پاکستان، ایک مارکیٹ کے باہر ماں، بیٹی

کورونا وائرس کا دیا ہوا سبق، ہم سیکھیں گے؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

شازیہ عبدالقادر:

اتوار کے روز والدہ کو ملنے کی تڑپ اٹھی اور میاں صاحب کے ہمراہ بائیک پر روانہ ہوئے۔ دوماہ سے امی جی کو نہیں ملی تھی واٹس ایپ ویڈیو کال روزانہ کے باوجود دل کو تسلی نہ ہورہی تھی۔
والدہ محترمہ سے ملاقات،ان کے چہرے کا کھل اٹھنا، سوچا اور کیا چاہئے!!!!

لیکن کیسی ملاقات نہ ہاتھ ملاسکی نہ گلے مل سکی۔ ہمیشہ کی طرح ان کی گود میں لیٹ کر سکون کا لطف نہ لے سکی لیکن پھر بھی دل سرشار ہوگیا۔
واپسی پر ماڈل ٹاؤن سے ملتان چونگی براستہ ٹاؤن شپ، مارکیٹس اور کسٹمرز، ایسے تھے کہ
”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں“

ٹاؤن شپ تو شٹر کے باہر باقاعدہ خواتین کو کھڑے دیکھا۔ شٹر پر کھڑا لڑکا اشارے سے کہہ رہا تھا:
بس پانچ باجیاں جاسکتی ہیں۔

ایک جگہ بیڈ شیٹس دیکھ کر میاں صاحب نے توجہ دلائی، لے لیتے ہیں۔ اگرچہ ضرورت تھی مگر دل ہی نہیں کیا رکنے، دیکھنے کو۔
المشہور و معروف نئی سٹرک جو جناح ہاسپٹل سے سیدھی کریم بلاک آتی ہے، وہاں کیا خوب بازار سجا ہوا تھا،
دل للچایا، ایک جگہ رک کر ایک دو فراک اور چھوٹے بیٹے کا کرتا خریدا۔ لڑکا کہنے لگا:
”باجی! کریم بلاک فلاں دکان ہے، کھلی ہوئی ہے، تھوڑی تھوڑی باجیاں جاکر لے سکتی ہیں“

کہا: رہن دے بھرا،(رہنے دو بھائی) اتنی بھی ہوس نہیں، یہ تو چلتے نظر پڑگئی تو لے لیا اور اس پر دل ہی دل میں خود کو سرزنش اور وکالت دونوں جاری تھیں۔ بےساختہ وہ کلپ یاد آیا جس میں بیگم میاں سے کہتی:

سوچ رہی ہوں بال کٹوالوں
میاں بیچارہ کہتا کٹوالو
پھر بیگم کہتی: نہیں چھوٹے بال اچھے نہیں لگیں گے
تو میاں کہتا پھر نہ کٹواؤ
اور اس تکرار پر میاں کی سی ڈی ”کٹوا لو، پھر نہ کٹواؤ “ پر اڑ جاتی ہے

الغرض کریم بلاک سے ملتان چونگی ایسا ہی بازار سجا تھا۔
گھر کے آس پاس دو تین بہنوں نے گھر میں کپڑوں کی سیل لگائی ہوئی ہے۔
اب عید پر کپڑے لازمی بنیں نہ بنیں، اکثریت گرمیوں کے کپڑے عید کے بہانے ہی بناتی ہے۔

گرمیوں کے لان کاٹن سوٹ اگلے سال خاصے ردی ہوچکے ہوتے ہیں۔ کچھ عرصہ سے گرمی کی شدت اور دورانیہ بڑھ جانے کے باعث یہ ایک ضرورت بن گئی ہے

اور حقیقت یہ ہے کہ گھر گھرداری والی خواتین کے گھریلو سٹاک میں ان سلے کپڑے موجود ہوتے ہیں۔
گھر کے اسٹاک، آس پاس گھریلو سیل اور آن لائن شاپنگ کے بعد بازاروں میں جانے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔
یہ بہرحال ایک سوال ہے!!!!

کورونا نے ہمیں بہت اچھے سے بتایا ہے کہ ضرورت اور بلاضرورت میں کیا فرق ہے!
اگر کم و بیش دو ڈھائی ماہ لاک ڈاؤن کے بعد بھی
ہم نے یہ نہیں سیکھا تو ہم نے پھر کیا سیکھا؟؟؟


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں