نیویارک شہر، بازار

نیویارک سٹی کے بارے میں چند باتیں جو آپ ہرگز نہیں جانتے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار :

’’ایک تھا لڑکا نُور نذیر

اک دن اُس کا جی للچایا
گاؤں سے چل کر شہر کو آیا

شہر میں آ کر اُس نے دیکھا

وہاں کا پیسہ گاؤں جیسا
وہاں کا کَھمبا ویسا ہی لمبا
وہاں کی روٹی ویسی ہی چھوٹی
وہاں کا ڈھول ویسا ہی گول
وہاں کی بلّی ویسی ہی کالی
موٹی موٹی آنکھوں والی
ویسے پودے ویسے پیڑ
ویسی بکری ویسی بھیڑ
دل میں سوچا اور پچھتایا
دوڑا دوڑا گھر کو آیا
(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

صوفی غلام مصطفی تبسم تو کیا خوب فرما گئے ہیں، آج ہم آپ کو نور نذیر کی نہیں بلکہ مدثر محمود کی گائوں سے شہر جانے کی داستان سنانے چلے ہیں۔

گائوں میں رہنے والے کے اندر گائوں ہی رچ بس جاتا ہے۔ میں صرف دو سال گائوں میں رہا مگر گائوں ایسا بھایا کہ اب امریکا میں بھی نیویارک جیسے روشنیوں کے شہر کے بجائے نیویارک سے دور ایک چھوٹا سا گائوں نما شہر ہی عارضی منزل ٹھہرا۔ سن ستانوے اور اٹھانوے میں اوکاڑہ کینٹ میں رہنے کا موقع ملا۔

کینٹ کی یادیں کم ہیں اور چند سفر جو اوکاڑہ سے ساہیوال سائیکل پر جاتے ہوئے کیے اور اوکاڑہ کینٹ سے اوکاڑہ شہر جاتے ہوئے راستے میں دیہاتوں کامنظر آج تک ذہن پر نقش ہے۔ ویسے گوگل کرکے دیکھیں، اوکاڑہ سے ساہیوال کتنا دور ہے اور اندازہ لگائیں ہمارے شوق کا کہ سائیکل پر اتنا لمبا سفر کیا کرتے تھے۔

گائوں نامہ کی تفصیلات اگلے کسی مضمون میں سہی ، ابھی آپ کو کنگسٹن سے نیویارک کے سفر کا منظر دکھاتا ہوں۔ کنگسٹن کہنے کو شہر ہے مگر ہم اسے سندھ کی گوٹھ کہتے ہیں۔ جہاں دیسی تازہ انڈے، تازہ سبزی کھیت سے، تازہ پھل آنکھوں کے سامنے باغات سے ملے اسے شہر کون کہتا ہے۔

کنگسٹن سے نیویارک سٹی جانے کے لیے مابدولت عموماً صبح سویرے نکلتے ہیں۔ جاتے وقت ہمیشہ گھر سے بس سٹیشن تک ٹیکسی کا انتظام کرلیتا ہوں۔ آج کچھ جلدی نہیں تھی تو پہلے ایک پرانے زمانے کی کافی شاپ میں تشریف فرما ہوئے۔ کافی کا کپ اور ایک عدد سکون خریدا۔ سکون ایک بسکٹ نما کیک ہے، اس میں میٹھا کم ہوتا ہے اس لیے مناسب رہتا ہے۔ بہرحال وہاں سے نکل کر بس سٹیشن پہنچا۔ پیدل گھر سے چالیس منٹ کا فاصلہ ہوگا۔

ریٹرن ٹکٹ خریدی، کنگسٹن سے نیویارک ریٹرن ٹکٹ ساٹھ ڈالرز کی۔ یہاں ٹکٹ خرید کر اگر سفر نہیں کیا تو ٹکٹ ایک سال تک قابلِ استعمال ہے۔ حتی کہ جاتے ہوئے بس پہ جانا اور واپسی کا ٹکٹ استعمال نہ کرنے سے بھی مسئلہ نہیں ، ٹکٹ ایک سال کے لیے قابلِ استعمال ہے۔

بسیں دوسرے شہروں سے آتی ہیں مثلاً البنی یا فونیشیا سے بس آتی ہے اور ہمیں کنگسٹن سے وصول کرکے آگے نیویارک جاتی ہے۔ بس اپنے وقت پر آتی ہے۔ بس آئی تو پہلے اترنے والے اترے پھر چھوٹی سی لائن بنی، ڈرائیور ٹکٹ کا ایک حصہ خود رکھتا اور باقی ٹکٹ مسافر کو دے کر بس میں جانے دیتا ہے۔ بس کی سیٹس مختص نہیں ہیں۔ جس نے جہاں بیٹھنا ہے بیٹھ سکتا ہے ، البتہ آخری چند مسافروں کے لیے جو سیٹ بچ گئی اسی پہ بیٹھنا مجبوری ہے۔

گاڑی آرام دہ ہوتی ہے بہترین کھلی سیٹیں، ہر سیٹ کے لیے الگ لائٹ تاکہ باقی لوگوں کو لائٹ سے پریشانی نہ ہو۔ ہر سیٹ کے ساتھ موبائل چارجنگ کی جگہ بھی بنی ہوتی ہے۔ گاڑی میں اونچی آواز میں موبائل پہ گانے یا مووی چلانا منع ہے، کال کرنا بھی منع ہے۔ ضروری کال ہے تو ڈرائیور کو بتاکر اٹینڈ کرسکتے ہیں مگر زیادہ لمبی بات کرکے دیگر مسافروں کو تنگ کرنے کی اجازت نہیں۔

چلتی گاڑی میں کھڑا ہونا منع ہے الا یہ کہ ٹوائلٹ کی حاجت ہو تو۔ کنگسٹن سے اگلا چھوٹا سا قصبہ نیوپلز آتا ہے جہاں نیویارک کی مرکزی یونیورسٹی کا کیمپس ہے۔ وہاں سے عموماً ویک اینڈ پہ طلباء و طالبات نیویارک سٹی جانے کے لیے سوار ہوتے ہیں۔

نیویارک جانے والی مرکزی شاہراہ کا نام روٹ ستاسی ہے، اس شاہراہ کے اطراف میں درخت، پہاڑ اور کہیں کہیں آبادی ہے، نیویارک کے قریب پہنچیں تو بکثرت کاروں کے شوروم شاہراہ کے ساتھ ساتھ کئی میل تک ہیں۔ مہنگی ترین کاروں لیمبرگینی، پورشے، آڈی وغیرہ کے نئے ماڈل چلتی بس سے صاف دکھائی دیتے ہیں۔

جیسے جیسے آگے بڑھیں تو بلندو بالا رہائشی اور دفتری عمارتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ ویسے تو برازیل میں سب سے زیادہ بلند و بالا عمارتیں ہیں مگر نیویارک سٹی بھی اس حوالے سے کم مشہور نہیں۔

شہر میں داخل ہوں تو کئی راستے ہیں اور بڑے بڑے پلوں اور سرنگوں سے گزرتے ہوئے بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ نیویارک سٹی ہے بلکہ کسی عام سے سستے سے شہر کا گمان ہوتا ہے، اس کی وجہ پلوں کے آس پاس ورکشاپس، گندی مندی ٹوٹی پھوٹی عمارتیں، گھٹن والی شکستہ چھتوں والی سرنگیں وغیرہ ہیں۔

بے ہنگم ٹریفک دیکھ کر لگتا نہیں کہ یہاں کوئی مہذب قوم رہتی ہے۔ نیویارک میں ڈرائیونگ باہر سے آنے والے کے لیے بہت مشکل ہوتی ہے۔ یہاں کے رہنے والے بار بار اشارہ دئیے بغیر تیزی سے ایک دوسرے کو کراس کرتے اور مجھ جیسے باہر سے آنے والے کو تو ڈرائیونگ کرنا عذاب ہوجاتا ہے۔

بس کا سٹیشن پورٹ اتھارٹی کہلاتا ہے۔ یہ چھے منزلہ وسیع و عریض سٹیشن اپنی ذات میں ایک عجوبہ ہے۔ ترتیب سے بسوں کا اپنے اپنے نامزد گیٹ پر آنا اور جانا اور اسی سٹیشن سے سینکڑوں چھوٹے بڑے شہروں کے لیے ہر وقت بس ملنا اور مسافر خانے ، سب کچھ حیران کردیتا ہے۔

پورٹ اتھارٹی بس سٹیشن نیویارک کی گلی نمبر بیالس میں واقع ہے اس لیے اسے فقط بیالس نمبر گلی بھی پکارتے ہیں۔ اس سے کچھ فاصلے پر پین اسٹیشن ہے جہاں سے ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ بس سٹیشن سے باہر نکلنے کے کئی راستے ہیں، نیز زیرزمین ریلوے کا نظام بھی اس بس سٹیشن سے منسلک ہے۔

بس سٹیشن سے باہر نکلیں تو ایک طرف ٹیکسی کی لائن ہوتی ہے، ٹیکسی آگے آتی اور بغیر مول تول مسافر کو ٹیکسی میں بیٹھنا پڑتا ہے، اگر ٹیکسی نہیں لینی تو زیرزمین ریل کی سہولت ہے۔ ٹیکسی میں میٹر لگاہوتا ہے اس لیے مسافر لائن میں آگے بڑھتے جاتے ہیں اور جو ٹیکسی بھی نصیب میں ہو اس میں سوار ہوجاتے

ہیں۔
بس سٹیشن کے آس پاس ہی ریڑھی اور چھوٹے سٹال لگے ہوتے ہیں جہاں کافی، ناشتہ اور لنچ مل جاتا ہے۔ حلال کارٹ کے نام سے عربیوں یا پاکستانیوں کی ریڑھی بھی عام مل جاتی ہے جہاں سات آٹھ ڈالر میں پیٹ پوجا کا انتظام ہوتا ہے۔

کہیں کہیں پک اپ ٹرک یا وین میں موبائل ریسٹورنٹ مل جائے گا۔ حلال فوڈ کارٹ والے اپنی لوکیشن اپ ڈیٹ کرتے رہتے ہیں تو آپ گوگل پہ چیک کرسکتے ہیں کہ حلال فوڈ کی ریڑھی کہاں ہے۔

اسی گلی میں آگے پیچھے بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ دکانوں میں رنگارنگ سامان ، لائٹیں، اور قدآور نمونے جیسے جانور ، پرندے اور کارٹونز وغیرہ سجے ہوئے ملیں گے۔ مختلف الاقسام ریسٹورنٹس اور کافی شاپس باآسانی نظر آجائیں گی۔

عمارتوں پر بڑے بڑے بورڈز اتنے جگمگا رہے ہوتے ہیں کہ سورج کی روشنی بھی شرما جائے۔

یہیں مادام تسائو کا مومی مجسمے والا میوزیم ہے۔ اس میوزیم کی جتنی شہرت سنی تھی اتنی ہی مایوسی ہوئی۔ سنا ہے لندن والا میوزیم بہترین ہے۔ نیویارک سٹی میں جو میوزیم ہے وہاں موجود مجسمے اناڑی پن کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ریتک روشن کا مجسمہ اور امیتابھ کا مجسمہ کچھ کچھ اصلی لگتے ہیں باقی سب مجسمے یقیناً لاپرواہی سے جلدی جلدی بنائے گئے ہیں۔ مومی مجسمہ میں اتنی صفائی اور کاملیت ہونی چاہیے کے پہلی نظر میں انسان دھوکہ کھاجائے اور یہی مادام تسائو کے کام کی مشہوری تھی۔

یہیں سائنس میوزیم بھی ساتھ ہی ہے۔ ڈزنی لینڈ کا بچوں کا شاپنگ سٹور بھی ہے۔ ایک بڑی چاکلیٹ کی دکان ہے جس میں دلچسپ و عجیب سٹائل کی چاکلیٹ سے بنی اشیاء ملتی ہیں۔

آگے مزید چلتے جائیں تو آسمان کو چھوٹی عمارتیں کسی اور دنیا کا سماں پیدا کررہی ہوتی ہیں۔

نیویارک سٹی چار حصوں پر مشتمل ہے جن کے نام بروکلین، مین ہیٹن، برونکس اور کوئینز ہے۔ ہر حصہ الگ الگ طرز زندگی سمیٹے ہوئے ہے۔ کہیں تنگ گلیاں اور اونچی رہائشی عمارتیں، کہیں دریا اور پل، کہیں یہودیوں کی آبادی، کہیں چائینز کی آبادی، کہیں صرف کاروباری عمارتیں۔ الغرض شہر کا ہر حصہ دلچسپی سے معمور ہے۔ شہر کا سب سے مہنگا علاقہ مین ہیٹن ہے اور نارمل علاقہ کوئینز کو سمجھا جاسکتا ہے۔

نیویارک سٹی کو اچھی طرح دیکھنے کے لیے کئی ہفتے درکار ہوں گے۔ اور صرف اس شہر کی زندگی اور تاریخ پر بھاری بھرکم کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ اور یقیناً اس حوالے سے کتب موجود بھی ہوں گی۔ تاحال میرے علم میں اردو میں ایسی کوئی کتاب نہیں جو نیویارک سٹی کے حوالے سے گزشتہ چند سالوں میں لکھی گئی ہو۔

اس شہر میں رہنا لوگوں کے لیے باعثِ فخر ضرور ہے مگر اس فخر کی قیمت بہت زیادہ ادا کرنی پڑتی ہے۔ رہائش اس شہر میں بہت مہنگی ہے۔ تین تین اور چار چار خاندان ایک چھوٹے سے دو تین کمرے کے مکان میں رہتے ہیں۔ زیر زمین تہہ خانوں میں ایک کمرے میں پانچ چھ لوگ۔ اور کرایہ آسمان کو چھوتا ہوا۔

نیویارک سٹی کو پسند کرنے والے افراد کے برعکس مجھے اس شہر کی زندگی میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے شہر سے باہر وادی میں پرسکون زندگی اچھی لگی ہے۔ کچھ لوگ شہر کے گرویدہ ہوتے ہیں کچھ گائوں دیہات کے۔ نیویارک میرے لیے سیر وغیرہ کے لیے مناسب جگہ ہے مگر مستقل رہائش کے لیے میرے نزدیک یہ شہر صرف پیسے کا ضیاع ہے۔

نیویارک سٹی سے واپسی کے لیے ہر گھںنٹے بعد بس ملتی ہے۔ لوگ جاب کے لیے بھی بس پہ ہی جاتے ہیں۔ اگر پورے ماہ کا کرائے کا پیکج خریدیں تو کافی سستا پڑتا ہے۔ ہفتے کے دنوں میں ہر آدھے گھنٹے بعد بس آتی جاتی ہے مگر ہفتہ وار دو چھٹیوں کے دنوں میں بسوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور ہر گھنٹے بعد نہیں جاتی کیونکہ چھٹی کے دن مسافر بہت کم ہوتے ہیں۔

عموماً میں نیویارک تین چار ماہ بعد جاتا ہوں اور کوشش ہوتی ہے جو کام ہے اسے جلد پورا کرکے واپس جلدی آنے کی۔ کبھی رات رہنا پڑے تو دوستوں کے پاس لانگ آئی لینڈ چلاجاتا ہوں جو نیویارک سے چالیس منٹ کے فاصلے پر ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں