ہندو پجارن مندر میں پھول چڑھانے آئی

پجارن

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

دعا عظیمی :

کیا وہ شخص محبت کر سکتا ہے جس نے بار بار محبت کی ہو یا وہ کہ جس نے محبت کی محرومی میں عمر گزار دی ہو یا وہ شخص بھی محبت میں مبتلا ہو سکتا ہے جس نے تمام عمر اس کا ذائقہ نہ چکھا ہو؟؟؟؟

سوچا جائے تو امکانات سب کے لئے برابر ہیں مگر کامیاب محبت کرنے والا وہی ہو گا جس نے بار ہا اس کاذائقہ چکھا ہو،
کیا محبت ایک دیوانے کی بڑ ، دماغ کا خلل فقط اک سراب یا بچے کا خواب ہے؟؟؟؟

تم محبت کے سوا کسی اور موضوع پہ کیوں نہیں سوچتی؟ وہ مجھ سے پوچھتا۔۔۔

کیا ایک چیونٹی دانے کے سوا ایک بلبل گانے کے سوا ایک تتلی بہار کے پھولوں کے علاوہ کچھ سوچ سکتی ہے؟
میرے سوال میں اس کا جواب تھا۔

نہ تو تم چیونٹی ہو نہ بلبل نہ تتلی تمہارے پاس موضوعات کی نیرنگی ہے، الفاظ کا بہاؤ ہے، سوچ کی روانی اور جذبے کی فراوانی ہے۔ شعور کا آسمان تمہاری اڑان کے لیے کھلا ہے تم کیوں چند کلیوں پہ قناعت کر گئی، صحن چمن میں رنگ رنگ کے پھول چنو اور اپنی ذات کی تکمیل کرو۔

تمہیں کس نے کہا کہ تمہاری سوچ کو کوئی مرکز چاہیے۔ یہ عمودی اور وسطی یا متوازی کسی بھی رخ نکل سکتی ہے، تم ایک ہستی کے گرد کیوں گھومنا چاہتی ہو؟
عجیب سوال تھا۔

میں سوچنے پہ مجبور تھی۔۔ میرے اندر یہ پجاری کب سے دھونی رمائے بیٹھا ہے۔
یہ کیسی آگنی ہے
جو اپنے گرد تپسیا کرنے والے مانگتی ہے
یہ کیسا کوٹھا ہے جو طواف ہی طواف کی طلب میں ہے
یہ سب کیا ہے؟

یہ مندر، یہ بت، یہ پوجا ،یہ داسی کب سے میرے لاشعور میں کھیل رچائے بیٹھے ہیں۔
یہ روپ بدل بدل کر کون مجھے پکارتا ہے؟
کبھی ایک میں کبھی تین میں کبھی لات منات سومنات، یہ سب کیا ہے؟

یہ صدیوں کی کہانی ہے
ہر کورے کاغذ پہ لکھ دی جاتی ہے
چپکے سے اس کے پیدا ہونے سے پہلے

انسان کا انسان سے بیر ہے کیا
انسان کو ایک دوسرے سے دور کرنے کے لیے کتنے پاپڑ بیلے جاتے ہیں

کیا تم سمجھتی ہو ہم آزاد پیدا ہوتے ہیں
ہرگز نہیں آزادی ایک واہمہ ہے۔ ہم سے ہمارے ہونے کا خراج وصول کیا جاتا ہے، ہم قتل کئے بغیر قصاص بھرنے پہ مجبور ہیں۔

تم سمجھتی ہو تم ایک قبیلے سے زیادہ روشن خیال دنیا کی باسی ہو
ایسا نہیں ہے

قبیلے کی رسومات تمہاری نظر میں عجیب ہیں۔مگر تم یہ نہ سمجھو کہ تم کسی آزاد معاشرے کی پیداوار ہو تمہاری روشن خیالی تمہاری خام خیالی ہے
تم بیڑیوں میں ہو تم نے زنجیریں پہنی ہیں۔

بس ان بیڑیوں کی شکل فرق ہے۔ بیچنے والے خریدنے والے خود بھی بکے ہوئے ہیں ۔
کوئی بھی آزاد نہیں۔
ایسے میں محبت کی بات بے معنی ہے

محبت تو ایک ساز ہے
ایک آزاد جذبہ ایک آواز
سودو زیاں سے بالا تر
منطق سے نرالی دلیل سے جدا

کیا یہ سرخاب کا پر ہے
کیا کبھی کسی کو کسی سے محبت ہوئی بھی یا یہ فقط تخیل کی اڑان ہے
یہ لمحوں کا کھیل ہے
صدیوں کا خواب ہے ،یہ دھنک رنگ ہے، مثل حباب ہے۔ جذبے کی معراج ہے
یہ کل بھی تھی اور آج ہے۔

میرے من پہ اس کا راج ہے۔ میں تخیل کی اڑان بھر چکی تھی اور میرے گرد رنگ تھے۔ میرے ہاتھ محبت کی مورتی بنانے میں مگن تھے۔ میں ازل سے اپنے تخیل کی پجاری تھی۔

مگر اس وقت مورتی ٹوٹ گئی جب اس نے بتایا یہ تخیل تمہارا نہیں ہے تمہیں دان کیا گیا ہے. بالکل ایسے جیسے طالبان کسی لڑکے کی برین واشنگ کرتے ہیں اور وہ خودکش دھماکہ کرنے پہ تیار ہو جاتا ہے بالکل ایسے ہی کسی نے تمہیں مطیع کرنے کے خیال سے محبت کی نکیل ڈالنے کی کوشش کی ہے.

کیا محبت آزادی کا استعارہ ہے یا کال کوٹھڑی؟؟؟؟؟
پجارن اور مورتی دونوں ریزہ ریزہ تھیں.
سوالوں کی گیلی مٹی نیا بت تراشنے کو تیار تھی.

(تصویر: سکرین شارٹ
بشکریہ : سیوا سوریا مورتی سند راجا )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں