امریکا

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

یاسر ریاض۔۔۔۔۔
غالب تہذیب نہ صرف یہ کہ ہمارے سوچنے سمجھنے کا انداز بدلتی ہے، بلکہ درست اور غلط، حق اور ناحق کا معیار بھی بدل دیتی ہے۔ درست اور غلط کی جانچ کے لئے اپنی ہی تہذیبی افکار کی بنیاد پر ایک سانچہ بناتی ہے اور آپ کو اس سانچے میں رہتے ہوئے فیصلے کا اختیار دیتی ہے۔

چنانچہ آپ لاکھ یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ میری ریشنل اپروچ ہے، میں غیر منطقی جائزے سے ان نتیجے پر پہنچا ہوں، آپ غالب تہذیب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ کیونکہ اس "غیر منطقی جائزے” کا طریق کار غالب تہذیب کا طے کردہ ہوتا ہے۔ جب تک درست اور غلط کا معیار ہم اپنی تہذیبی افکار کے مطابق طے نہیں کرتے، ہم نہ چاہتے ہوئے بھی وہی بات کہہ رہے ہوں گے جو غالب تہذیب ہم سے کہلوانا چاہتی ہے۔

تہذیب اور تہذیبی یلغار کو سمجھنے کے لئے پہلے اس امر کی تفہیم ضروری ہے کہ ہم تہذیب سے کیا مراد لے رہے ہیں۔ تہذیب کا ایک مفہوم تو نسبتاً عامیانہ ہے، جس میں تہذیب کو گنوار پن کے متضاد کے طور پر لیتے ہیں۔ تہذیبی تصادم کے تناظر میں ہم یقیناً اس انداز میں بات نہیں کر رہے ہوتے۔

تہذیب کی تعریف اگر سیدابوالاعلی مودودی کے الفاظ میں کی جائے تو یہ دراصل پانچ تصورات کا مجموعہ ہے۔ آپ کی زندگی کا نصب العین کیا ہے، آپ کی نظر میں زندگی کا تصور کیا ہے، آپ کے عقائد و افکار کی بنیاد کیا ہےاور آپ افراد کی تربیت کرنے اور نظم اجتماعی چلانے کے لئے کن افکار کو بنیاد بناتے ہیں۔

یہی پانچ تصورات کسی تہذیب کی بنیاد رکھتے ہیں۔ تہذیب کے مظاہر کے طور پر ثقافت اور تمدن ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جہاں ثقافت اور تمدن کی جڑیں تہزیب کی مٹی میں جگہ بنائے ہوتی ہیں وہیں بہت سے بیرونی عناصرمثلاجغرافیہ، تاریخ، معیشت حتی کہ آب وہوا بھی ثقافت کے پودے لئے روشنی اور آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔

اب اسلام چونکہ عالمگیر اور زمان و مکان کی حدود سے ماورا دین ہے، لہذا اس کو کسی ایک علاقائی ثقافت سے باندھ دینا زیادتی ہے۔ اسلام اپنی تہذیبی بنیادوں پر تو بالکل بھی سمجھوتا نہیں کرتا لیکن کسی علاقائی ثقافت سے اسی قدر تعرض کرتا ہے جہاں اس کی بنیاد اسلامی تصورات سے ٹکرا رہی ہو۔

تہذیبیں ایک دوسرے سے نبرد آزما بھی ہوتی ہیں، ایک دوسرے سے سیکھتی بھی ہیں اور کمزور تہذیبیں طاقتور تہذیبوں میں ضم بھی ہو جاتی ہیں۔ تہذیبی تصادم میں مادی وسائل کی اہمیت کم اور تہذیبی بنیادوں پر پرورش پانے والے انفرادی او اجتماعی اخلاق کی فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔

مسلمانوں نے جب اپنی تہذیبی اقدار سے منہ موڑا اور عالمگیر قیادت کی جگہ خالی چھوڑی، تو اسے مغرب نے پُر کیا۔ مغربی کی جاندار تہذیب جہاں بہت سی تہذیبوں اور ثقافتوں کو نگل گئی، وہیں اسے اسلامی تہذیب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

اسلامی تہذیب اپنی تمام تر کمزوریوں کے باعث اتنا پوٹینشل رکھتی ہے کہ مغرب کو چیلنج کر سکے۔ چنانچہ وہ اقبال کے الفاظ میں "ابلیس کی مجلس شوری” ہو یا ہنگٹنگٹن کی "تہذیبوں کا تصادم”، اسلامی تہذیب ہی ممکنہ حریف کے طور پر سامنے آئی۔ لہذا یہ کشمکش جاری و ساری ہے اور رہے گی۔

رہی بات مغرب کی تو ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ مغرب مکمل خیر ہے یا مکمل شر؟ اس سوال کا جواب ہمیں دو انتہائوں پر ملتا ہے۔ مغرب سے متاثرین کی نظر میں وہاں سے آنے والی ہر فکر تنقید سے ماورا ہے، دوسری طرف یہ انتہا ہے کہ مغرب سے ہلکی سی مماثلت، چاہے وہ لباس پہننے یا موبائل استعمال کرنے کے بارے میں ہو رد کیے جانے کے قابل ہے۔

جس طرح پہلے عرض کیا کہ اسلام انہی امور سے تعرض کرتا ہے جو اسلامی فکر سے متصادم ہوں، تو مغرب سے معاملہ کرتے وقت یہ ضروری ہے کہ خوشہ چینی اس انداز میں کی جائے کہ اپنی تہذیب کے رنگ میں رنگے پھولوں کو چن لیا جائے اور باقی سب کو چاہے اس میں جیسا بھی گلیمر ہو، رد کر دیا جائے۔

یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم مغرب سے بلاوجہ متاثر بھی نہ ہوں، اپنی بنیادوں پر شرمندہ بھی نہ ہوں اور اپنی اور مغربی تہذیبی بنیادوں کو اچھی طرح سے سمجھتے بھی ہوں۔ چنانچہ علم و تحقیق سے محبت یا قانون کی پاسداری کی بات ہو تو مغرب سے سیکھنے میں کچھ بھی حرج نہیں۔۔۔ لیکن تصور جہاد کی نفی ہو یا اجتماعی معاملات میں اسلامی اخلاقیات سے گریز کی بات ہو مغرب نہیں اسلام ہمارے لئے مشعل راہ ہو گا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی”

  1. احمد خلیل Avatar
    احمد خلیل

    بہت خوب، یاسر بھائی.
    بہت اچھی کاوش ہے.