپت میں اپنے والد سے ملاقات کے دوران گرفتار کیا گیا تھا اس کیس پر نہ کوئی کاروائی آگے بڑھی نہ کوئی چالان پیش ہوا اور نہ ہی ریفرنس دائر ہوا۔

یہی معاملہ صاف پانی کمپنی کے کیس میں گرفتار ہونے والوں کا ہے، یہی خواجہ سعد رفیق کے کیس کا ہے۔ اور یہی حال شاہد خاقان عباسی کے کیس کا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ نیب صرف میڈیا ٹرائل کرنے کے لئے الزامات گڑھتا ہے۔ اب تو سپریم کورٹ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ نیب کو سیاسی انجینرنگ کے ٹول کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

میڈیا کا کردار بھی اہم رہا۔ چاہے میڈیا نون لیگ کے کارکنوں کو جارح کے طور پر دکھاتا رہا۔ شاپرز میں پڑے مبینہ پتھروں کو دکھاتا رہا ۔۔ لیکن کیا اس سے نون لیگ کے کارکن کا حوصلہ کم ہوا یا بڑھا؟ کیا اس سے نون لیگ کا کارکن ڈیفنسیو ہوا یا مزید چارج ہوا؟ یقیناً میڈیا کی ایسی ” منفی “ رپورٹنگ سے نون لیگ کے کارکن کا حوصلہ بڑھا۔

اسے احساس ہوا کہ وہ ریاستی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور اہلیت رکھتا ہے۔ میڈیا کی ایسی غلطیاں بعض اوقات کارکنوں کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو جگانے کا باعث بن جایا کرتی ہیں۔ اس کے جگہ اگر میڈیا پٹتے ہوئے، روتے ہوئے، گڑگڑاتے ہوئے، معافیاں مانگتے ہوئے کارکنوں کی تصویریں دکھاتا تب نون لیگ کو نقصان ہوتا۔

یاد کیجیے لال مسجد کے واقعے کے دوران مولانا ۔۔۔ کو ٹی وی پر برقعے میں دکھایا گیا تھا جس سے ان کی شبیہ اتنی متاثر ہوئی تھی کہ آج تک بحال نہیں ہو سکی۔ میڈیا نے جو بھی جس بھی نیت سے دکھایا، اس کا نون لیگ کو بہت فائدہ ہوا۔

نون لیگ کے کسی کارکن نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ پولیس پر تشدد کیا ہے۔ یا کوئی اور غیر قانونی کام کیا ہے تو اسے قانون میں موجود ہر سزا ضرور ملنی چاہیئے اور امید ہے کوئی بھی اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ کسی بھی سیاسی کارکن کو کسی بھی قسم کی تحریک میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے ہر صورت میں بچنا چاہیئے۔

پولیس اور دوسرے سرکاری اہلکاروں سے ٹکراؤ سے تب تک بچنا چاہیئے جب تک وہ خود آپ کو کبڈی کھیلنے کی دعوت نہ دے دیں۔ دوسری طرف اگر کسی حکومتی اہلکار نے غیر قانونی کام کیا ہے جیسا کہ کیپٹن صفدر نے ایک درخواست تھانے میں لانچ کی ہے تو انہیں بھی قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے۔ میری زیادہ ہمدردیاں پولیس والوں کے ساتھ ہیں۔ ان کی تھوڑی سی مشقت سے اپوزیشن میں جان پڑ گئی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ مریم نواز غیبی طور پر ملنے والے اس تحرک کو برقرار رکھتی ہیں یا یہ محض ایک انفرادی واقعہ ہے اور اس کے بعد سب کچھ حسب معمول ہو جائے گا۔ تحرک برقرار رہے گا تو اس میں ہی ان کی سیاسی بقا ہے۔ ریاستی اداروں کے استبداد کا مقابلہ کرنے کا بھی یہی طریقہ ہے۔ حکومتی جبر کو بھی اسی طرح ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ ورنہ بھگتتے رہیں پیشیاں ۔۔ کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ ہیں جی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں