محمدعامرخاکوانی، کالم نگار،دانشور

مطالعے کی نئی جہت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد عامر خاکوانی :

کالم نگار کے طور پر مختلف ایشوز پر لکھنا پڑتا ہے، اپنے موضوعات میں تنوع پیدا کرنے کی پابندی خود ہی عائد کی تھی۔ اخبارات کا بہت پرانا قاری ہوں، ساتویں،آٹھویں جماعت سے کئی کالم روزانہ پڑھنے کی عادت پڑگئی۔ ان دنوں محسوس کیا کہ بعض کالم نگار اچھا لکھنے کے باوجود اپنے مخصوص موضوع میں مقید ہوجاتے ہیں۔

ایک جیسے ایشوز پر بار بار لکھنے سے یکسانیت آجاتی ہے۔ بہت بار قاری کو پڑھنے سے پہلے ہی اندازہ ہوتاہے کہ آج کیا لکھا ہوگا۔ یہ تاثر لکھاری کے لئے بہت برا ہے۔ بڑے عمدہ اسلوب میں لکھنے والے سٹائلسٹ کالم نگار بھی اس کا شکارہیں۔

حل ایک ہی ہے کہ موضوعات میں تنوع پیدا کیا جائے اور کبھی ان دیکھی زمینوں کی طرف نکل جائیں۔ نسخہ بتانے میں جتنا آسان ہے، عمل اتنا ہی مشکل۔ مثال کے طور پر اہم نئی کتابوں پر لکھنا چاہیے،اس کے لئے مگر خاصا وقت مطالعہ پر صرف کرنا پڑتا ہے۔ بہت بار کوئی کتاب مشہور ہونے کے باوجود کالم کی حقدار نہیں ٹھیرتی۔ بک ریویو اور کسی اہم قابل ذکر کتاب پر کالم میں بڑا فرق ہے۔

اسی طرح کرنٹ افیئرز پر لکھنا بیشتر کالم نگاروں کو مرغوب ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سیاست اور سیاسی پیش رفت پر ہر ایک کی کچھ نہ کچھ رائے ضرور ہے۔ اسے بیان کرنے میں دقت نہیں ہوتی ، جبکہ ہمارے جیسے سیاسی عصبیت والے سماج میں ہر سیاسی رائے کو چھوٹا بڑا عوامی حلقہ میسر آ ہی جاتا ہے۔ کچھ واہ واہ، تحسین والے جملے لکھنے والے تک پہنچ جاتے ہیں،

سوشل میڈیا پر کالم لگانے کے بعد لائیکس ، کمنٹس، شیئرنگ بھی ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے میں خواہشات پر مبنی سوچ(Wishful Thinking) غالب آجاتی ہے۔ بہت بار ایسے تجزیے غلط نکل آتے ہیں، پیش گوئیاں باﺅنس ہوجاتی ہیں،حکومت کے خاتمے کے لئے دی گئی ڈیڈ لائن جھوٹی نکلتی ہے۔

صحافت کے میگا سٹارز کے ساتھ پچھلے چند برسوں میں بار بار ایسا ہوتا دیکھا۔ زرداری صاحب کے دور حکومت میں ہر چند ماہ کے بعد ان کے اقتدار کے خاتمے کی ڈیڈلائن دی جاتی تھی۔ ایک سے زائد بار دسمبر کو قاتل مہینہ کہا گیا، ایک معروف اینکر نے تو دسمبر کے آنے اور حکومت جانے کی نوید سناتے ہوئے اپنے پروگرام کی پوری سیریز کر ڈالی۔ تمام خبریں، افواہیں غلط نکلیں۔ پیپلزپارٹی اپنی مدت مکمل کرکے ہی رخصت ہوئی۔

پچھلے دو برسوں میں عمران خان کی حکومت کے حوالے سے بھی یہی ہوا۔ عمران خان مخالف عناصر سیاست میں بہت ہیں اور میڈیا میں بھی کم نہیں ۔ عمران خان کے حامی اور مخالف دونوں طرح کے حلقے اپنی آرا میں شدت پسندی کا شکار ہیں۔ سیاست میں تو چلو پھر بھی اس سے گزارا ہوجائے گا، صحافت میں ایسی انتہا پر جانے سے نقصان ہوتا ہے۔ اس سے بڑا نقصان اور کیا ہوگا کہ کسی تجزیہ کار کو پڑھنے یا اس کی بات سننے والے مشکوک ہوجائیں، اس کی بات کو قابل اعتماد نہ سمجھیں۔

پچھلے سال اکتوبر میں مولانا فضل الرحمن نے اپنا آزادی مارچ کا اعلان کیا ، اسلام آباد میں دھرنا کیا تو عمران مخالف میڈیا ئی کیمپ کی دل کی کلی کھل اٹھی۔ کئی نامور لوگوں نے ڈھکی چھپی، اعلانیہ پیش گوئیاں کیں، حکومت کے جانے کی خبریں سنائیں۔ یہ ان کی دلی خواہش تھی ، ورنہ بادی النظر ہی میں مولانا کا مارچ اور دھرنا غلط لگ رہا تھا۔ اس کی ٹائمنگ درست تھی نہ ہی اپوزیشن کی جانب سے اس کی سپورٹ کے امکانات تھے جبکہ مقتدر قوتوں کی جانب سے بھی گرین سگنل نہیں تھا۔

میرے جیسے عام اخبار نویس کو بھی سمجھ آ رہی تھی کہ دھرنا ناکام ہوگااور مولانا کے دامن میں رسوائی کے سوا کچھ اور نہیں بچے گا، الٹا ان کی سیاسی فراست کے جو جھوٹے سچے قصے مشہور ہیں، وہ غلط ثابت ہوجائیں گے۔ ایسا ہی ہوا۔ مولانا نے پلان بی، سی کا اعلان کیا۔ آج دس ماہ گزر گئے، کہاں ہیں مولانا فضل الرحمن کے پلان ؟

بات مختلف موضوعات پر لکھنے کی ہو رہی تھی، انٹرنیشنل افیئرز پر لکھنا ازحد مشکل کام ہے۔ صرف افغانستان میں دلچسپی لینا شروع کریں، اسے مانیٹر کریں تو عالمی پریس سے روزانہ درجنوں سٹوریز، کالم پڑھنے پڑتے ہیں، طالبان کی ان سائیڈ خبروں کے لئے دیگر ذرائع سے رجوع کرنا پڑے گا۔

بھارت، ایران ، ترکی ، امریکہ چین کشمکش …. یہ سب ایسے موضوعات ہیں جو مستقل مطالعہ کے متقاضی ہیں۔ آپ انہیں تواتر کے ساتھ فالو کر رہے ہیں، تب چیزیں سمجھ میں آتی ہیں، چند دنوں کے لئے چھوڑ دیا تو بعض کڑیاں غائب ہوجاتی ہیں۔ اوپر سے کئی بڑے اخبارات اور جرائد اپنا آرٹیکل مکمل پڑھنے کے لئے سبسکرپشن مانگتے ہیں۔ ڈالر خرچ کئے بغیر اکانومسٹ ، ٹائم میگزین وغیرہ پڑھے نہیں جا سکتے۔

ہمارے ہاں سابق سفارت کار،سابق سیکرٹری خارجہ وغیرہ بھی کالم لکھتے ہیں، بیشتر نے انگریزی کو ذریعہ ابلاغ بنایا۔ انہیں دل سے داد دینے کو جی چاہتا ہے، کسی بھی ایشوپر طویل کالم لکھ ماریں گے، مگر ایسی مہارت کے ساتھ کہ اس میں کوئی تجزیہ ملے گا نہ خبراور نہ ہی وہ ایشو سمجھ آئے گا۔ نجانے یہ ”فن“ کہاں سے سیکھا؟ پڑھنے والا اپنی کم علمی پر ماتم کرتا ہے۔ شرمندگی کے ڈر سے شکوہ بھی نہیں کرتا کہ قصور اپنا نہ نکل آئے۔

ہمارے لئے آسانی یہ ہوئی کہ ایک معروف فیس بکی بلاگر دوست نے اپنی وال پر ایسی کئی ایکسکلیوسو سٹوریز شیئر کرنا شروع کر دی ہیں۔ ہمارے یہ دوست وسی بابا کے نام سے بلاگ لکھتے ہیں، کچھ عرصہ روزنامہ 92 نیوز میں بھی کالم لکھا، پھر تلّون مزاجی کسی اور طرف لے گئی۔

اب معلوم نہیں کسی کی بد دعا لگی یا ویسے ہی دل میں خیال آیا کہ موصوف نے روزانہ کئی عالمی اخبارات کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا، اہم جرائد کی سبسکرپشن کرالی ، ان کی سٹوریز کو پڑھنا اور اپنی وال پر شیئر کرنا شروع کر دیا۔ روزانہ بلامبالغہ ڈیڑھ دو درجن سٹوریز وہ مع لنک شیئر کرتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہم جیسے جو کچھ ریلیکس ہوگئے تھے، انہیں پھر سے فارن پریس کو دیکھنے اور اہم بین الاقوامی ایشوز کو پڑھنے، سمجھنے میں دلچسپی پیدا ہوئی۔آج کل زور شور سے ان ایشوز کو دیکھنا شروع کیا ہے۔

ایسا نہیں کہ انٹرنیشنل میڈیا سے اردو اخبارات میں خبریں شائع نہیں ہوتیں۔ بہت کچھ آتا ہے، مگر خاصا کچھ نہیں بھی آتا، کچھ ایشوز کی مقامی سطح پر زیادہ طلب نہیں تو اخبارات بھی سرسری سا گزر جاتے ہیں۔ان مختلف نوعیت کی خبروں کو اکٹھا کر کے تجزیہ کرنے کی بڑی ضرورت ہے۔

یہ ایک سمندر ہے،اس میں غوطہ خوری افراد نہیں ، اداروں کا کام ہے۔ یہ کام ماہرین کے کرنے کا ہے، انہیں زیب دیتا ہے۔ اپنی سطح پر ہم نے یہ سوچا ہے کہ گاہے گاہے ان موضوعات کو بھی چھو لیا کریں گے۔ ہمارے مطالعے کی نئی جہت ہمارے قاری کو بھی بھگتنا پڑے گی۔ یہ کالم تمہید سمجھئے، خدا خیر رکھے،ان شااللہ کل خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال پر لکھیں گے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں