انجینئر ریاست علی بھٹی

کورونا اور انجانا ہاتھ ( سچی کہانی)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر میمونہ حمزہ :

امتحانات ابھی مکمل بھی نہ ہوئے تھے کہ حالات نے پلٹا کھایا۔ ابتداً خبروں میں ایک آفت کا ذکر ہوا، جس نے بڑی تیزی سے دنیا کے کئی ممالک کو متوجہ کر لیا، ابھی حقیقت اور افواہوں کی گردش جاری تھی کہ دنیا نے اپنے اپنے دروازے بند کرنے شروع کر دیے۔ ہر صبح ایک نئی خبر کے ساتھ احتیاطی تدابیر کے نت نئے نسخے اور انوکھے انتظامات!

ایسا ہول اٹھا کہ گلوبل ویلیج کا تصور پاتی دنیا نے یک دم ہی دوسروں سے منہ پھیر لیا، نہ مروت کام آئی نہ مودت، سب نے اپنے ہاں داخلے پر قدغن لگا دی، نہ ہوائی سفر ممکن رہا نہ زمینی! ایک بظاہر نہ دکھائی دینے والا وائرس( یا وبا ) جہاں پہنچا، زندگی اور اس کے معمولات کو ہلا کر رکھ دیا۔

اولادِ آدم کی زندگی ہی نہیں نفسیات پر بھی اثر انداز ہو گیا۔ انسانوں کی زندگی کی رنگا رنگی اور قرب کے نشاط اور محبت کے لازوال رشتوں کو’’ احتیاط اور فاصلہ‘‘ سے روشناس کروا گیا۔

وہ ان ہنگاموں سے کافی دور تھا، اور اپنی ہی روٹین میں مگن! یہ اس کے سال کے مصروف ترین دن تھے، اس کے سکولوں میں سالانہ امتحانات ہو رہے تھے، وہ کبھی ایک کیمپس میں ہوتا اور کبھی بھاگ کر دوسرے کی خبر لیتا۔ اساتذہ کے ساتھ میٹنگز اور کبھی والدین کو یاد دہانی کے اعلانات۔ کالج کے طلبا کے نصاب کی تکمیل کی فکر!

اگرچہ وہ تقریباً دو دہائیوں سے اس میدان میں مصروف ِ عمل تھا، لیکن وہ کسی چیز کو بھی روٹین کی نذر نہ ہونے دیتا۔ وہ ہر آن بہتری کے لئے سوچتا رہتا۔ ان دنوں اسے خبریں سننے کا بھی کم ہی وقت ملتا، گھر آتا تو بیٹیاں اس کی توجہ کا مرکز بن جاتیں۔

دنیا میں پھیلنے والی وبا کے اثرات بہت دن تک اس کے پر امن، سرسبز و شاداب قصبے کی فضاؤں سے دور نہ رہ سکے۔ پورے ملک کے تعلیمی ادارے ایک حکم سے بند ہوئے تو اس کا کالج اور سکول بھی بند ہو گیا، حالانکہ سالانہ امتحانات کا صرف ایک ہی پرچہ رہ گیا تھا۔ اس نے اپنے دونوں اداروں کی انتظامیہ کو رات گئے بڑی کوفت کے ساتھ اگلے دن سے غیر معینہ مدت تک کے لئے سکول و کالج بند ہونے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔

صبح تک اس کی طبعیت پر بوجھ تھا، وہ کام مکمل کرنے کا عادی تھا۔ اب ایک پرچہ رہ جانے کی بنا پر اساتذہ نہ تو رزلٹ بنا سکیں گے، نہ نئی کلاسوں کا شیڈول بن پائے گا۔ وہ ہر سال امتحانات کا رزلٹ تیار کروا کر اپنے بچوں کو ننھیال لے جاتا تھا اور کچھ دن تفریح کے بعد پھر اسی معمول پر آ جاتا تھا، جہاں اس کا سکول اور کالج تھا۔

نانی کا گھر ان سب کا پسندیدہ مقام تھا، جہاں ان سب کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا، وہاں پہنچ کر وہ کئی مہینوں کی تکان اتارتا، اور پھر نئے سیشن کی کتابوں، یونیفارم اور دیگر معاون اشیاء کے آرڈرز دینے کا کام بھی نمٹا لیتا۔

اس کا سکول کہنے کو تو قصبے کا سکول تھا، مگر تعلیم ، نظم وضبط اور ہم نصابی سرگرمیوں میں علاقے کے اچھے تعلیمی اداروں کو مات دیتا تھا ، میٹرک اور ایف ایس سی کے امتحانات کے نتائج میں اس کے کالج کے طلبا نمایاں کامیابی پاتے، اور اب تو اس کے ہاتھوں کے تراشیدہ کئی ہیرے ملک کے اعلی اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

اس نئی صورت ِ حال نے سب کو ہی عجب پریشانی میں ڈال دیا تھا، اس کی بیٹیاں صبح سے کئی مرتبہ اس سے پوچھ چکی تھیں :
’’نانی کے گھر کب جائیں گے بابا؟‘‘
’’ اب تو ایک پرچہ رہ گیا تھا بابا‘‘۔ اس کی بڑی بیٹی نے وضاحت کی، اسے خالہ کے پاس پہنچنے کی جلدی تھی:
’’کتابیں ساتھ لے جاتے ہیں نا‘‘۔ منجھلی کب پیچھے رہنے والی تھی۔

اور وہ ہر مرتبہ انہیں ٹال دیتا۔ میڈیا پر آنے والی خبروں میں ملکی صورتحال واضح ہونے کے بجائے ایک ہنگامے اور الجھن کا منظر پیش کر رہی تھی، کہیں طلبا کے کیرئیر اور تعلیمی نقصان کی باتیں تھی تو کہیں کاروبار کی بندش کی بنا پر معاشی بدحالی کی، کوئی مزدوروں کے بے روزگار ہونے کا رونا رو رہا تھا تو کوئی پورے ملک کو ’’لاک ڈاؤن‘‘ کرنے کے مشورے دے رہا تھا۔

وہ ریموٹ ہاتھ میں پکڑے مختلف چینلز سکرول کر رہا تھا، مگر ہر جانب ایک سی تشویش ناک خبریں تھیں، اور انہیں خبروں میں لاری اڈوں اور بسوں کے اژدھام کا منظر بھی تھا۔ خبر بنانے والے نے کمال ذہانت سے ان سب مسافروں کو ایک ہی نام دیا تھا۔

’’کورونا وائرس سے بچاؤ کی چھٹیوں میں عوام کی اکثریت نانی کے گھر جانے کے لئے گھروں سے نکل آئی، بیرون ِ شہر جانے کے لئے اڈوں پر بھیڑ بڑھ گئی‘‘۔

اس خبر کی تفصیل کیا تھی، اسے سننے کا کسی نے موقع نہ دیا، اس کی پیاری بیٹیاں شاید اسی کی منتظر تھیں، انہوں نے یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے سامنے مطالبہ رکھ دیا:
’’بابا، سب جا رہے ہیں نانی کے گھر ۔۔ ہمیں بھی لے چلیں نا‘‘۔

اس نے بیوی کی جانب دیکھا، اس کے چہرے کی چمک ہی میں اس کے سوال کا جواب تھا۔اس نے چند لمحے سوچا، اور پھر بولا:
بتائیے کب تک ہو سکتی ہے روانگی، دو ہفتوں کی چھٹی ہے۔ ایک ہفتہ کے لئے چلے جاتے ہیں،سکول کا رزلٹ اور اگلے سیشن کی تیاری کا کام واپس آکر مکمل کر لیں گے۔

اس کی تجویز تو گویاسب کے دل کی مراد تھی، سب نے اسے حکم نامہ ہی سمجھا، اور بھاگم بھاگ تیاری میں جت گئے، اور دوسرے ہی دن ان کی گاڑی فراٹے بھرتی نانی کے گھر کی منزلیں طے کر رہی تھی۔ جہاں ہمیشہ کی طرح محبت بھرا پر تکلف استقبال تھا۔ چند دن تک انہوں نے خوب مزے کئے، کھیل کود اور تماشے میں نہ دن کا پتا چلا نہ رات کا! لیکن گھر سے باہر کے حالات بدل رہے تھے،

فضا میں خوف سرایت کر رہا تھا، بہت سے لوگ جو ابتدا میں ان ہدایات کو درخورِ اعتنا نہیں جان رہے تھے، اب سنجیدگی سے اس کے اثرات کا جائزہ لے رہے تھے۔ اس کے قصبے میں تو سب کو زور دار معانقے اور پر حرارت مصافحے ہی کی عادت تھی، وہ مسجد میں باقاعدگی سے جاتا، کتنے ہی پرانے واقف کار مل جاتے، اگرچہ مساجد میں بھی حاضری بتدریج کم ہو رہی تھی۔

ایک ہفتہ گزرا، پھر دوسرا، اور تیسرا بھی ۔۔ اس نے کئی مرتبہ واپسی کا ارادہ کیا، مگر ملکوں کے دروازے بند ہونے کے بعد اب شہروں کے دروازے بھی بند ہو گئے تھے، باہر والوں کو اندر آنے کی اجازت تھی نہ اندر والوں کو باہر جانے کی! اب قصبے میں بہن بھائیوں سے رابطے کا ذریعہ سیل فون تھا، وہ جب بھی رابطہ کرتا، ایک ہی سوال سماعت سے ٹکراتا:

’’واپسی کب ہو گی بھائی؟‘‘۔
جس کا جواب اس کے پاس نہ تھا، وہ حالات کے دھارے پر تھا، جب چاہیں جہاں چاہیں لے جائیں۔

آنے کے چند روز بعد ہی اس نے بیٹیوں کا ایک شیڈول ترتیب دے دیا تھا، اور ان کی تعلیمی وتربیتی سرگرمیاں شروع کروا دی تھیں۔ وہ بچوں کو بہت دن فارغ رکھنے کے حق میں نہ تھا، کوئی نہ کوئی مثبت کام کرواتا رہتا۔ ان دنوں اس نے انہیں قرآن کریم کا کچھ حصّہ یاد کرنے کو بھی دیا ، وہ خود بھی ان کے ساتھ حفظ کی کلاس کا طالب علم بن گیا، ہر روز زیادہ سے زیادہ سبق یاد کرنے کی کوشش ہوتی،

مقابلہ اتنا زور دار تھا کہ بابا کے ساتھ منجھلی بیٹی نے بھی سورۃ یسین حفظ کر لی، باقی بچے بھی حفظ ِ مراتب کے ساتھ آگے پیچھے تھے۔ اور اب تو وہ ہر روز انہیں یاد دہانی کرواتا،
’’واپسی کاپروگرام کسی بھی وقت بن سکتا ہے، سب اپنی چیزیں بھی سمیٹ کر رکھیں اور نظام الاوقات بھی ٹھیک کر لیں‘‘۔

اور وہ سب ہی سر ہلا کر تائید کر دیتیں۔

اتنے دن سے گھر سے دوری نے اس پر کسلمندی طاری کر دی تھی، وہ گھنٹوں کمرے میں لیٹا رہتا، باہر نکلنے کو دل کرتا نہ خبریں سننے کو، اور پھر اسے گلے میں سوزش کا احساس ہوا، وہ قریبی ڈاکٹر کے پاس پہنچا، اور اس نے معائنے کے بعد اینٹی بائیوٹک تجویز کر دی۔ دو دن بعد وہ پھر کلینک میں کھڑا تھا۔ اسے ذرا آرام نہ آیا تھا، بلکہ اب تو کچھ بخار بھی محسوس ہو رہا تھا، جسم میں کمزوری بھی! ڈاکٹر نے اسے ڈرپ لگوانے کی ہدایت کی تو اس نے از خود کہا:
’’ڈاکٹر صاحب، میرا کورونا ٹیسٹ کروا دیں‘‘۔

’’کورونا ۔۔ یہ کیسے خیال آ گیا آپ کو ۔۔ آپ میں تو اس کی علامات ہی نہیں ہیں۔ معمولی سا انفیکشن ہے اور بخار ۔۔ جلد ٹھیک ہو جائیں گے‘‘۔

وہ ڈرپ لگوا کر گھر آگیا، لیکن طبیعت میں کوئی خاص تبدیلی نہ آئی۔ اگلی صبح وہ ڈاکٹر کے بجائے ڈپٹی کمشنر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے اس سے درخواست کی کہ وہ اسے واپس گھر جانے کا اجازت نامہ دے دے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ گھر پہنچے گا تو مطمئن ہو جائے گا۔

قانون کا ہاتھ بڑا بے رحم ہوتا ہے، اسے واپسی کی اجازت نہ ملی۔ وہ بجھے دل کے ساتھ واپس آگیا، اس دن اس کی جس سے بھی بات ہوئی اس نے سب کو دعا کے لئے کہا، وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اس کا دل اتنا اداس کیوں ہے۔ اس کی صحت کی حالت ایسی بھی بری نہ تھی، لیکن وہ سب سے دعائیں سمیٹتا رہا۔

اگلی صبح اس کا سانس پھولنے لگا، وہ بڑی ہمت کر کے نماز کے لئے اٹھتا، عصر پڑھ کر واپس آیا، تو حسبِ معمول بیٹیوں کو سورت حفظ کرنے کے لئے بٹھا دیا، حالانکہ سانس پھولنے کے سبب بات کرنا مشکل لگ رہا تھا۔ اس کیفیت میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا فیصلہ ہوا،

کلینک والوں نے ابتدائی معائنے کے بعد ڈی ایچ کیو ہسپتال بھجوا دیا، اور ہسپتال میں پہنچتے ہی اسے قے آئی، اور ایمرجنسی کے بستر پر اس کی دل کی حرکت بحال کرنے کی انتہائی کوشش کے بعد ڈاکٹرز نے مایوسی سے سر ہلا دیا۔

تھوڑی دیر میں اس کے وارثوں کے ہاتھ میں ’’ڈیتھ سرٹیفیکیٹ‘‘ تھا، جس پر حرکت قلب بند ہونے کو موت کا سبب قرار دیا گیا تھا، اور ڈیوٹی ڈاکٹر اور انتظامیہ نے تصدیق کی مہر لگا دی تھی۔ اس کا بے جان وجود لئے، نانی کا کنبہ ایمبولینس میں اس کے قصبے کی جانب جا رہا تھا، فضا میں سسکیاں تھیں، کراہیں اور آہیں!!!

ہر شہر کا دروازہ بند تھا، چیک پوائنٹ پر تفصیلات بیان کی جاتیں، ڈیتھ سرٹیفیکیٹ طلب کیا جاتا، اور تسلی کے بعد رکاوٹ ہٹا کر راستہ دے دیا جاتا، ایک شہر سے دوسرا، اور پھر تیسرا۔ پھر ایک جگہ اس دکھ اور غم میں ڈوبے کاروان کو روک لیا گیا، یہاں بھی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پیش کیا گیا، یہ اس کے اپنے علاقے کی حدود کا آغاز تھا۔

اس مقام پرایمبولینس تین گھنٹے رکی رہی، تاکہ ان وارثوں کا تعین ہو سکے جنہیں اس کے شہر میں داخلے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ اس کی بیوہ ، بچیاں، اور والدین ہی اس کے اہل قرار پائے، اور قانونی بھائی کے خاندان کو واپس لوٹا دیا گیا۔

اس کی میت کے گھر پہنچنے سے پہلے ہی پورا علاقہ اس کی جدائی کے دکھ میں ڈوب گیا تھا۔ اپنے علاقے کا پہلا انجینئر جو ڈگری یافتہ ہوا ، تو اپنی ذات کے حصار سے بلند ہو کر سوچا، اور محض اپنے لئے ملازمت حاصل کرنے کے بجائے علاقے کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے مشن کو اختیار کر لیا، اس کا ’’ہمالیہ سکول و کالج‘‘ اس کے ہمالیہ جتنے بلند عزم کا آئینہ دار تھا۔

اس کی میت گھر پہنچی تو حفاظتی انتظامات کے لئے ضلعی انتظامیہ کا حکم نامہ بھی پہنچ گیا اور اس پر عمل درآمد کروانے والے اہلکار بھی! تعزیت کے لئے آنے والوں کو ’’احتیاط اور فاصلہ‘‘ کا اصول بتایا ہی نہیں لاگو بھی کروایا گیا۔ گھر کے کھلے سے صحن میں کرسیاں اسی ترتیب سے لگائی گئیں۔ اہل ِ علاقہ اپنے محسن کی جنازہ میں شرکت کرنے کو حاضر تھے، حالانکہ لوگوں کو جنازہ میں شرکت سے روکا بھی گیا تھا، اس کے گھر کے صحن میں مکرر نماز ِ جنازہ کے بعد اسے اس کی آخری منزل کی جانب روانہ کر دیا گیا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

میت کو دفن ہوئے کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک مرتبہ پھر پولیس، انتظامیہ اور ایمبولینسز نے اس کے قصبے کا رخ کیا، بیوہ ابھی یتیم بچیوں کو دلاسا بھی نہ دے پائی تھی، اور ان کے چہرے پر بہنے والے آنسو خشک بھی نہ کر پائی تھی کہ انہیں گھر سے باہر آنے کا حکم ملا۔ بیوہ کی عدت کے احکام کو پسِ پشت ڈال کر ایک کرخت ہاتھ نے انہیں ایمبو لینس میں ڈالا اور قرنطینہ سنٹر پہنچا دیا۔ بیرون ِ شہر سے آنے والوں کو گھر میں نہیں رکھا جا سکتا۔

دل تو ویران ہو ہی چکا تھا، گھر کو بھی تالا لگ گیا تھا۔ لوگ حیرت سے منہ میں انگلی دبائے اس محسنِ علاقہ کی بیوہ اور بیٹیوں کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے، بوڑھے والدین بھی اسی قرنطینہ میں تھے، جہاں نہ بستر تھا نہ ضروریات ِ زندگی!! اور پھر یہ ویرانی اسی طرح باقی گھروں پر بھی چھا رہی تھی، اس کے بہن بھائیوں کو ایک ایک کر کے گھروں سے نکال کر قرنطینہ میں پہنچا دیا گیاتھا، خاندان کے بزرگوں کو بھی، کوئی فالج کا مریض تھا تو کوئی دل کا مریض، اور انجو پلاسٹی کے بعد احتیاط کے ساتھ زندگی بسر کرنے والا!

اس کے رشتہ داروں کے گھر چھاپے مارے جا رہے تھے، بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے بہن بھائیوں کے بعد اس کے کزنز کے گھروں پر چھاپے مارے گئے، اور ہر گھر میں سے کچھ افراد کو لے گئے، اور کچھ کو چھوڑ دیا گیا، جہاں جانے والے بھی حیران تھے اور چھوٹ جانے والے بھی۔ تین دن کے اندر خاندان کے پینتیس افراد بشمول گیارہ بچوں کے جن میں ایک برس کے تین بچے بھی تھے۔ انہیں کچھ دن قرنطینہ میں رکھنے کے بعد چھوڑا گیا تو اسی گھر کے کئی اور افراد کو پکڑ کر قرنطینہ سینٹر میں پہنچا دیا گیا،

’’احتیاط اور فاصلے‘‘ کا جو قانون لاگو کیا جا رہا تھا، وہ سمجھ سے بالا تر تھا حالانکہ اس کے علاقے کو بھی سیل کیا جا چکا تھا، دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔

اسکے بیوی بچوں اور والدین کی رپورٹس ’’کووِڈ 19 پازیٹو‘‘ آئی تھیں، سوائے ایک بیٹی کے جو باپ سے سب سے زیادہ قریب تھی۔ انہیں ہسپتال کے آئیسو لیشن وارڈ‘‘ میں منتقل کر دیا گیا، جہاں دو ہفتے گزارنے کے بعد انہیں ڈسچارج کر دیا گیا۔ ان کی نیگیٹو رپورٹس آنے پر ہسپتال کا عملہ بھی خوش تھا، انہیں ڈسچارج کرنے کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی، پھولوں کے گلدستے اور سرٹیفیکیٹ اور مٹھائی دے کر سرکاری ایمبولینس میں رخصت کیا گیا، لیکن یہ کیا؟

ان کی ایمبولینس کا رخ گھر کی بجائے پولیس سٹیشن کی جانب موڑ دیا گیا۔ ابھی وہ اس کی وجہ بھی نہ جان پائے تھے، کہ بیوہ کے ہاتھ میں ایف آئی آر کی کاپی تھما دی گئی۔’’ آپ کے خاندان کو کورونا کی وبا پھیلانے کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے‘‘۔ آپ نے جس میت کو ہارٹ فیل کی سرکاری ہسپتال کی مصدقہ رپورٹ دکھا کر علاقے میں داخل کیا ہے، وہ کورونا کا مریض تھا۔آپ پر مقدمہ ہو گا، اب چاہیں تو گرفتاری سے نکلنے کے لئے اپنی ضمانت کروا لیں۔ اور پھر اس کی بیوہ اور بیٹیاں، بوڑھے ماں اور باپ سر نیہوڑھے بیٹھے تھے،

پولیس سٹیشن میں انہیں پانچ گھنٹے گزر چکے تھے۔ پھولوں کے گلدستوں کی پتیاں مرجھا اور جھڑ رہی تھیں، اور یتیم بچیوں کے پھول سے چہرے کچھ اور کمھلا گئے تھے۔ پھر انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کی ضمانت کے مچلکے کس نے بھرے، خاندان کے سارے مرد تو مختلف قرنطینہ سنٹرز میں قید بھگت رہے تھے، اس کا انتظام بھی تھانے والوں نے اپنے ’’اختیار‘‘ کی بنا پر کیا تھا۔

اس پکڑ دھکڑ میں خاندان کے ایک سو سے زائد افراد کورونا ٹیسٹ کے مراحل سے گزارے گئے تھے، اور پازیٹیو، نیگیٹو رزلٹ سے بالاتر سب سے ایک سا جابرانہ سلوک ہو رہا تھا، دو افراد کے رزلٹ پازیٹو آئے تھے، اور ایک سو تین میں سے اٹھہتر کے نیگیٹوٖ ! باقی ماندہ کی رپورٹس ان تک پہنچنے سے پہلے ہی گم ہو گئی تھیں، ٹیسٹ پر ٹیسٹ لئے اور لیبارٹری بھیجے جا رہے تھے، مگرہر بار کوئی انجانا ہاتھ انہیں اچک کر غائب کر رہا تھا۔

اس کے پر امن سرسبز و شاداب، لہلاتے ہوئے قصبے پر ان دیکھی اور انجانی وبا نے ڈیرے ڈال دیے تھے، یا وبا کی آڑ میں انسان انسان سے دشمنی نکال رہا تھا۔ وہ جو کامیاب اور ناکام بچوں کے رزلٹ بنانے کی الجھن میں ’’نانی کے گھر ‘‘ تک گیا تھا،

ایک مہینے کے اندر ہی دنیا اتنی بدل گئی تھی، کہ اب اس علاقے کے بچے بھی’’ رزلٹ‘‘ کے نام پر فرسٹ سیکنڈ پوزیشنز کا نہیں پوچھتے، بلکہ بے اختیار ’’کورونا پازیٹو‘‘ اور ’’کورونا نیگیٹو‘‘ کا سوال کرتے ہیں۔ اور ہر جانب قرنطینہ کا شیڈول ہی زیر ِ بحث رہتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں