آغوش، الخدمت فائونڈیشن

یتیمی کیا ہوتی ہے!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فریدہ یوسفی کے قلم سے:

یتیمی کیا ہوتی ہے، اس کا درد کیسا ہوتا ہے، یہ کیسے ہجوم میں تنہا کردیتی ہے، کیسے دھوپ میں جھلسا دیتی ہے، یہ وہی جان سکتا ہے جو اس کرب ناک سفر سے گزرا ہو۔

جب ایک خوشحال ہنستی بستی دنیا باپ کے اچانک دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد 180 ڈگری سے گھوم جائے،

جب مرے ہوئے باپ کے احسان لوگ بھولنے لگیں، جب رشتہ دار چاہتے ہوئے بھی انجان بننے پر مجبور ہوجائیں، ماں کی ضرورت مند نظروں پر نگاہیں چرالیں، جب دو کنال کا پلاٹ جس دوست سے خریدا ہو وہ کہے کہ ابھی تو مرحوم نے پیسے نہیں دئیے تھے، جب نئے گھر کے لئے خریدا سامان جس کے گھر رکھوایا ہو وہ کہے مرحوم یہ ہمیں تحفہ دے گئے تھے۔

جن کے پاس جائیداد کی رکھوالی ہو تو وہ قاعدہ، ضابطہ رکھنا بھول جائیں، ہر سال چھٹیاں گزارنے بلائیں اور جب حویلی میں گھومتے پھرتے حساب کی ڈائری ہاتھ لگ جائے تو سال بھر کا خرچ ان دو ماہ کی چھٹیوں میں کاٹا ہوا ملے کہ جسے بڑا احسان سمجھا جاتا تھا، وہ دراصل اپنے ہی باپ کے پیسوں کا عیش تھا جسے لوگ کھاتوں میں کاٹ رہے تھے۔

جائیداد باہر جانے سے بچانے کی خاطر کم عمر بچوں کی بے جوڑ شادیاں کردی جائیں۔

کیا جانتے ہوں گے آپ کہ جب بیمار ماں ہمسائے کے گھر سے دس روپے منگوائے تو ہمسائے جھڑک کر بھیج دیں اور پھر زکوۃ کے چند سو روپے ہاتھ میں تھمائے جائیں تو ساتھ دس کام بھی گنوائیں کہ یہ کردیں۔

جب بتایا جائے کہ فلاں محلے کی کمیٹی کا چئیرمین ہے اس کے پاس جاؤ تو بچوں کا وظیفہ لگ جائے گا۔۔۔اور بیمار ماں وہاں جاکر گھنٹوں گرم گیراج میں بیٹھ کر آجائے کہ ”صاحب مصروف ہیں یہاں انتظارکرو“۔

اسکول فیس نہ ہو۔ یونیفارم نہ ہونے پر، کبھی فیس نہ ہونے پر کلاس میں کھڑا رکھا جائے یا باہر نکا ل دیا جائے۔

نہیں، کوئی نہیں جان سکتا کہ ایک یتیم چاہے امیر ہو یا غریب، اس کے ساتھ باپ کے بعد کیا گزرتی ہے۔
عزت سے لے کراس کے معمولات زندگی تک کو سخت چانجا جاتا ہے۔ اوڑھ پہن لیں تواس پر باتیں، کچھ اچھا کھاتے پیتے دیکھ لیں تو اس پر نگاہیں۔ کہیں گھومتا پھرتا دیکھ لیں تو اس کی پوچھ تاچھ ۔

بیمار بچے کی دوا لینا مشکل ہو تو ماں اپنی بیماری برداشت کرتی رہے، کہیں لوگ عزت کے رسیا ہوں تو کہیں یہ پیشکش کریں کہ اپنے بچوں کو ہمارے پاس چھوڑدو، چھوٹے موٹے کام کردیں گے، ہم ان کا خرچہ اٹھالیں گے۔

ایک تپتا ہوا صحرا جیسی یتیمی کا کاٹ لینے کے بعد معاشرہ مجھے نفسیاتی مریض کہتا ہے۔ میں ایک اچھا فرد بننا بھی چاہوں تو مجھے نہ تو رشتوں کا اعتبار رہا نہ ہی دوستوں کا یقین۔ سب اپنے اپنے مفاد اور حالات کے غلام ہیں۔

انسان یتیم ہو تو زندگی کے ہر مرحلے پر لوگ اسے ایسے ٹریٹ کرتے ہیں جیسے وہ کوئی فالتو سی چیز ہو دنیا میں، یا اس کا حق مار لیا جائے تو بھی کوئی مسئلہ نہیں، اسے کمتر چیز یا اترن یا ٹوٹا پھوٹا دے دیا جائے تو بھی خیر ہے یہاں تک کہ اپنے سب سے نالائق بچے کے لئے رشتہ چاہئے ہو تو کوئی یتیم لڑکی دیکھی جاتی ہے تاکہ اس پر ظلم زیادتی ہوتی رہے تو وہ چپ چاپ برداشت کرے کہ کون سا باپ زندہ ہے۔

وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا، یہ اللہ کا بہت بڑا احسان ہے۔ وقت کا دھارا بدل گیا۔ٓآج میرے بہن بھائی اور میں ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں الحمدللہ لیکن یقین مانیں یتیمی میں عزت نفس کا پل پل ہوتا قتل عام، زندگی کے وہ دن کبھی نہیں بھولتے جو ہم نے معاشرے اور لوگوں کے روئیوں کی بدصورتی میں کاٹے۔

الخدمت فاونڈیشن کا آرفن کئیر پروگرام سب سے الگ ایک معتبر پراجیکٹ ہے ۔ میں نے عبدالشکور صاحب کو سنا، آغوش سنٹرز کی ویڈیوز دیکھیں، کلثوم رانجھا صاحبہ کو سنا۔ یقین نہیں آیا کہ کوئی یتیم کو بھی عزت کے ساتھ اس کی ضروریات بغیر کسی تضحیک کے اس کے دروازے پر دے سکتا ہے۔ گزشتہ سال آرفن کئیر پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ وہاں بچوں کو فن فئیر سے مفت انجوائے کرتے دیکھ کر وہ سارے منظر گھوم گئے جب جھولے لینے غبارے خریدنے کو میری ماں کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے۔

آرفن کئیر میں بچے کی تمام ذمہ داری الخدمت فاونڈیشن اٹھاتی ہے،اس کا علاج اس کے اخراجات اس کی تعلیم،اس کی ماں کی صحت تک، جب میں نے سنا کہ ماں کی صحت کا خیال بھی ”الخدمت فاؤنڈیشن“ رکھتی ہے تو میرے دل سے بے شمار دعائیں نکلیں کیونکہ مجھے علم ہے ماں بیمار اور اس کی دوا کے پیسے نہ ہوں تو یہ ایک یتیم بچے کے لئے کس قدر تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔

آرفن کئیر میں بچہ اپنی ماں کے ساتھ رہتا ہے، اس کے اخراجات الخدمت بینک کے ذریعے ماں یا بچے کے اکاونٹ میں شفٹ کرتی ہے تاکہ کسی لائن میں لگ کر، کہیں انتظار کی کوفت میں، ہاتھ پھیلا کر، منہ چھپا کر وصول کرنے سے اس کی عزت مجروح نہ ہو۔

معلوم ہوا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے ”الخدمت“ کے آغوش سنٹر کے بچوں کو ان کے رشتہ داروں کے گھر بھیجا گیا تو ان کا خرچ ساتھ دیا گیا۔ اس گھر کے لئے راشن اور تحائف بھی بھیجے گئے اور اب عید پر بھی ان کو تحائف اور عیدی بھی بھیجی جائے گی۔ الخدمت آغوش سنٹر میں یتیم بچوں کی تعلیم وتربیت اور رہائش کا بہترین انتظام ہے۔

ٓآرفن کئیر کے بچوں کے لئے ماہانہ 4 ہزار روپے صرف اورآغوش سنٹر کے بچوں کے لئے ماہانہ 12 ہزار روپے صرف ۔۔۔۔ایک یتیم بچے کی عزت نفس اور اس کے اعتماد کے سامنے یہ رقم کچھ بھی نہیں۔

الخدمت فاونڈیشن اس کے عوض ایک یتیم بچے کو مستقبل کا ایک پراعتماد ،باصلاحیت اور ذہنی و جسمانی صحت مند انسان بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔

اللہ نے آپ کو نوازا ہے تو آگے بڑھئیے یہ وہ کارخیر ہے جو دنیا کو ایک اچھا انسان تو دے گا ہی آپ کی آخرت بھی سرخرو ہوجائے گی ان شا ء اللہ


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں