گرلزہاسٹل، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد

ہاسٹل میں شادی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

پچھلی صدی کی رومان پرور داستان، کا نئی صدی ایڈیشن

نجمہ ثاقب۔۔۔۔۔۔

کہتے ہیں کہ جوڑے آسمانوں پہ بنتے ہیں. البتہ پچھلی صدی کی آخری دہائی میں کچھ جوڑے اسلامی یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس میں بھی بنے جس میں مشیت الہی کے ساتھ ساتھ کچھ ہاتھ استاد راجہ بشیر (شریعہ اینڈ لاء فیکلٹی) کا بھی تھا۔ راجہ صاحب (اللہ انہیں غریق رحمت کرے) کا خمیر خدمت خلق سے اٹھا تھا۔

جامعہ میں چھوٹے موٹے مسئلے تو چلتے ہی رہتے تھے جنہیں نبٹانے میں مدد کے لیے طلباء وطالبات ان کا گھیراؤ کیے رکھتے. دوسری جانب غم دوراں کے ہاتھوں ستائے گئے والدین بھی اکثر اوقات ان سے رابطے میں رہتے۔ نتیجتاً راجہ صاحب چمن سے کچھ کلیاں لالے کی اور کچھ پھول گلاب کے چنتے اور اپنے تئیں ایک رنگ رنگیلا ہار پرو ڈالتے۔ ان ہار پھولوں کی بعض گانٹھیں اتنی مضبوط لگیں کہ ابھی تک بڑی پائیداری سے چل رہی ہیں. جبکہ دو ایک جگہوں پہ نازکی حد سے بڑھی اور لڑی تڑک کر کے ٹوٹ گئی جس میں ظاہر ہے راجہ صاحب کا کوئی قصور نہ تھا۔

لیکن آج میں جس بیاہ کا تذکرہ کرنے چلی ہوں وہ خالصتاً عرب امریکہ گٹھ جوڑ کا نتیجہ تھا۔ عائشہ کا تعلق ملک سوڈان کے اس علاقے سے تھا جس کے باشندوں کے قد تاڑ کی طرح نکلتے، رنگ توے سےزیادہ کالے اور بال نیچے کی طرف بڑھنے کی بجائے اپنے محور ہی کے گرد گھوم گھام گچھوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

دوسری جانب داؤد کا تعلق ریاست ہائے متحدہ امریکہ سے تھا۔ پلا پلایا متشرع جوان جس کے آباؤ اجداد کو کسی زمانے میں سفید چمڑی والے آقا غلام بھرتی کرکے ریڈ انڈینز کی زمینوں پہ لائے تھے۔ اس نے عین عالم شباب میں اسلام قبول کیا اور بحر اوقیانوس کی لہروں کے ساتھ ساتھ بہتا ہندوستانی پانیوں تک پہنچا اور اسلامی یونیورسٹی کے دوارے ہوا۔ جہاں قدرت نے اس کا ساتھ عائشہ کے ساتھ باندھ دیا۔

عائشہ چار نمبر ہاسٹل میں رہتی تھی۔ پاکستان میں اس کی بہن کا کنبہ براےُ ملازمت کراچی میں مقیم تھا لہذا یہ شادی ہاسٹل ہی میں ہونا ٹھہری۔

ہاسٹل نمبر چار اپنی نوعیت کا ایک منفرد ہاسٹل تھا، ایک تو اس لیے کہ اس میں ہم جیسے نابغہ رہتے تھے۔دوسرے یہ دیگر تمام ہاسٹلز کی نسبت گندا اور پرانا سمجھا جاتا تھا۔ ایف ایٹ کی گلی نمبر 31 میں واقع ہاسٹل نمبر چار میں جوایک مرتبہ آجاتا پھر جانے کا نام نہ لیتا۔ اس کی وجہ یہاں کا اپنائیت بھرا ماحول تھا۔ کیا عربی کیا عجمی، کیا گورا کیا کالا اور کیا ستواں اور کیا پھینا اور چپٹا سب باہم شیر وشکر تھے۔

چائینیز پاکستانیوں کی شوروغوغا کرنے والی طبیعت سے صرف نظر کرتے اور پاکستانی ان کے عجیب وغریب بدبو والے مصالحوں پہ کسی کونے میں منہ دے کے ناک بھوں چڑھاتے۔ افریقی اپنی خاص فاصولیہ بھری ڈشیں چکھاتے اور انڈونیشیا والے مسکراتی آنکھوں سے خیر سگالی کا پیغام دیا کرتے۔ اس بھائی چارے کے ماحول میں مشکل اس وقت سوا ہو جاتی جب کوئی چینی لڑکی اپنی خالص دیسی ڈش پکا کر لاتی اور چاہتی کہ اس کے سامنے اسے کھا کر داد دی جاےُ، اور یار لوگ اس وقت بری طرح پھنستے جب وہ نہ نگلی جاتی نہ اس مشتاق حسینہ کے سامنے اگلی جاتی.

خیر ذکر ہو رہا تھا شادی کا!
پورا ہاسٹل زور وشور سے اس کی تیاروں میں لگ گیا۔ ایک روز پہلے رات کو پاکستانی لڑکیوں نے کامن روم میں رونق لگائی. ایک دوسرےکے بقچوں میں تانک جھانک کرکے پیلا دوپٹہ نکالا اور عائشہ کو اوڑھا کر پرات پہ لولے لنگڑے گانے گاےُ۔

افریقیوں نے سادی اور پاکستانیوں نے ڈیزائن والی مہندی لگائی۔ لڑکیوں نے الم غلم منہ پہ تھوپ کر رگڑے لگاےُ اور انہیں اچھا خاصا چمکا ڈالا۔ صبح صبح کیٹرنگ والوں نےآکے پچھلے لان میں میزیں سیٹ کیں. سب ابھی تیار ہو رہے تھے کہ افریقی برادری لال پیلے اور ہرے پہناووں میں بہار دکھلانے لگی. (افریقی لوگ عموماً گہرے رنگوں کے بڑے بڑے پھولوں والے ملبوسات پسند کرتے ہیں)

عائشہ کی روم میٹ جویریہ نابا کوزا یوگنڈا سےتھی. ہنس مکھ جویریہ یو گینڈا کہنے پہ برا ماننے کی بجائے قہقہہ لگا کر ہنستی. اور اردو میں ’مجھے تم سے پیار ہے‘ کی ریڑھ مار دیتی تھی. شادی کے روز اس نے اپنے رواج کے مطابق خوشبودارتیل سے اپنی کھال یوں پالش کی کہ اس کی آبنوسی رنگت شیشے کی طرح چمکنے لگی.

چینی انڈونیشینی کاشغری اورقازقی لڑکیاں اپنے مخصوص ملبوسات میں چہک رہی تھیں اور پاکستان چونکہ میزبان ملک تھا لہذا اس کے مکین بھرپور تیاریوں کے ساتھ خود کو خوامخواہ ذمہ دار ثابت کرنے پہ تلے ہوےُ تھے. سہ پہر کو عائشہ کہیں سے تیار ہوکے آئی تو نکاح کا غلغلہ اٹھا۔ بارات یقینناً آچکی ہو گی جو گرلز ہاسٹل میں تو ہرگز داخل نہیں ہوئی تھی.

بارات میں چند اساتذہ اور دولہا کے طالب علم ساتھی تھے لیکن انہیں کہاں بٹھایا گیا. بخدا اس سے متعلق یاد داشت ساتھ نہیں دے رہی.
دلہن کے آتے ہی دف اٹھا لی گئی۔

عربی لڑکیوں نے دلہن کے لیے گانے گائے اور منہ پہ ہاتھ کی اوٹ بناتے ہوےُ وہ مخصوص آوازیں نکالیں جو کسی بھی خوشی کے موقع پہ نکالی جاتی ہیں. (یہ آوازیں میں نےپہلی مرتبہ عبداللہ عزام کے بیٹے خذیفہ یا محمد کی شادی میں سنی تھیں۔ وہیں پہ عربوں کا بالوں والا رقص دیکھا جسے دیکھ کے درباروں پہ صوفیوں کو حال آنا یاد آتا ہے. کبھی موقعہ ملا تو اس کا تفصیلی حال لکھوں گی)

مہمانوں نے روغنی نانوں کے ساتھ قورمہ اڑایا. بسبوسہ اور زیت کے ساتھ زعتر چکھا. بقلاوہ کھایا. اور عائشہ کو خوشی خوشی رخصت کرنے کو تیار ہو گئے.

سکھیوں کی دعاؤں کے سائے میں عائشہ پیا گھر سدھاری. اور ہم نے اپنے اپنے کمروں کی راہ کی.
یہ جوڑا اسلام آباد ہی میں کراےُ کے ایک گھر میں منتقل ہوگیا۔ کچھ عرصے کے بعد داؤد امریکا چلا گیا. عائشہ ابھی جانے کی تیاریوں میں تھی کہ وہ عمرے کے لیے حرم آیا اور ارض مقدس پہ جان جان آفریں کے سپرد کر دی. اللہ تعالی اس پہ اپنی رحمت اور مغفرت کے دروازے کھولے. آمین .


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

2 پر “ہاسٹل میں شادی” جوابات

  1. مدثر محمود سالار Avatar
    مدثر محمود سالار

    اسلامی یونیورسٹی کی کئی شادیاں مشہور ہیں۔ ایک شادی احمد عزام کی بھی ہوئی تھی ایک پاکستانی طالبہ سے۔ احمد عزام غالبا عبداللہ عزام شہید کے بھانجے ہیں۔

  2. نصرت یوسف Avatar
    نصرت یوسف

    یہ موت جانے والے کے لیے کیسی تھی، یہ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن اس موت نے کوئی یتیم نہیں کیا، (ا متن سے اخذ) یہ بھی رحمت.