مسزعالیہ منصور، ڈائریکٹرمیڈیا سیل جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان

” گھروں میں رہنے والی مائیں ہاؤس وائف نہیں ہوم میکر ہیں“

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مسزعالیہ منصور، ڈائریکٹرمیڈیا سیل جماعت اسلامی حلقہ خواتین پاکستان سے گفتگو

شبانہ ایاز، صائمہ افتحار:

سوال : ٹی وی و سوشل میڈیا کی مصروفیات نے خواتین کی نجی زندگی کو کس حد تک متاثر کیا ہے ؟

مسزعالیہ منصور : جدید دور کی ابلاغی ایجادات جہاں فائدہ مند ہیں وہاں ان کا غیر ضروری استعمال اور عادت نہ صرف خواتین بلکہ ہر عمر اور ہر صنف کے لئیے نقصان دہ ہے۔

خواتین کے لئے پہلے ٹی وی چینلز کے مارننگ شوز اور اب فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ کا حد سے بڑھتا ہوا شوق (اور اگر اسے لت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ) نجی زندگی کے لئے انتہائی مضر اور نقصان دہ ثابت ہورہا ہے۔ وقت کے زیاں کے ساتھ ساتھ مادیت پرستی، مقابلے کی دوڑ، کبھی احساس برتری کبھی احساس کمتری نے ذہنی یکسوئی کو متاثر کیا ہے۔

ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی مگر سوشل میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا وہاں پر ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ کوئی بھی خاتون خواہ ماں ہو یا بیوی ذہنی طور پر آسودہ نہ ہوگی تو لا محالہ اس کے اثرات گھریلو زندگی پر پڑیں گے اور محرومیت، یاسیت ، خود رحمی کی کیفیت میں مبتلا کوئی بھی انسان فیملی لائف میں نہ مطمئن رہ سکتا ہے اور نہ دوسروں کو مطمئن رکھ سکتا ہے۔

بحیثیت سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ میں اپنی بہنوں کو بتانا چاہوں گی کہ سوشل میڈیا پر سب سچ نہیں ہوتا۔ بہت کچھ جھوٹ اور ملاوٹ بھی ہے۔ واٹس ایپ اور فیس بک پر آئی ہر خبر، ہرپوسٹ ، ہر ویڈیو اعتبار کے لائق نہیں ہوتی ۔ نہ ہی مستند ہوتی ہے لہذا بلا تصدیق و تحقیق غیر ضروری میسجز فارورڈ کرنے کی عادت سے گریز کیجئے۔ اپنا وقت بھی بچائیے اور دوسروں کا بھی۔

سوال: پہلے خواتین گھرداری کے ساتھ بچوں کی تربیت کے لۓ بھی وقت نکالتی تھیں، آج ہر خاتون وقت کی کمی کا شکار ہے۔ آپ کے خیال میں اس کی کیا وجوہات ہیں؟

مسزعالیہ منصور : وقت کے ساتھ حالات ماحول، رہن سہن کے طریقے حتیٰ کہ اقدار و روایات سب تبدیل ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو گلوبلائزیشن ہے۔ یقیناً معاشی ناہمواری بھی ایک اہم وجہ ہے مگر اس کے ساتھ ہمارا طرز زندگی بہت حد تک تبدیل ہوا ہے۔ پہلے خواتین کے لئے گھر اور بچے ہر چیز سے مقدم تھے مگر آج معاشرے میں ایک سوچ پرورش پارہی ہے کہ جوعورت گھر داری کرتی ہے وہ کچھ نہیں کرتی۔ لہذا کہیں حقیقی ضرورت ، کہیں شوق اور کہیں اسٹیٹس فوبیا نے عورت کو باور کرایا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکل کر ہی معاشرے میں کارآمد رول ادا کرسکتی ہے۔

آج کی ماں یقیناً اپنے بچوں کی فکر کرتی ہے، انہیں اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتی ہے، ان کی ہر محرومی دور کرنا چاہتی ہے ان کے لئے ہر تفریح مہیا کرنا چاہتی ہے مگر ان سب کے ساتھ وہ کوالٹی ٹائم انھیں نہیں دے پارہی کیونکہ بچوں کی تعلیم، ٹیوشنز، مہنگی مہنگی ایکٹیویٹیز کے لئے ماں اور باپ دونوں کو گھر سے نکلنا پڑا رہا ہے۔

جہاں معاشی مسائل نہیں تو وہاں خواتین کی اپنی مصروفیات اتنی ہیں جیسے فٹنس سینٹرز، بیوٹی پارلرز، کمیٹی پارٹیز ، وغیرہ وغیرہ کہ بچوں کی تربیت کا وقت تو متاثر ہو رہا ہے۔ ہم بے شک کتنا ہی عذرات دے دیں محض مہنگی تعلیم، انگلش میڈیم ،اور دیگر سہولیات تو یقیناً ہر ماں اور باپ اپنی بساط بھر فراہم کررہے ہیں مگر جو اقدار روایات، رشتوں کا ادب آداب ،عملی تربیت منتقل کرنا تھی اس میں ہم سب کوتاہی کررہے ہیں۔

میں ایک بات کہنا چاہوں گی کہ جو مائیں گھروں میں ہیں، وہ ہاؤس وائف نہیں ہوم میکر ہیں، انہیں اپنے اس رول پر فخر ہونا چاہئیے نہ کہ شرمسار۔ ورکنگ ماؤں کو بھی اپنی مصروفیات میں سے بچوں کی مادی ضروریات کے ساتھ ذہن اور روح کی پرورش پر بھر پور توجہ دینا چاہئیے۔

دین کا شعور، رشتوں کا احساس، ادب آداب، قومی زبان پر فخر، اقدار و روایات کی منتقلی بہت اہم کام ہے جو کمزور رہ گیا تو آنے والے دور میں اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ آج بھی بہت سی خواتین ہیں جو گھرداری کے ساتھ ساتھ ہوم بزنس یا ہوم انڈسٹری کے ذریعے خاندان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے شوہر کی معاون ہیں اور بچوں کی بہترین پرورش کررہی ہیں۔

میں سمجھتی ہوں کہ سب سے اہم چیز یہ ہے کہ خواتین کو ترجیحات طے کرنا چاہئیں اس طرح وہ اپنے لئے بھی وقت نکال سکتی ہیں اورگھربچوں کے لئے بھی ۔

خواتین کے لئے اپنا خیال رکھنا صحت مند تفریح یا سرگرمی میں حصہ لینا بھی اہم ہے کیونکہ ایک صحت مند ماں ہی صحت مند نسل معاشرے کو دے سکتی ہے مگر ماؤں کے لئے اپنے وقت کی تقسیم اور ترجیحات طے کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

سوال: شادی بیاہ و دیگر تقاریب کے مواقع پر خواتین غیر شرعی رسومات کو ترک کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہیں؟

مسزعالیہ منصور: ⁩یہاں پھر یہی بات ہے کہ جدید ذرائع ابلاغ نے مقابلے کی جس دوڑ میں لگایا ہے اس کی وجہ سے شادی بیاہ کی رسومات نے ایک بار پھر سر اٹھایا ہے۔ اس میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد بھی پیش پیش نظر آتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر خواتین کے نہ چاہنے کے باوجود یہ سب ہوتا ہے مگر ہاں اکثر رسومات بڑی بڑی منگنی کی تقاریب، منگنی کا لین دین جس کا لڑکی لڑکے کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔

مہنگے فیشن ڈیزائنر کے جوڑے،ڈھولکی،مایوں، مہندی کی تقاریب، مہنگے اور نرالے انداز کے فوٹو شوٹ اگر ان سب میں دیکھا جائے تو کہیں ارمان کے نام پر کہیں کسی اور عنوان پر بےتحاشہ اخراجات اور غیر شرعی رسومات کو ختم کروانے میں خواتین اسٹینڈ لینا چاہیں تو لےسکتی ہیں۔

اب تو یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ جن برادریوں میں جہاں مردوں خواتین کی علیحدہ حصے میں تقریبات ہوتی تھیں اب وہاں مکس گیدرنگ رواج پارہی ہے۔ اس کے پیچھے بھی۔ مادیت پرستی ، دکھاوا، اسٹیٹس فوبیا،اور خصوصاً مہنگے اسٹیج پردولھا دولہن کا فوٹو شوٹ کروانے کی سوچ ہے۔

یہاں پر معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گی کہ ہمارے اندر دکھاوا اور اسٹیٹس کی بیماری نے بہت تیزی سے جگہ بنائی ہے۔ ایسے میں خاندان کے بڑوں کا کردار بھی کچھ مختلف نہیں۔ مگر پھر بھی جہاں خواتین نے اسٹینڈ لیا وہاں کسی حد تک فرق بھی نظر آیا مگر یہ صرف خواتین کے کرنےسےنہیں ہوگا بلکہ خاندان کے تمام افراد ایک نہج پر سوچیں گے تبھی ممکن ہے یا پھر مختلف برادریوں کے فورمز سے کچھ اقدامات کیے جانے چاہئیں اور بڑوں کو چاہئے کہ ترغیب دینےکے لئے خود مثال بنیں ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں