ڈاکٹرماسک پہنے ہوئے مریض کو چیک کررہی ہے

کورونا حفظان صحت کے بنیادی نظام پر کیسے اثراندازہورہاہے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جویریہ ریاض :

گزشتہ کئی ہفتوں سے بعض ماہرین جائزہ لے رہے تھے کہ کورونا وائرس نے بالواسطہ یا بلاواسطہ دنیا بھر کے لوگوں کی صحت کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لئے سماجی رابطے ختم کرنے سمیت متعدد حفاظتی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ ان تدابیر نے بھی انسانی صحت بالخصوص ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ ماہرین نے ان برے اثرات سے نمٹنے کے لئے الگ سے ہدایات بھی جاری کی ہیں۔

یہ بات ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ ہر انسان کی صحت کی دیکھ بھال اس کا بنیادی حق ہے لیکن کوویڈ19 نے حفظان صحت کے بنیادی نظام کو مشکلات کا شکار کیا ہے، ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کی نگہداشت کا شعبہ متاثر ہوا ہے۔

٭حاملہ خواتین بھی بری طرح متاثرہوئیں
خواتین کی صحت سے متعلقہ مراکز حاملہ خواتین کو بار بار چیک اپ اور اسکریننگ کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے مطابق حمل کے چوتھے مہینے سے 28 ویں ہفتے کے دوران میں ہر مہینے میں ایک بار چیک اپ ہونا چاہئے۔28 ویں سے36 ویں ہفتے کے دوران میں ہر مہینے میں دوبار اور اس کے بعد بچے کی پیدائش تک ہفتہ وار چیک اپ ہونا چاہیئے۔

تاہم کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشات کی وجہ سے دنیا بھر میں میڈیکل کا عملہ اپنے مریضوں کو کم سے کم رابطہ کرنیکی ہدایت کررہا ہے، اس تناظر میں عالمی وبائی مرض نے حاملہ خواتین کے باقاعدہ چیک اپ کے نظام کو نہ صرف مشکلات میں ڈال دیا ہے بلکہ متعدد خواتین کے لئے اپنی ڈاکٹروں سے ملنا بھی ممکن نہیں رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ٹیلی میڈ یسن (جس میں بذریعہ ٹیلی کمیونیکیشنزٹیکنالوجی مریض کا معائنہ کرنے کے بعد دوا تجویز کی جاتی ہے) زیادہ آسان اور محفوظ طریقہ ہے لہذا امریکا میں مختلف امراض کیماہرین مریضوں کے ساتھ رو بہ رو اپائنمنٹس میں واضح کمی لانے کی کوشش کررہے ہیں یا پھر مکمل طور پر ٹیلی میڈیسن کی راہ اختیار کررہے ہیں۔

٭حاملہ خواتین ڈلیوری کے بارے میں فکر مند
امریکا میں بیماریوں پر قابو پانے اور روک تھام کے مرکز’سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن(سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ اگر ڈاکٹرز کو شبہ ہو کہ ماں اور بچے میں سے کوئی بھی ایک سارس کوویڈ۔2 سے متاثر ہے تو وہ پیدائش کے فوراً بعد بچے کو ماں سے علیحدہ کریں۔

سی ڈی سی نے ہدایت کی ہے کہ ڈاکٹر فیصلہ ہرکیس کو دیکھ کر کریں۔ اسی طرح رشتہ داروں کو بھی لیبر روم سے دور رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے، ہاں! اگر رشتہ داروں میں کورونا کی کوئی علامت نہ ہو، وہ اپنی ذاتی حفاظتی اقدامات بھی کریں تو انھیں مریضہ کے اردگرد رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ تاہم برطانیہ میں بعض ہسپتالوں میں حاملہ خواتین کے قریبی عزیزوں کو کسی بھی طور پر ملنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح جرمنی میں بھی بعض ہسپتالوں نے اسی قسم کی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔

بحیثیت مجموعی یورپ میں ہسپتال والے فیصلہ کرتے ہیں کہ مریضہ کے کس عزیز کو ڈیلیوری کے دوران قریب رہنے کی اجازت دینی ہے اور کس کو پیدائش کے بعد ملنے کی اجازت دینی ہے۔ تاہم ایسی مثالیں بھی دیکھنے، سننے کو ملتی ہیں کہ خواتین کی ڈیلیوری کے دوران میں ان کے شوہروں کو بھی قریب آنے کی اجازت نہیں ملی۔ ایسی مثالیں بھی کہ پہلے ماؤں کے چہرے پر ایسے ماسک لگائے گئے جن سے انھیں کافی مشکل پیش آرہی تھی، اس کے بعد بچے کو ان کے سینے کے ساتھ لگایا گیا۔

٭ڈاکٹرز نے اپائنمنٹس منسوخ کردیں
دنیا کے مختلف ممالک میں گائناکالوجسٹس نے حاملہ خواتین کے معائنہ کی تمام اپائنمنٹس منسوخ کردی ہیں۔ انھیں ٹیلی میڈیسن کا راستہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ کورونا وائرس نے پرائمری کئیر ہیلتھ کو کس حد تک متاثر کیا ہے۔

جب سے ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن نے کورونا کو وبا کا درجہ دیاہے، ہر مرض کے ماہر ڈاکٹروں نے مریضوں سے ملنے جلنے کو ’غیرمحفوظ‘ سمجھناشروع کردیاہے۔ انھوں نے اپنے طبی مراکز کے دروازے بند کردیے ہیں اور اپنی حکومت کی طرف سے جاری کردہ گائیڈلائنز کے مطابق ٹیلی میڈیسن شروع کردی ہے۔

مثلاً امریکا کی سی ڈی سی نے ڈاکٹروں سے کہا ہے کہ وہ مریضوں سے صرف انتہائی ضروری ملاقاتیں کریں،باقی ملاقاتوں کو معرض التوا میں ڈال دیں۔ برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس(این ایچ ایس) نے ہدایت کی ہے کہ مریض آن لائن طریقے سے یا پھر فون پر ڈاکٹروں سے رہنمائی حاصل کریں، ہاں! اگر ڈاکٹر سمجھے کہ مریض کو براہ راست چیک اپ کے لئے آنا چاہئے، تب انھیں اجازت ہوگی۔

اس صورت حال کا ایک خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ برطانیہ میں بے شمار مریضوں کی سرجریز بھی ملتوی ہوچکی ہیں جس کے نتیجے میں انھیں تشویش ناک حالت میں مبتلا ہونے کے خدشات لاحق ہیں یا پھر خوفزدہ ہیں کہ وہ کسی بڑے نقصان کا شکار ہوجائیں گے۔

برطانیہ میں ایک بڑی تعداد میں لوگ گھروں میں پڑے پڑے موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں، دیگر ممالک کی طرح یہاں بھی صرف کورونا کا شکار ہوکر مرنے والوں کی گنتی کی جارہی ہے،باقی اموات کی وجہ کیا ہے، یہ جاننے کی کسی کو فرصت ہی نہیں ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے ونٹن سنٹر فار رسک اینڈ ایویڈنس کمیونیکیشن نے12مئی کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں پچھلے پانچ ہفتوں کی بابت بتایاکہ اس دوران میں مجموعی طور پر30 ہزار افراد ہلاک ہوئے، ان میں سے 10ہزار افراد کورونا وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہوئے، باقی اموات کا سبب کیا تھا؟ کسی نے جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔

دنیا کے باقی ممالک میں بھی صورت حال ایسی ہی ہے، بعض ممالک میں کورونا مریض اس قدر بڑی تعداد میں آرہے ہیں اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہورہی ہیں کہ دیگرامراض میں مبتلا ہوکرمرنے والوں کے بارے میں کوئی سوچ ہی نہیں رہا ہے۔ ایسے میں مختلف امراض میں مبتلا لوگ اچھے وقت کا انتظار کررہے ہیں کہ جب ڈاکٹرز انھیں ملاقات کے لئے بلانا شروع کردیں گے۔

٭ویکسینز کی عدم دستیابی، نئی وباؤں کا خطرہ
سی ڈی سی جیسی تنظیمیں اور ادارے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے پر مسلسل زور دے رہے ہیں تاکہ انھیں وباؤں سے محفوظ رکھا جاسکے۔یہ بات بھی دیکھی جارہی ہے کہ بچوں کو ویکسین کی فراہمی کا گراف مسلسل نیچے آرہاہے۔ اس کا سبب لاک ڈاؤن اور ’گھرمیں رہنے کی پالیسی‘ ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے ’یونیسیف‘کے مطابق برطانیہ میں ایک کروڑ ایک لاکھ 70 ہزار بچے ویکسین سے محروم ہوسکتے ہیں، جس کے نتیجے میں نئی وباؤں کا دروازہ کھل سکتاہے۔

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں ہیلتھ کئیرکا معاملہ اس قدر زیادہ سست رفتار ہے کہ وہ پائیدار ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ نہیں ہوپارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسانوں کی صحت کو بہتر بنانے کے لئے کافی اقدامات نہیں کیے گئے۔

ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹرجنرل ڈاکٹر ٹیدروس ایڈہینیم کاکہناہے کہ بیماریوں اور وباؤں کے خلاف بہترین دفاع پیش بندی ہے۔اس کے لئے صحت کے نظام بالخصوص پرائمری ہیلتھ کئیر سسٹم کو مضبوط بنانا ازحد ضروری ہے۔ اگرہم ان پر دھیان نہیں دیں گے تو اس کا نہ صرف صحت کے حوالے سے ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑے گا بلکہ ہماری معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے۔ یادرہے کہ ہم کورونا وائرس کے سبب ہمہ پہلو خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں