پرانا استنبول، ترکی کا خوبصورت منظر

میری ہد ہد نے پر کھولے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دعا عظیمی:
عظیم ترک مصنف اورہان پاموک کے ان لفظوں میں کتنی توانائی اور روشنی بھری تھی:
’’تمام زندگی اس قدر بدتر نہیں ہوسکتی، کیوں کہ جیسے بھی حالات ہوں میں باسفورس کے کنارے ایک لمبی واک پر ہمیشہ نکل سکتا ہوں۔‘‘

آبنائے باسفورس، میرے دل سے ایک ہوک نکلی کاش میں تمہیں دیکھ سکتی! دو براعظموں کے سنگم پر واقع ترکی کے حسین شہر استنبول کو دیکھنا میرے خوابوں کی زنبیل میں عرصے سے پڑا تھا۔
ایک بھولا ہوا شعر یاد آیا
زندگی تیری ضرورت نے مجھے مار دیا
میں کہاں آن بسا اور مرے خواب کہاں

ڈبنگ کیے گئے ترک ڈراموں کودیکھنے سے بہت پہلے یہ خواہش میرے من میں گھونسلا بنا کر بیٹھ گئی تھی. جب مجھے معلوم ہوا کہ مزار میزبان حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں ہے تو تب ہی اس سے ایک تعلق بن گیا تھا۔ بہت پہلے کیونکہ مجھے ایک روایتی مسلمان کی طرح میزبانی سے محبت رہی ہے گو طبعاً میزبان ہونا ایک عنایت خاص ہے خصوصاً اس میں خدمت کا جو جوہر ہے اس نے مجھے ہمیشہ مسحور کیا۔ میزبانی کی بات ہو تو ایک مسلم ہونے کے ناتے میں ایک صحابی کی میزبانی کو کیسے بھول سکتی تھی!

سب ہی صحابہ کرام، تبع تابعین، آئمہ کرام خوش نصیب ہستیاں ہیں.مگر صحابہ کرام تو ایسے ہیں جیسے منور اور تاباں چاند کے گرد ستاروں کا جلو،تاریخ کے صفحہ آسمان پر دمکتے ہوئےاور ہمارے دلوں میں جلوہ فروز۔
کہیں صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ کی گود اور غار ثور کا منظر روشن ہے تو کہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا آپ کے بستر پہ سو جانا ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی حفاظت کو اپنی جانوں پہ مقدم ٹھہرانا سبحان اللہ ۔ایک ایک واقعہ یاداشت میں محفوظ ہے لفظوں کی ہد ہد کے ذریعے جب حضرت ابوبکر کی بیٹی حضرت اسماء رض دشمنوں کی موجودگی میں آپ کے لیے غار میں کھانا پہنچاتی رہیں.

محبت اور جان نثاری کے یہ واقعات تسلسل کی صورت میں تاریخ کے دل میں اور اوراق پر محفوظ ہیں۔
پھر وہ لمحہ جب سارے انصار آنکھیں فرش راہ کیے دھڑکتے دلوں سے دیکھ رہے تھے کہ آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کس گھر کے دروازے پہ رکے گی اور میزبانی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز کسے حاصل ہو گا، اور چشم.فلک نے دیکھا کہ قرعہ فال حضرت ابو ایوب انصاری کے نام کا نکلا ۔

سوچتی ہوں یہ انعام، یہ اعزاز پا کے آپ کے صحابی کا دل کیسے لرزا ہو گا، فرط مسرت سے سرشار اور ادب سے کتنا معطر ہوا ہو گا۔ یہ شان کسی اور کے ہاتھ نہیں آئی، آپ جلیل القدر صحابی کو یہ افتخار حاصل ہوا اور پھر سات ماہ تک آپ کو یہ شرف حاصل رہا۔

اس دوران پہلے یہ طے پایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نیچے کی منزل میں تشریف فرما رہیں گے تاکہ باقی مسلمانوں کے ساتھ میل ملاپ میں آسانی رہے۔ اس دوران ایک روز گھڑے کا ٹوٹ جانا اور پانی کا گر جانا اور حضرت ابو ایوب انصاری اور ان کی زوجہ مبارکہ نے اکلوتے کمبل سے پانی جذب کیا مبادا کوئی قطرہ نچلی منزل پر قیام فرما دو جہان کے سردار کے آرام میں مخل نہ ہو۔

ایسے ہی اوپر چلتے ہوئے اس جان لیوا احساس سے تر بہ تر رہنا کہ آپ حضور نیچے قیام پزیر ہیں اور وہ دونوں اوپر والی منزل میں تو کہیں یہ شان نبی میں گستاخی نہ ہو۔ بعد میں حال دل عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اوپر والی منزل میں قیام فرمانا۔

میرے دل میں ہر مسلمان کی طرح حضرت ابو ایوب انصاری سے اس قدر محبت بھری تھی مجھے علم نہ تھا.مگر اچانک ہوک اٹھتی کہ ان کے مزار پہ حاضری دی جائے.کچھ انکشافات ان کے مزار مبارک کے متعلق پیش خدمت ہیں:

757ہجری میں قسطنطنیہ کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح نے صحابہ کرام کی قبروں کو دریافت کرنے کا عمل شروع کیا۔اس وقت کے جید روحانی بزرگ شیخ شمس الدین نے ایک جگہ کی نشاندہی کی۔ تاریخی روایات میں ہے کہ آپ نے اس جگہ نور دیکھا۔ دو ہاتھ گہری زمین کھو دی گئی تو ایک پتھر بر آمد ہوا جس پر عبرانی خط میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا نام لکھا تھا۔ یہ پتھر اب بھی حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کی قبر کے باہر ایک دیوار میں لگا ہوا ہے۔

سلطان محمد فاتح نے اس جگہ جہاں سے یہ پتھر برآمد ہوا وہاں قبر پر ایک تابوت رکھوا دیا جس پر چاندی منڈھی ہوئی تھی اور ایک عمارت بھی تعمیر کروائی ۔ مزار کے ساتھ ایک جامع مسجد اور مدرسہ بھی بنوا دیا۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کے تین حصے ہیں۔ جامع ایوب، مزار ایوب اور قبرستان ایوب۔ جامع ایوب کے ایک کمرے میں سبز چادر میں لپٹا ہوا ایک علم بھی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ وہ تاریخی علم ہے جسے حضرت ابو ایوب انصاری ؓ غزوات اور جنگوں میں اٹھایا کرتے تھے۔

سلاطین عثمانیہ کی تاج پوشی کے موقع پر ہر سلطان یہاں آیا کرتا تھا اور شیخ الاسلام اس کی کمر پر سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان خان کی تلوار حمائل کیا کرتا تھا۔ سلطان محمد فاتح کی کمر پر بھی شیخ الاسلام شمس الدین نے یہ تلوار آویزاں کی۔

ہم مسلمان جڑے ہوئے لوگ ہیں. ہماری سب سے بڑی دولت ہماری تاریخ ہے. مگر ایسا تو نہیں کہ تاریخ ہمارے پاؤں پکڑ لیتی ہے ہمیں جکڑ لیتی ہے. ہمیں آگے کو بھی دیکھنا ہے اور دائیں اور بائیں بھی۔

مگر مجھے بس اتنا بتانا مقصود تھا کہ میرا تعلق گنبد سے بھی ہے، مینار سے بھی ،مزار سے بھی اور اگر میں چلتی رہوں تو سب کچھ پیچھے رہ جائے گا۔ نشیب، فراز، گھاٹیاں، صحرا، دریا، شہر، سرمئی حسرتیں، سبز
خواہشیں ، مگرجاگتی رہے گی ان سب کے بیچ میری زنبیل میں دھری ترکی کے دارالخلافہ استنبول اور اس سے جڑی نیلی مسجد،

یہاں کی پہاڑیاں، پل ، حضرت ابو ایوب انصاری کا مزار اس کے احاطے میں رکھی تبرکات، ان سب کو دیکھنے کی دیرینہ خواہش مگر خواہش تو زندہ لوگوں کی ہوتی ہے۔ تب ہی جگنو کی طرح پاموک کے الفاظ میری بصارتوں میں جگمگائے
’’تمام زندگی اس قدر بدتر نہیں ہوسکتی، کیوں کہ جیسے بھی حالات ہوں میں باسفورس کے کنارے ایک لمبی واک پر ہمیشہ نکل سکتا ہوں۔‘‘

لفظوں کو لکھتےسمے،برتتےوقت لاشعور جو توانائی ان میں بھرتا ہےوہی اس کی زندگی کا راستہ متعین کرتی ہے۔اور میں سمجھتی ہوں اس جملے میں عظیم ناول نگار نے ناممکنات کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس حوصلے کو آواز دی ہے جس کے بل بوتے پر برے حالات میں بھی ہمت کے ساتھ فطرت کے کنارےچلتے رہنے اور سعی مسلسل کا اعلان کیا ہے۔

میرے شہر واسیو!
اگر تمہیں اس حسین شہر کی سیر کا شرف حاصل ہو تو اسے میری آنکھ سے دیکھنا اور حسن کو خراج پیش کرنا، تہذیبوں کا امتزاج دیکھنا ، سات پہاڑیوں پہ بنی مسجدوں کے اس شہر کی زیارت کرنا، نیلی مسجد کی نیلاہٹ کو دل میں بھر لانا، تبرکات کو آنکھوں سے چومنا اور آبنائے باسفورس کے کنارے پاموک کی طرح طویل سیر کو نکلنا اورسب سے بڑھ کے میزبان رسول صعلم کے مزار پہ حاضری دینا اور انہیں سلام پیش کرنا ۔ اور دعائیہ کلمات عرض کرنا اور احسان اور میزبانی کو سمیٹ کر اپنے شہر لوٹ آنا ….!!!

میرے پاس لفظ کی ہد ہد ہے جو سارے جہانوں کے احوال بتاتی ہے، ملکہ سبا کے تخت کی کہانی، سلطنتوں کے عروج وزوال کی داستانیں، دریا کنارے بسنے والی تہذیبوں اور رہ جانے والے انمول ورثے، شہروں اور ان میں بسنے والے لوگوں کی زندگیوں سے جڑی کہانیاں۔ میری ہد ہد نے پر سمیٹے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “میری ہد ہد نے پر کھولے”

  1. یوسف خالد Avatar
    یوسف خالد

    احساسِ محبت سے لبریز خوبصورت تحریر -دعا عظیمی نے عمدہ اسلوب میں نبی آخرالزمان اور صحابہ کرام کا ذکر کیا ہے – ایسی تحریر سچی وابستگی کے بغیر ممکن نہیں –