ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر

آئیے!سیکھیں ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمرسے مارکیٹنگ تکنیکس

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبیداللہ عابد:
گزشتہ شب ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر حقوق نسواں کی علمبردار، تجزیہ کار ماروی سرمد اور ڈرامہ نویس، ہدایت کار خلیل الرحمن قمر کے درمیان ایک شدید جھڑپ ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کوخوب برا بھلا کہا۔ خلیل الرحمن قمر چونکہ مرد ہیں، ان کی بھاری آوازنمایاں رہی، اس لئے ان کے منہ سے برابھلا زیادہ واضح طور پر سنائی دیا۔

ماروی سرمد کی آواز امریکا سے آرہی تھی، کافی مدھم تھی، اس لئے ان کی طرف سے ناشائستہ جملے واضح طور پر سنائی نہیں دے رہے تھے، کان لگاکر سننے سے پتہ چلتا ہے کہ اشتعال انگیزی پر مبنی جملے ان کے منہ سے پہلے جاری ہوئے، وہ بھی ایسے فقرے اچھال رہی تھیں جو بدتہذیبی کے زمرے میں آتے ہیں۔

ماروی سرمد ٹی وی ٹاک شوز میں عمومآ جارحانہ لب و لہجہ اختیار کرنے کے حوالے سے معروف ہیں۔ وہ دھیمی گفتگو کریں تو انھیں سنے کون؟ انھیں بخوبی علم ہے کہ میڈیا میں کیسے نمایاں جگہ لینی ہے اور کیا بات کہی جائے کہ شہربھر کے لوگ انہی کا تذکرہ کریں۔

دوسری طرف خلیل الرحمن قمر کا تعلق بھی ٹی وی سے ہے، اپنا سامان بیچنا انھیں بھی خوب آتا ہے، ’اے آر وائی‘ پر ان کے متعدد ڈرامے چلتے رہے ہیں، وہ اپنے ڈراموں میں کوئی نہ کوئی ایسا جملہ لکھتے ہیں جو ٹاک آف دی ٹائون بن جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے زبان زدعام ہونے والا جملہ ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ انہی کا تھا، اسی طرح کچھ دیگر متنازعہ جملوں نے ان کی لکھے ڈراموں کی خوب مارکیٹنگ کی ۔

خلیل الرحمن قمر نے اپنے ڈراموں کی مارکیٹنگ کے لئے ایک منفرد انداز یہ بھی اختیار کیا کہ روزانہ ٹوئٹر پر ٹرینڈز چلانا شروع کروادیے۔ اس کے نتیجے میں ان کے ڈرامے اس قدر زیادہ مقبول ہوئے کہ ’جیو‘ نے ان کے ساتھ ایک فلم اور چار ڈراموں کے لئے معاہدہ کرلیا اور انھیں پابند کردیا کہ وہ کسی اور چینل کو ڈرامہ لکھ کر نہیں دیں گے۔

اگرچہ خلیل الرحمن قمر اب ’جیو‘ کے سوا کسی دوسرے چینل کے لئے فلم اور ڈرامہ نویسی نہیں کریں گے تاہم انھوں نے عائشہ احتشام کے پروگرام میں اپنے آپ کو مرکز نگاہ بنائے رکھنے کے لئے ایسا کھیل کھیلا کہ اب پاکستانی قوم بدترین مہنگائی، بے روزگاری جیسے سارے دکھ درد بھول کر دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی، ایک وہ لوگ جو ان جملوں کی مذمت کررہے ہیں اور دوسرے جو ان جملوں کو درست خیال کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مذمت کرنے والے بھی ان جملوں کی مارکیٹنگ میں 24 گھنٹے مصروف ہیں جبکہ مارکیٹنگ بھی بالکل مفت۔

رات بھی یہی تماشا ہوا۔ آپ ذرا خود ہی سوچئے کہ جس نجی ٹی وی چینل پر ماروی سرمد اور خلیل الرحمن قمر کا پروگرام چلا، اس کی رینکنگ کیا تھی، اسے کتنے لوگ دیکھتے تھے، یہ بات قارئین خوب جانتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اسے اپنی رینکنگ بڑھانی ہے، وہ چاہتا ہے کہ لوگ باقی ٹی وی چینل چھوڑ کر صرف یہی ٹی وی چینل دیکھیں۔

جس پروگرام میں یہ ’’لڑائی‘‘ ہوئی، آپ میں سے کتنے لوگوں نے آج سے پہلے اس پروگرام کو دیکھا یا اس کے کلپس دیکھے، یقیناً بہت، بہت بلکہ بہت ہی کم لوگوں نے۔ تاہم رات سے یہ نجی ٹی وی باقی چینلز پر بازی لےگیا اور عائشہ احتشام کا پروگرام بھی۔

اس وقت میں اپنے فیس بک کی نیوزفیڈ پر دیکھ رہاہوں، 95 فیصد لوگ اسی پروگرام پر اپنے تبصرے کررہے ہیں۔ معروف سوشل میڈیا ایکٹویسٹ قاری حنیف ڈار نے لکھا:

’’ماروی سرمد کا اور کوئی علاج بھی تو نہیں تھا، جب ہر ایک کو شوہر سمجھ کر Behave کرو تو کوئی شوہر بن کر ٹکر بھی سکتا ہےـ کسی بھی چینل کے کسی پروگرام میں اینکر بات مکمل نہیں کرنے دیتے،ہر منٹ بعد مداخلت کرتے ہیں، جب کوئی دوسرا مداخلت کرے تو اس کو روکتے نہیں بلکہ خود بھی لقمے دینا شروع کر دیتے ہیں “۔

وہ لکھتے ہیں:
جب ایک انسان نے آپ کی بات نہایت اطمینان کے ساتھ سنی ہے تو آپ کا بھی فرض ہے کہ اس کو بات کرنے کا پورا موقع دیں ، یہ کہاں کہ دانش وری ہے کہ خود تو پورے پندرہ منٹ کا لیکچر جھاڑ دیا اور جب دوسرے نے نہایت ادب کے ساتھ سلام پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ اب اس کے موقف کو بھی سنا جائے ،اور اسے پہلے جملے کو بھی مکمل نہ کرنے دیا جائے اور لات مار دی جائے ؟ ہر بندہ شوہر نہیں ہوتا، امید ہے اس ڈوز سے ماروی کو کافی افاقہ ہو گا ۔‘‘

ایک فیس بک یوزر عابدمجید لکھتے ہیں:
’’سمجھ سے بالاتر ہے کہ خلیل الرحمٰن قمر صاحب پر کس بات کی تنفید ہورہی ہے ؟
انہوں نے ماروی سرمد صاحبہ کی گفتگو چپ ہو کر سنی اور اپنی باری پر انہوں نے پہلے یہی درخواست کی کہ میں نے آپ کی بات سنی تھی اب آپ میری بات خاموشی سے سنیں گی۔
لیکن محترمہ نے بیچ میں نعرے شروع کردیے۔

اچھا تو اب کیا اعتراض گالیوں پر ہے ؟
تو کیسا اعتراض ماروی سرمد ہی تو برابری کا نعرہ لگارہی ہیں، تو اب ہوگئی ہے برابری تو اعتراض کیسا، کیا ہمارے لائیو شوز میں مرد آپس میں نہیں لڑتے ؟ گالیاں نہیں دیتے، ماروی اور ان کے سپورٹرز کو تو خوش ہونا چاہیئے کہ مرد اور عورت کی برابری ہورہی ہے، ویسے برابری اور گالیاں پڑنے پر عورت کارڈ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔
ویسے بھی اگر ماروی سرمد صاحبہ کا جسم ان کی مرضی، تو خلیل الرحمٰن قمر صاحب کی بھی زبان ان کی مرضی…!!‘‘

مدثر شیخ لکھتے ہیں:
’’فیس بک پر احباب میرا جسم میری مرضی والی سوچ کی دلالت کرتے فرماتے ہیں کہ آنسہ ماروی سرمد کو اسی کے لب و لہجے اور الفاظ میں خلیل الرحمان قمر کا جواب دینا عورت کے ساتھ زیادتی ہے۔

مجھے پوچھنا صرف یہ ہے کہ میرا جسم میری مرضی والا فارمولا صرف موم بتی مافیا اور خواتین پر ہی لاگو ہوتا ہے یا خلیل الرحمان بھی اس کا حق دار ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا جملہ احباب زبان کو جسم کا حصہ نہیں گردانتے؟

اب ماروی کا جسم ہے اس کی مرضی کہ وہ کون کون سے اعضاء و آلات کا کیا کیا استعمال کرے.
اور اسی طرح خلیل الرحمان کی بھی مرضی کہ وہ اپنی زبان کا جو مرضی استعمال کرے
اب اگر خلیل الرحمان کی زبان پر بندش ہے تو میرا جسم میری مرضی کا فارمولا بھی بند ہونا چاہئیے.‘‘

دوسری طرف معروف کالم نگار، تجزیہ نگارمحمد عامرخاکوانی نے لکھا:
’’ماروی سرمد ایک نہایت بدتمیز اور بدزبان خاتون ہیں مگر خلیل الرحمن قمر نے تو بدتمیزی، بد تہذیبی اور فرعونیت کی انتہا کر دی. یہ شخص آداب، تمیز ، انسانیت سے بالکل ہی عاری ہے. ایسی حقارت اور تحقیر کے ساتھ اس نے گفتگو کی کہ میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ماروی سرمد سے سو اختلاف سہی مگر ان پر یوں گھٹیا انداز میں ذاتی حملہ سخت افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔‘‘

’’اینکر خاتون کا رویہ بھی افسوسناک ہے. خلیل قمر باقاعدہ گالیاں دے رہا ہے اور اینکرز اسے چپ کرانے کے بجائے ماروی سرمد کو خاموش کرا رہی تھیں. خلیل قمر کو طمانچہ نہیں لگا سکتی تھی تو اس کے منہ پر خاک ڈال دیتی، دریدہ دہن کو دھکے دے کر شو سے نکالا تو جا سکتا تھا. افسوس کہ خلیل قمر جیسے بدزبان نہ صرف یہاں موجود ہیں بلکہ اب وہ ایک حلقے کے ہیرو بھی بن جائیں گے‘‘۔

ایک فیس بک یوزر سیدامجدحسین بخاری کا کہنا تھا:
’’خلیل الرحمان قمر کی زبان انتہائی غلیظ تھی، عورت کے ساتھ گفتگو کا جو گھٹیا انداز موصوف نے استعمال کیا وہ ان کی گندی ذہنیت کا عکاس تھا۔ لیکن یہاں ٹی وی چینل کی پروڈکشن ٹیم اور اینکر نے بھی نان پروفینشلزم کا مظاہرہ کیا۔ جس پر سبھی قابل گرفت ہیں‘‘۔

بعض سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ایسے بھی ہیں جنھوں نے دونوں نہیں تینوں کو غلط قرار دیا ، مثلاً عدیل ہاشمی لکھتے ہیں:
’’لا حول ولا قوة إلا بالله العلي العظيم۔ ایک نہیں دونوں ہی شیطان ہیں ۔ایک مرد کا تو دوسری عورت کی دشمن ۔اور فسادی میڈیا شیطان ہے۔ مطلب میڈیا پر بیٹھ کر آپ کچھ بھی بول سکتے ہیں ۔ایک رنڈی کو بھی آپ کو گالی دینے کا حق نہیں یے ۔ دنیا نے کیا دیکھا کہ ایک مرد ایک عورت کو کیا گالی دے رہا ہے ۔ دونوں ایسے مرد اور عورت تھے جو کہ کسی بھی طرح مرد اور عورت کی نماٸندگی کے لاٸق نہیں تھے ۔ بس شیطان اپنے مقصد میں ایک بار پھر کامیاب ہو گیا ‘‘۔

یہ میدان کارزار 8 مارچ، یوم خواتین پر عورت مارچ تک خصوصیت کے ساتھ گرم رہے گا، کیونکہ عورت مارچ کو ایندھن کی ضرورت تھی جو پیدا کرلیاگیاہے۔ عورت مارچ کے منتظمین نے اپنے شرکا کو ہدایت کی ہے کہ
” اگر آپ متنازعہ سمجھے جانے والے پوسٹرز یا اشتہارات لانے کا انتخاب کرتے ہیں تو آپ کی تصاویر میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع ہونے اورشدید ردعمل موصول ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ برائے مہربانی اپنے پوسٹرز کو ڈیزائن کرتے ہوئے اس چیز کو مدنظر رکھئے”۔

گزشتہ شب ماروی سرمد نے حسب معمول جارحانہ رویہ اختیار کرکے، گالی دے کر اپنا سودا فروخت کرلیا، اسی طرح خلیل الرحمن قمر نے اپنا منجن بیچ لیا، نیو ٹی وی اور اس کی اینکر نے اپنا۔ اب انتظار کیجئے 8 مارچ کا ، عورت مارچ والیاں اپنی مارکیٹنگ تکنیکس کے ساتھ باہر نکلیں گی اور پوری قوم کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی۔ ممکن ہے کہ ان کی تعداد بہت کم ہو لیکن وہ طویل غوروفکر کے بعد ایسے سلوگن اور ایسے پلے کارڈز بنائیں گی کہ مخالفین بھی اپنی مخالفت کے ذریعے عورت مارچ کی خوب کووریج کریں گے۔
بہرحال اس ساری صورت حال میں عورت مارچ کے مخالفین کے سیکھنے کو بہت سے سبق موجود ہیں، اگر وہ کچھ دھیان دیں تو۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں