اسکارف-پہنے-ہوئے-بیوی-اپنے-شوہر-کے-ساتھ-مسکراتے-ہوئے

ملازمت پیشہ خواتین اور اچھی بیوی کا تصور

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب ہمارے ہاں خاتون خانہ کی ذمہ داریاں خانہ داری تک ہی محدود ہوا کر تی تھیں۔وہی عورت ’اچھی بیوی‘ کے تصور پر پوری اترتی تھی جو سلیقہ شعاری کے ساتھ گھر  بار سنبھالتی اور بچوں کی پرورش کا فرض سرانجام دیتی تھی۔تاہم وقت کے ساتھ ساتھ جہاں اور بہت سے نظریات اور تصورات میں تبدیلی آئی، وہیں روز افزوں مہنگائی اور بڑھتے ہوئے معیار زندگی کے پیش نظر ’اچھی بیوی‘کے تصور نے بھی روپ بدلا جس کے نتیجے میں غمِ روزگار بھی اس کی ذمہ داریوں میں شامل ٹھیرا۔ چنانچہ عورت نے مشرقی بیوی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی روایتی سمجھوتے کی چادر کی بُنت میں مزید کچھ ٹانکوں کا اضافہ کیا اور اس کے چھاؤں تلے غم روز گار کا اضافی بار بھی اپنے ناتواں شانوں پر اٹھالیا۔ لیکن کیا اس کا یہ اقدام تمام مسائل کا حل ثابت ہوا؟ اور وہ بد ستور ’اچھی بیوی‘ کے مقام پر فائز رہنے میں کامیاب ہوپائی؟ بد قسمتی سے اس کا جواب بلاجھجک اثبات میں نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس حقیقت سے آنکھیں چُرانا ممکن نہیں کہ جس معاشرے میں ہم رہتے بستے ہیں، وہاں ایک بیوی اگر شوہر سے زیادہ کمانے لگے تو یہ صورتحال بھی کبھی کبھی اس کے لیے ناپسندیدہ قرار پاتی ہے۔مرد کی انا کو عورت کی یہ برتری گوارا نہیں ہوتی۔

یہ صورتحال عموماً متوسط اور نچلے متوسط طبقے کی خواتین کو پیش آتی ہے جب وہ میدانِ عمل میں اترتی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو آزماتی ہیں۔ بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو یہ مسائل درپیش نہیں ہوتے، ان کے مسائل کی نوعیت قطعی مختلف ہوتی ہے جبکہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کا تو گویا فرض ہی یہی ہے کہ وہ کما کر لائیں اور گھر کے تمام افراد کے پیٹ کا دوزخ بھر نے کا بندوبست کریں۔

یہاں ستم ظریفی یہ ہے کہ اس طبقے کے بیشتر مرد انا وغیرہ کے چکر میں نہیں پڑتے اور مزے سے بیوی کی لائی ہوئی روٹیاں توڑتے اور اینڈتے رہتے ہیں۔ بیوی کے احسان مند ہونے کے بجائے اسے جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں۔ کچھ تو ایسے ہیں کہ جن کے ’نشے پانی‘ کا بندوبست بھی بیوی  ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ دیہی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی ہمیشہ سے جفاکشی میں اپنی مثال آ پ رہی ہیں۔ وہ نہ صرف مردوں کے شانہ بہ شانہ کھیتوں میں کام کرتی ہیں بلکہ اپنی دستکاریوں اور ہنرمندی کی بدولت بھی حتی المقدور کسبِ معاش میں شامل رہتی ہیں۔ لیکن انہیں دن، رات کی محنت کے صلے میں ستائش کے بجائے سخت سست ہی سننے کو ملتی ہیں۔

بات ہو رہی تھی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ملازمت پیشہ خواتین کی کہ کسب معاش کے سلسلے میں انجام دی جانے والی ان کی کوششیں کس حد تک مسائل کا حل ثابت ہوئیں۔ تو حقیقت یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں ایک عورت کی حیثیت سے انہیں جن مسائل کا سامنا کر نا پڑتا ہے، وہ الگ ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ خود اپنے گھر سے انہیں سپورٹ نہیں ملتی، چندایک کو چھوڑ کر زیادہ تر خواتین کو سسرال والوں کی جانب سے عموماً تنقید کا سامنا رہتا ہے۔ گویا سب اس فکر میں مبتلا رہتے ہیں کہ گھرداری کے معاملے میں کہیں اس سے کوتاہی سر زد ہو اور اس کا زوردار محاسبہ کیا جائے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت حال وہ ہوتی ہے کہ جب بیوی، شوہر سے زیادہ کمانے لگے اور شوہر اس کے نتیجے میں احساس کمتری کا شکار ہوکر بیوی پر مختلف پابندیاں عائد کرنا شروع کر دے۔

اکثر گھرانوں میں یہ صورت حال پیچیدہ نوعیت اختیار کر جاتی ہے جس کے باعث میاں، بیوی میں علیحدگی کی نوبت آجاتی ہے۔ تاہم اس صورتحال کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات بعض خواتین کا رویہ اپنے شوہروں کے ساتھ نامناسب ہو جاتا ہے اور وہ انہیں نظر انداز کر نا شروع کر دیتی ہیں۔ اپنی زیادہ آمدنی کا پہلو انہیں ضرورت سے زیادہ خودمختار بنا دیتا ہے جو قطعی طور پر غیر مناسب ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ میاں، بیوی دونوں ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھیں۔ اگر ایک فریق گھر کی بہتری کے لیے کوئی کوشش انجام دیتا ہے تو دوسرا اس کے ساتھ تعاون کرے۔

زندگی کے معاملات سمجھداری اور میانہ روی کے ذریعے ہی سنوارے جاسکتے ہیں اور آپس میں بات چیت مسائل کا بہترین حل ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں