قادرخان یوسف زئی، اردوکالم نگار، تجزیہ نگار

کورونا کو شکست دینے میں ناکام، عوام یا حکمران؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قادرخان یوسف زئی:
میڈیکل سائنس کے مطابق کسی بھی وائرس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، لیکن انسانی جسم میں قوت معدافعت کو بڑھا کر وائرس کو کمزور کیا جاسکتا ہے۔ ویکسین کو کسی بھی ایسے مادے کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاتا ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کو اُس مادے کے خلاف مزاحمت کرنے کے قابل بنادیتا ہے۔

انسانی جسم اپنے ارتقا ئی مراحل میں صدیوں سے انواع و اقسام کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہوتے زمانہ حال میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ انسانوں کے لئے خطرناک وائرس کو غیر موثر بنانے کے لئے ایسا ماہ تیار کیا جائے جو اُس وائرس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرنے کی قوت رکھتا ہو۔

1803میں برطانوی سائنس دان نے ویکسین کو اُس وقت متعارف کرایا جب اس نے چیچک سے بچاؤکے خاطر اپنا طریقہ کار علاج دریافت کیا۔ اس نے اپنی دوا ایک وائرس جس کو variolae vaccinac (یعنی cowpox virus)کہتے ہیں،سے حاصل کی، لاطینی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ”گائے“۔

زمانہ قدیم سے حال تک انسان اپنے بچاؤ کے لئے مختلف تدابیر اختیار کرتا چلا آرہا ہے۔ دور جدید کو عالم انسانیت میں میڈیکل و سائنس کے ارتقاء کا زمانہ سمجھا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک و ترقی پذیر ممالک کے ساتھ تیسری دنیا کی اصطلاحات نے طبقاتی تفریق کو بہت نمایاں کیا ہے۔ رواں صدی میں انسانی تاریخ کی بدترین جنگوں سے کروڑوں انسان زمین میں دفن ہوچکے ہیں، لیکن اس کے باوجود آج بھی زمین پر انسانوں کے درمیان جنگ جاری ہے۔

یہ بھی پڑھئیے:
کورونا وائرس اور سازشی تھیوریز
کورونا وائرس کا موثر، مجرب روحانی اور طبی علاج
کورونا وائرس کا شافی علاج ممکن ہے
کیا کرونا وائرس حیاتیاتی ہتھیار ہے؟
کرونا وائرس: وبا کے یہ دن کہاں اور کیسے گزاریں؟

کورونا وائرس نے جس طرح پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لیا وہ ایک بدترین عبرت کا نشان ہے۔ کورونا وائرس کو کئی زاویوں سے جانچنے اور سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہیں لیکن اس وقت پوری دنیا کی نظریں اس اَمر کی جانب لگی ہوئی ہیں کہ کورونا وائرس کے خلاف میڈیکل سائنس میں کامیاب کون ہوتا ہے؟

امریکا کے صدر اپنے مشیروں پر ناراض ہوچکے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک کورونا وائرس کا توڑ دریافت کیوں نہیں، ایک جانب صدر ٹرمپ اپنی قیاس آرائیوں کی وجہ سے جگ ہنسائی کا سبب بن چکے ہیں۔امریکی صدر نے اپنی ایک ٹویٹ میں ملیریا کے لئے استعمال ہونے والی ادویات chloroquine اور hydroxychloroquine کو کارآمد قرار دے دیا ہے، دوسری جانب نائیجریا میں ان ادویات کو استعمال کرنے سے دو مریضوں کے جسم میں زہر پھیلنے کی اطلاع بھی دنیا کی توجہ کا مرکز بنی۔

واضح رہے کہ امریکا کے اہم طبی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کورونا وائرس کے علاج پر صدر ٹرمپ کے بیان کی توثیق کرنے سے انکار کردیا تھا، انہوں نے یہ وضاحت خود امریکی صدر کے سامنے میڈیا بریفنگ کے دوران دی،ایف ڈی اے کے کمشنر ڈاکٹر سٹیفن ہاہن کا کہنا تھا کہ وہ غلط امید نہیں دلانا چاہیں گے، ’ہوسکتا ہے کہ کورونا وائرس کی ہمارے پاس ٹھیک دوائی موجود ہو لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کی درست ڈوز ابھی دستیاب نہ ہوجس کی وجہ سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔‘

پریس کانفرنس کے بعد ایف ڈی اے نے وضاحت دی کہ کلوروکوئین کورونا وائرس کے علاج کے لیے ایف ڈی اے نے منظور نہیں کی اور نہ ہی کوئی دوسری ڈرگ، کلوروکوئین کو دوسرے مقاصد کے لیے منظور کیاگیا، ڈاکٹروں کو قانونی طورپر اجازت دی گئی کہ اگر وہ چاہتے ہیں تو کورونا وائرس کیخلاف تجویز کرسکتے ہیں، لیکن کورونا وائرس کے لیے اس کا موثر اور محفوظ ہونا ابھی ثابت نہیں ہوا،

ایف ڈی اے کمیشنر ڈاکٹر سٹیفن نے ٹرمپ کی پریس کانفرنس کے بعد کہاکہ کلوروکوئین کا کورونا وائرس کے مریضوں پر کلینکل ٹرائل ہوگا۔اس وقت ترقی یافتہ ممالک کوطبی آلات کے کمیابی کا بدترین سامنا ہے۔ کورونا وائرس نے ایک طرف دنیا کے امیر و ترقی یافتہ ممالک کی حقیقت کو آشکارہ کیا ہے تو دوسری جانب ترقی پذیر ممالک کو اپنی ترجیحات طے کرنے کے لئے سوچ بچار کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔

اس وقت نہیں کہا جاسکتا کہ کورونا وائرس پر کتنے عرصے میں مکمل طور پر قابو پا لیا جائے گا، قیاس آرائیاں ہیں کہ ویکسین کی تیاری میں اب بھی کم ازکم 18مہینے لگ سکتے ہیں،امریکی سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن کی نئی رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس کسی بھی سطح پر 17 دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔

امریکی سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن نے کورونا وائرس سے متاثرہ 2 بحری جہازوں ڈائمنڈ پرنسز اور گرانڈ پرنسز میں وائرس کے پھیلائو پر تحقیق کی۔امریکی سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری ونشن کے مطابق تحقیق میں دونوں بحری جہازوں کے کیبنز کے خالی ہونے کے 17 دن بعد بھی وائرس کی موجودگی ظاہر ہوئی۔ یہ ایک بہت بھیانک صورتحال ہے جس کا نقشہ دنیا کے پورے نظام کو لپیٹ رہا ہے۔

کورونا وائرس کی شدت کے ساتھ ہی دنیا بھر میں فیس ماسک اور سینیٹائزرزکی شدید قلت پیدا ہوگئی اور ذخیرہ اندوزں کے ساتھ ساتھ فیس ماسک اور سینیٹائزرز بنانے والوں نے اسٹاک کو لاک کرکے مہنگے داموں میں فروخت کرکے اربوں روپے کمائے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں ایک خصوصی پروپیگنڈا مہم چلائی گئی اور اس تاثر کو عام کیا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لئے فیس ماسک اور سینیٹائزرزناگزیر ہیں، تاہم شدید قلت کے بعد اس منفی پروپیگنڈے کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی کہ فیس ماسک سب کے لئے پہننا ضروری نہیں،

یہ بھی پڑھئیے:
کرونا وائرس: مساجد میں احتیاطی تدابیر
کرونا وائرس: پھیلی ہوئی چند غلط باتوں سے خبردار رہئیے
کرونا وائرس سے بچائو، ہینڈ سینیٹائزر گھر میں‌کیسے تیار کریں؟
کرونا وائرس: ذمہ دار شہریوں کا طرزعمل کیا ہونا چاہئیے؟
کورونا وائرس: وبا کے یہ دن کیسے گزاریں؟

اس کے استعمال کی ترجیحات میں واضح کیا گیا کہ جس فرد میں کورونا وائرس کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں یا متاثرہ جگہ پر کورونا وائرس کے متاثرین موجود ہیں، ان کے لئے فیس ماسک ضروری ہیں۔ بالخصوص کورونا وائرس کے علاج کرنے والے میڈیکل عملے و رضا کاروں کے لئے۔ اسی طرح سینیٹائزرز کو ”آب حیات“ بنا کر پیش کرنے سے افراتفری پیدا ہوئی، جس کے رد کے لئے بعدازاں مہم چلائی جانے لگی کہ جراثیم کے خاتمے کے لئے بیس سیکنڈ تک کسی بھی صابن سے ہاتھ دھونا کافی ہیں،

تاہم اُس وقت تک سینیٹائزرز کی قیمت میں ہزار گنا اضافے سے منافع خور فائدہ اٹھا چکے ہیں، ٹشو و ٹوائلٹ پیپر کی بھی شدید قلت نے ہنگامی صورتحال پیدا کی اور عوام کو خوف کے ہیجان میں مبتلا کرکے دنیا بھر میں ریکارڈ کمائی کی گئی۔

کورونا وائرس کے شکار مریضوں کے لئے سب سے اہم تریں ضرورت وینٹی لیٹر قرار دیا جاتا ہے۔ وینٹی لیٹر مصنوعی طریقہ سے آکسیجن انسانی پھیپڑوں تک پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ کورونا وائرس سے شدید ترین مریضوں کے لئے وینٹی لیٹرز کی کمیابی نے اُن تمام ممالک کا چہرہ بے نقاب کردیا جو انسانیت کی تباہ کاریوں کے لئے جدید سے جدید ترین جنگی ساز وسامان بنانے کے لئے ہتھیاروں کی دوڑ میں لگے ہوئے تھے، لیکن اُن کے پاس اپنے شہریوں کی حفاظت کے لئے ایسے انتظامات ہی نہیں تھے جو کسی بھی وبا کے نتیجے میں انسانی جان کو ضائع ہونے سے بچانے میں مددگار ثابت ہوتے۔

اس اَمر کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف امریکا میں اس وقت محض ایک لاکھ 60 ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں جب کہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکا میں وینٹی لیٹرز کی ضرورت والے کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 95 لاکھ تک جا سکتی ہے۔ امریکا کے علاوہ اٹلی بلکہ برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک کو بھی وینٹی لیٹرز کی قلت کا سامنا ہے اور دنیا کی سب سے بڑی کار ساز کمپنیوں نے بھی حکومتوں کو وینٹی لیٹرز تیار کرنے کی پیش کش کی ہے اور اس حوالے سے جلد گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں وینٹی لیٹرز تیار کریں گی۔

وینٹی لیٹرز تیار کرنے والی امریکی و یورپی کمپنیوں کے ملازمین کے مطابق انہیں جدید ترین وینٹی لیٹر تیار کرنے کے لیے کچھ ایسے پرزوں کی ضرورت پڑتی ہے جو وہ چین سے خریدتی ہیں اور انہیں چین سے پرزوں کی دستیابی میں مشکل کا سامنا ہے۔ادھر چینی کمپنیوں کے مطابق انہیں دنیا کے کئی ممالک نے ہزاروں وینٹی لیٹرز کے آرڈرز دے رکھے ہیں اور اگلے ایک سے ڈیڑھ ماہ تک کمپنیوں کے آرڈرز بک ہیں۔

پاکستان، امریکا، برطانیہ، اٹلی، اسپین اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی جہاں فیس ماسک اور سینیٹائزرز کی قلت ہے، وہیں دیگر طبی آلات کی بھی عالمی سطح پر قلت دیکھی جا رہی ہے۔

قریباََ تین مہینے کے بعد دنیا اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کو روکنے کے لئے شہروں و قصبات کا لاک ڈاؤن کرنا ناگزیر ہے۔ سماجی رابطوں کو معطل کرنا و نقل و حرکت کو کم کرنے سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے۔ کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے واحد طریقہ جو اس وقت سامنے آیا ہے وہ ”لاک ڈاؤن“ ہے جو دنیا میں تباہی مچانے والے ممالک میں حکومتوں نے مجبور ہوکر اختیار کیا ہوا ہے۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لاک ڈاؤن سے کورونا وائرس کی روک تھام کس طرح ممکن ہے تو اس پہلو پر تھوڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ ماہرین طب کے مطابق کسی بھی صحت مند انسان کے سماجی میل جول و رابطوں سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ خطرناک حد تک تیزی سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتا ہے، مریض کے ہاتھ ملانے یا گلے لگانے سے انسانی جسم میں کورونا وائرس تیزی سے سرایت کرجاتا ہے،

لاک ڈاؤن کا مقصد یہی قرار دیا جارہا ہے کہ اس طرح کورونا وائرس کو محدود کرکے اُن متاثرین تک پہنچا جاسکتا ہے جو کسی نہ کسی صورت اس وائرس سے متاثر ہوچکے ہیں لیکن علامات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے سماجی رابطوں کی وجہ سے یہ پھیلاؤ کا سبب بن کر خطرناک صورتحال اختیار کرسکتے ہیں، اس وقت چین کے بعد اٹلی، ایران، و دیگر ممالک اس کی مثالیں ہیں کہ ان ممالک میں عوام نے احتیاطی تدابیر اختیار میں سہل پسندی کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں ہزاروں قیمتیں جانوں کا نقصان ہوا اور لاکھوں جانیں اس وقت موت کی دہلیز پر ہیں، ہر گزرتا وقت انسانی جانوں کے لئے بڑی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔

احتیاطی تدابیر میں ماہرین صحت کے مطابق باقاعدگی سے ہاتھ دھونا، ماسک کا استعمال، کھانسی اور چھینک کے وقت ٹشو پیپر یا رومال کا استعمال یا عدم دستیابی کی صورت میں کہنی سے ناک کو ڈھانپ لینا اس وائرس سے انسان کو محفوظ بناتا ہے۔ کورونا وائرس کے مشتبہ مریض سے بغیر حفاظتی اقدامات یعنی دستانے یا ماسک پہنے بغیر ملنے سے گریز کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق گوشت اور انڈوں کو اچھی طرح پکانا بھی حفاظی تدابیر میں شامل ہے۔ نزلہ اور زکام کی صورت میں پرہجوم مقامات پر جانے سے اجتناب اور ڈاکٹر سے تفصیلی طبی معائنہ کرانا بھی اس مرض سے بچاؤ کے لیے فائدہ مند ہے۔ کورونا وائرس کی علامات عام فلو کی طرح ہی ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق بخار، کھانسی، زکام، سردرد، سانس لینے میں دُشواری کورونا وائرس کی ابتدائی علامات ہو سکتی ہیں۔لیکن ضروری نہیں کہ ایسی تمام علامات رکھنے والا مریض کورونا وائرس کا ہی شکار ہو۔

البتہ متاثرہ ممالک سے آنے والے مسافروں یا مشتبہ مریضوں سے میل جول رکھنے والے افراد میں اس وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔اگر بیماری شدت اختیار کر جائے تو مریض کو نمونیہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نمونیہ بگڑ جائے تو مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ماہرین صحت کے مطابق انفیکشن سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک 14 روز لگ سکتے ہیں۔ لہذٰا ایسے مریضوں میں وائرس کی تصدیق کے لیے اُنہیں الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔

پاکستان اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں بدترین صورتحال کا سامنا کررہا ہے، صوبائی حکومتوں کی جانب سے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات پر عوام میں پزیرائی کا نہ ہونا ایک بڑی خطرناک علامت ہے۔صوبائی حکومتوں نے اپنے طور پر لاک ڈاؤن کرتو دیا ہے لیکن دنیا کے دیگر ممالک بالخصوص چین، اٹلی، امریکا کی طرح پاکستان میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لئے عوام کی جانب سے غیر محتاط رویئے نے خدشات بڑھا دیئے ہیں کہ ٹریول ہسٹری نہ ہونے کے باوجود مقامی طور پر کورونا وائرس تیزی سے پھیلتا جارہا ہے اور خدا نخواستہ بے احتیاطی کی وجہ سے متاثرین کی تعداد میں یک دم اضافہ ہونے کے خدشات سے متاثرین کو طبی سہولیات فراہم ہونے میں شدید دقت کا سامنا ہوگا۔

بالا سطور میں امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک میں طبی آلات کی کمی کو سامنے رکھتے ہوئے اگر پاکستان جیسے ملک کی صحت عامہ کی عمومی صورتحال پر غور کیا جائے تو مستقبل کا بھیانک نقشہ ابھر کر سامنے آتا ہے، جس کا تصور بہت وحشت ناک ہے۔ اس مرحلے پر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی اُن سازشو ں و منصوبوں کو ایک جانب رکھنا ضروری ہے،کیونکہ کورونا وائرس پاکستان میں تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہا ہے۔

اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز کی سہولیات انتہائی ناکافی ہیں، ان حالات میں میڈیکل اسٹاف جس طرح کام کررہا ہے وہ قابل تحسین ہے، لیکن قرنطینہ بنانے کے باوجود احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے کے سبب، موجودہ صورتحال کو تسلی بخش قرار نہیں دیا جاسکتا۔

سندھ حکومت نے پہل کرتے ہوئے کئی اہم اقدامات کئے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی حاصل کی، لیکن اس کے باوجود دیکھنے میں یہی آیا کہ بین الصوبائی راستے بند نہ ہونے کے سبب عوام کو گھروں میں محدود رکھنے کی حکمت عملی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکے گی۔ حکومت سندھ نے سخت لاک ڈاؤن کیا ہے لیکن وفاق کی جانب سے ملک گیر لاک ڈاؤن نہ کئے جانے کے فیصلے کے سبب صوبوں و وفاق میں تناؤ بڑھتا واضح نظر آرہا ہے، حالاں کہ وزیر اعظم کی جانب سے ملک گیر لاک ڈاؤن کے احکامات جاری نہ کئے جانے کے باوجود 80فیصد حصوں میں صوبائی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ہے،

صوبہ پنجاب، خیبر پختونخوا، جہاں تحریک انصاف کی صوبائی حکومتیں ہیں، نے بھی جزوی لاک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے اور فوج سے مدد طلب کی ہے، تاہم عوام کی جانب سے اپنی مدد آپ کے تحت کورونا وائرس کی سنگینی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا۔ یہ ایک افسوس ناک عمل ہے۔ تادم تحریر دنیا بھر میں پانچ لاکھ کے قریب کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کی تصدیق کی جاچکی ہے۔ جن میں ہلاکتوں کی تعداد 22ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جب کہ صحت مند افراد کی تعداد ایک لاکھ 20ہزار کے قریب ہے۔

یہ اَمر تسلی بخش ضرور ہے کہ کورونا وائرس ایک ایسا جان لیوا مرض نہیں ہے جو آنا فاناََ انسانی یا جنگلی حیات کو ختم کرسکے، جتنی بھی ہلاکتیں سامنے آرہی ہیں اُس میں زیادہ تر وہ افراد ہیں جنہیں بروقت طبی امداد نہیں مل سکی یا پھر عمر زیادہ ہونے کے باعث قوت مدافعت کی کمزوری سی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔

یہاں یہ اَمر بھی سامنے آیا کہ ضروری نہیں کہ50برس سے زائد العمر افراد کو ہی خطرات لاحق ہوں گے،بلکہ جواں سال متاثرین کو بھی زندگیاں کھونا پڑی ہیں، جس کی مثال کورونا وائرس کے خلاف کام کرنے والے پاکستان کے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی ہیں جنہوں نے وائرس کی تباہ کاریوں کی باوجود اپنے جان خطرے میں ڈال کر انسانوں کی جان بلا امتیاز رنگ و نسل اور مذہن مسلک بچانے کی کوشش کی۔

پاکستانی عوام کو عالمی ادارہ صحت اور حکام کی جانب سے دی جانے والی ہدایات کو جنگی صورتحال سمجھ کر سنجیدگی سے لینا ہوگا، غیر سنجیدگی ایک ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے اور اس کے بعد لاکھ چاہنے کے باوجود اپنے پیاروں سے محروم ہوسکتے ہیں، وقت سے قبل افسوس سے ہاتھ ملنے کے بجائے ضروری ہے کہ حکومتی اقدامات پر عمل کیا جائے۔ یہ ضرور ہے کہ لاک ڈاؤن کے منفی معاشی حالات بھی سامنے ہیں، لیکن عوام کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ان کے پاس اقدامات پر عمل نہ کرنے کے علاوہ دوسرا آپشن کیا ہے،

حکومت کی جانب سے ریلیف ملنا، اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے، لیکن یہ بھی نہ ملے تو کیا کورونا کی تباہیوں کو روکا جاسکتا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک، اپنی معاشی قوت کو وقت کے ساتھ سنبھالنے میں کامیاب ہوجائیں گے، لیکن پاکستان جیسے ترقی پزیر اور قرضوں میں ڈوبی عوام خود کو قیامت خیزیوں کے بعد کس طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکے گی اس پر ہر ایک شخص کو سوچنے و سمجھنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئیے:
کرونا وائرس: بچائو کے لئے یہ کام کرنا ہرگز مت بھولیے
کرونا وائرس:علامات، احتیاط اورعلاج
10 سیکنڈز میں کورونا کی تشخیص، پاکستانی طلبہ نے حیران کردیا

عالمی وبا کے خاتمے کے آثار تاوقت دکھائی نہیں دے رہے، یہی وجہ ہے کہ ہمیں چار و ناچار کورونا وائرس سے بچنے کے لئے حفاظتی اقدامات اپنی مدد آپ کے تحت ہی کرنا ہوگا۔حکومت سے گلہ اور ریاست کی جانب سے ریلیف کی توقعات اپنی جگہ۔ سیاست و اختلافات بھی محفوظ رکھیئے، لیکن اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کے خلاف لڑ رہی ہے،

ہمیں اس موقع پر اللہ تعالی کی جانب رجوع کرنا چاہیے۔ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے کہ آج ایک ایسے وائرس نے پوری دنیا کو ہلادیا ہے جو قیامت صغریٰ کا منظر پیش کررہا ہے۔عالمی وبا پر حکومت و اپوزیشن کا ایک صفحے پر اتفاق رائے کا پیدا نہ ہونا، مسائل کو کم کرنے کے بجائے بڑھائے گا جو کسی کے بھی حق میں بہتر نہیں قرار دیا جاسکتا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں