ہمارے بابا جی

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹرشائستہ جبیں:

وہ اپنی والدہ کے سات بیٹوں میں زندہ بچ جانے والے اکیلے بیٹے تھے. باقی چھ میں سے کچھ بچپن میں اور کچھ جوانی تک پہنچ کر انتقال کر گئے. اس لیے اس اکلوتے بیٹے کے ساتھ ماں کا والہانہ اور جذباتی لگاؤ تھا.

دیہات میں تعلیم کا خاطر خواہ انتظام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں اور دو ہم عمر چچا زاد بھائیوں کو تقریباً اسی کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک بہترین رہائشی سکول میں داخل کرایا گیا، رابطے کی کوئی خاطر خواہ سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ان کی والدہ بیٹے کی جدائی میں رات رات بھر بےقرار رہتی تھیں.

جب انہوں نے نمایاں نمبروں کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انہیں کالج کی تعلیم کے لیے لائلپور بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو ان کی والدہ کے بیٹے کی مزید دوری برداشت نہ کرنے کے حوصلے کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیا گیا. ان کے ایک چچا جو محکمہ مال میں پٹواری تھے، چاہتے تھے کہ ان کا تعلیمی سلسلہ جاری رہے، اس مقصد کیلئے انہوں نے ان کو فوج میں بھرتی کرا دیا تاکہ وہ ساتھ ساتھ پڑھنا بھی جاری رکھیں.

لیکن علم ہونے پر والدہ نے ایک بار پھر زمین آسمان ایک کر دیا کہ ان کے جیٹھ ان کے اکلوتے بیٹے کو لام (پہلی جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا اور انگریزوں نے برصغیر سے جوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی لڑائی میں جھونک دی تھی. پنجاب کے دیہات میں اس دور میں فوج کی بھرتی کو ”لام“ کہا جاتا تھا کہ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا، صرف موت کی اطلاع آتی ہے) کے لیے بھیج دیا ہے.

والدہ کے اس رونے دھونے پر چچا ان کا دماغی توازن ٹھیک نہ ہونے کا تاثر دے کر واپس لے آئے. چچا کی شدید خواہش تھی کہ قابل بھتیجا کاشتکاری کرنے کی بجائے اپنی قابلیت کے مطابق ملازمت کرے. اس لیے انہوں نے محکمہ مال میں تحصیلدار کی آسامی کے لیے امتحان دلوایا. ان کے انتخاب اور تعیناتی کا خط جب گھر آیا تو والدہ نے وصول کیا اور ڈاکیے سے خط کے مندرجات کا علم ہونے پر اسے چھپا دیا اور چھ ماہ بعد بیٹے کو اس وقت دکھایا جب ان کے ملازمت پر پہنچنے کے مقررہ وقت کو تین ماہ سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا.

اس کے بعد انہوں نے مزید تعلیم یا ملازمت کی خواہش کو ترک کرکے خود کو کاشتکاری کے لیے وقف کردیااور تمام عمر والدہ کی نظروں کے سامنے رہنے کا فیصلہ کیا. خود زمینیں کاشت کرتے اور صبح سے شام تک جسمانی مشقت میں مشغول رہتے. آبائی زمین میں مزید زمینیں خرید کر اپنی محنت سے اضافہ کیا اور تمام عمر پوری دیانتداری سے مٹی کو سونا بنانے میں گزار دی.

چچا زاد کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے. خاتون بہت جی دار، باہمت ،با رعب اور زورآور تھیں اور یہ ہمیشہ سے کم گو، نرم مزاج، دھیمے لہجے اور انداز کے مالک تھے. دونوں کی جوڑی بہت مثالی رہی. گھر کے تمام امور خاتون خانہ کے سپرد تھے ہی ساتھ وہ اپنی سمجھداری اور مشاورت کی بہترین صلاحیت کی وجہ سے زمین داری کے معاملات میں بھی ان کی معاون ثابت ہوئیں.

گاؤں بھر کے مرد و خواتین اس مثالی جوڑے کے پاس مدد ومشاورت کے لیے آیا کرتے تھے، لوگ ان کے پاس رقم، زیورات بطور امانت رکھوایا کرتے، جھگڑوں میں تصفیہ کراتے، ضرورت مندوں کی خاموشی سے مدد کر دی جاتی اور جہاں اصلاح کی ضرورت ہوتی، خاتون خانہ اپنے مخصوص دبنگ انداز میں سرزنش کر کے معاملات درست کر دیتیں. یہ مثالی جوڑا ہمارے ناناجان اور نانی اماں کا تھا. جو ہماری پیدائش سے بھی قبل فریضہ حج ادا کر چکے تھے اور ہم نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے انہیں نماز، روزہ اور تہجد کا پابند پایا.

آج بھی کہیں لفظ متقی، پرہیزگار پڑھتی ہوں تو ان دونوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں. نانی اماں ہر اصول پسند شخص کی طرح مزاجاً سخت تھیں لیکن نانا جان (جنہیں ہم سب بابا جی کہا کرتے تھے) بہت نرم خو اور دھیمے مزاج کے صلح جو شخص تھے،جنہیں کبھی غصہ کرتے یا بلند آواز میں بات کرتے کبھی نہیں دیکھا گیا.

زیرک، معاملہ فہم، زمینوں کے مقدمات وغیرہ سے متعلق امور کے ماہر تھے اور اس حوالے سے ہر ضرورت مند کی مدد خود پر لازم سمجھتے تھے. ہمدرد اور نیک طینت آدمی تھے جنہوں نے تمام عمر کسی کو کوئی نقصان یا تکلیف نہیں پہنچائی. کچھ ارواح کو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھیجتے ہی نیکی کے خمیر سے گوندھ کر ہیں. وہ ایسی ہی سعید روح تھے کہ جن کی موجودگی آسانی اور برکت کی ضامن تھی.

نانی اماں آخری چند سالوں میں فالج کے باعث معذور ہو کر بستر تک محدود ہو گئیں. ان کی شدید بیماری کے ان سالوں میں بابا جی نے دونوں بچوں یا مددگاروں کو ان کا ذاتی کوئی کام نہیں کرنے دیا، خود اپنے ہاتھوں سے ان کا ہر کام کرتے. نانی اماں روایتی بیوی تھیں جو اس بات پر روتی تھیں کہ بجائے اس کے وہ خاوند کی خدمت کرتیں، الٹا خاوند کو ان کی دیکھ بھال کرنا پڑ رہی ہے اور وہ اطمینان سے کہتے تھے ساری عمر تم نے میرا، گھر اور بچوں کا خیال رکھا، ہر طرح سے خدمت کی، اگر اب مجھے موقع ملا ہے تو مجھے بھی کچھ تو قرض اتارنے دو.

تقریباً پینسٹھ سال ایک ساتھ ایک گزارنے کے بعد نانی اماں رخصت ہوئیں اور ان کے بعد پندرہ سال انہوں نے اس صبر و ضبط سے گزارے کہ اکلوتے بیٹے، بیٹی یا بہو کسی کے لیے بوجھ نہیں بنے.وہ علاقے، برصغیر اور عالمی حالات کے حوالے سے زندہ انسائیکلوپیڈیا تھے. تمام عمر ریڈیو پر بی بی سی لندن کی اردو سروس سن کر اور مختلف اخبارات و رسائل کے مطالعہ سے اپنی اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کر سکنے کی تشنگی بجھانے کا سامان کرتے رہے.

آخری عمر تک یادداشت بالکل ٹھیک تھی اور وہ ایک صدی کے قصے، واقعات اور تجربات اتنے دلنشیں انداز میں بیان کرتے تھے کہ سننےسے جی نہیں بھرتا تھا. آپ بیتی اور جگ بیتیاں کسی ڈائری کی مانند ان کے سینے پر نقش تھیں اور وہ اکثر اس ڈائری کے من پسند اوراق ہمیں سنایا کرتے تھے. اپنی زندگی کے آخری سال میں عمر کے اثرات کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے، سماعت کا عارضہ لاحق ہونے کی وجہ سے کم سنائی دیتا تھا، لیکن ذہنی لحاظ سے آخر تک چاک و چوبند رہے.

اکلوتے بیٹے سے لگاؤ تو ہمیشہ سے تھا لیکن کم گو ہونے کی وجہ سے اظہار نہیں کرتے تھے، آخری سالوں میں یہ لگاؤ بہت زیادہ ہو گیا اور کھل کر اس کا اظہار کرتے تھے. تھوڑی دیر کے لیے بھی بیٹا نظر نہ آتا تو فشارِ خون میں کمی بیشی ہو جاتی. نتیجتاً بیٹا جو زمین داری، سیاست، ڈیرہ داری، شکار اور دوستوں کی مجالس کا ازحد رسیا تھا، نے ساری دلچسپیاں ترک کر کے خود کو ان کی خدمت کے لیے وقف کر دیا.

نماز پڑھنے یا زمینوں پر چکر لگانے جانا ہوتا تو بابا جی کو بتا کر، اجازت لے کر، واپسی کا وقت بتا کر جاتے اور بتائے گئے وقت میں لوٹ آتے. جس طرح انہوں نے سب کچھ چھوڑ کر ماں کی نظروں کے سامنے رہنے کو ہی مقصد حیات بنایا تھا، ویسے ہی اللہ نے ان کے بیٹے کی ہر دلچسپی مصروفیت ختم کرا کے انہیں باپ کے لیے مخصوص کر دیا،جنہوں نے خود عمر رسیدہ ہونے کے باوجود باپ کی خدمت کا حق ادا کر دیا.

اس سال کے آغاز سے ہی فشارِ خون میں کمی بیشی کا مسئلہ شروع ہوا اور بڑھاپے اور کمزوری کے باعث نقاہت طاری ہو جاتی. بار بار دریافت کرتے کہ رمضان کے آنے میں کتنے مہینے ہیں. جب رمضان المبارک کا آغاز ہوا تو سب بچوں سے کہا کہ میری آسانی کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس ماہ مبارک میں اپنے پاس بلا لے.

کہتے تھے ایک سو ایک سال کا ہو گیا ہوں، الحمداللہ تین نسلیں دیکھ لی ہیں، بہت جی لیا، اب واپس جانے کی خواہش ہے. گیارہویں روزے کی شام سے سانس لینے میں دشواری کی تکلیف کا آغاز ہوا اور صبح بہ وقت فجر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے. شدید گرمی والا دن تھا، لیکن جیسے ہی نماز جنازہ کا وقت قریب ہوا، ایک دم صاف آسمان اور چمکتی دھوپ بھرا گرم دن آندھی بھرے بادلوں سے بھر گیا، تیز ہوا اور پھر ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی.

جنازہ کے بعد بارش رک گئی لیکن آسمان بادلوں سے ڈھکا رہا. میرے بھائی کے مطابق میت قبرستان لے جاتے ہوئے ایسا لگتا تھا جیسے بادل ساتھ ساتھ آ رہا ہے. تدفین کے بعد قبر پر چھڑکاؤ کا مرحلہ تو ایک دم تیز بارش شروع ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے خود ان کی تازہ بنی قبر پر چھڑکاؤ کا انتظام کر دیا. بے شک نیک لوگوں کی موت سے لے کر تدفین تک اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے مناظر دکھاتا ہے.

موت کے بعد اس قدر پرسکون چہرہ تھا جیسے نیند میں ہوں اور ہم آواز دیں گے اور آنکھیں کھول دیں گے. ان کے چہرے کے اس پرسکون تاثر پر نظریں جمائے میرے کانوں میں بے ساختہ سورہ الفجر کی آخری آیات گونج رہی تھیں:

یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ. فادخلی فی عبادی. وادخلی جنتی.
ترجمہ : (البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے. اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر آجا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی. اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں. اور داخل ہو جا میری جنت میں.

سوچتی ہوں وہ اس لیے اتنے پر سکون ہوں گے کہ ان کی ماں ایک مدت سے ان کی منتظر ہے، اسے کیسے اتنا عرصہ بیٹے کو بغیر دیکھے چین آیا ہو گا. وہ کتنی خوش ہوں گی کہ بالآخر ان کا بیٹا ان کے پاس پہنچ گیا. ان کی شریکِ سفر اپنے مخصوص لہجے میں گھن گرج کر کہیں گی:
حاجی صاحب بڑا دل لگا آپ کا میرے پیچھے، اتنے سالوں بعد آنے کا دل کیا.

ان کے چچا زاد بھائی، حقیقی بھائی قطار بنائے گھڑے ہوں گے، آئیے بھایا جی آئیے آپ کا ہی انتظار تھا، ان کے باپ، چچاؤں نے کہا ہو گا… بڑی دیر لگائی بیٹے، تمہارے بغیر ہماری محفلیں ادھوری تھیں. تم آئے ہو تو خاندان مکمل ہوا.

خالقِ حقیقی سے ملنے اور جملہ خاندان کے اتنے پیار سے منتظر ہونے کا ہی شاید وہ احساس ان کے پر نور چہرے پر سکون بن کر ہلکورے لے رہا تھا. وہ تو اپنے لیے منتظر لوگوں کے پاس پہنچ گئے لیکن ہمارے لیے دعائیں کرنے والا آخری بے لوث رشتہ بھی اپنے ساتھ لے گئے:

جا او یار حوالے رب دے، میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

6 پر “ہمارے بابا جی” جوابات

  1. Zakia Suleman Avatar
    Zakia Suleman

    Waooo what an amazing journey.۔۔۔n how beautifully described 😍

    1. شیبا ء عر فا ن Avatar
      شیبا ء عر فا ن

      السلام و علیکم۔ڈا کٹر صا حبہ آپ کا انداز بیان اور منتحب عنوان سحر انگیز ہے۔آج تو الفاظ نہں ہے اللہ پاک ہم سے راضی ہو جا ے جیسے وہ اپنےنیک بندوں سے ہوتا ہےجیسے بابا جی۔شکریہ

  2. Neelam sial Avatar
    Neelam sial

    Buhhhhtttttt hi khubsurat tareky sy bayan Kia..Allah unky darjat buland farmaye..ameen..sum ameen

    1. Ramsha Raza Avatar
      Ramsha Raza

      What a beautiful column dr.. Boht hi khoob tehreer kia hy ap ny unki whole life ko.. Amazing.. May Allah pak grant him higher place in jannah.. Ameen❤

  3. حفظہ علی.. Avatar
    حفظہ علی..

    No words Dr.. Rula diye ap ny to.. ALLAH hmen bhi hmesha apni Rehmat k saye mn rakhy.. Ameen

  4. Tariq Hassan Pervez Avatar
    Tariq Hassan Pervez

    AOA Dear Dr Sahiba! In this story,your”s selection of words are unique. Explanation of Baba ji life is glorious. You have scoop all points of life even weather in excellent paragraph. May God rest the soul of your grand father in peace,Aamin
    Stay blessed