سرمایہ دار ہر روز کام کی بھرمار سے تھک بھی تو جاتا ہے۔۔آرام و راحت اس کا بنیادی حق ہے۔ اس کے جملہ حقوق بحق نظام سرمایہ داری محفوظ ہیں۔
سال بھر میں اسے کئی چھٹیاں دی جاتی ہیں۔
آج بھی ایسا ہی ایک دن ہے۔ یکم مئی۔۔۔۔۔۔ یوم مزدور۔۔۔۔۔
اس لیے سرمایہ دار آج چھٹی کے موڈ میں ہے۔ نیند پوری کرے گا۔ فیملی کو آؤٹنگ پہ لے جائے گا۔ گاڑی یا گاڑیاں دھلوائے گا۔۔
پوچھتے ہو آج کا دن مزدور کیسے گزارتا ہے یہ بھی بتاؤ۔۔۔۔۔
ارے بھئی! مزدور کے حقوق کون قلمبند کرے۔۔۔۔ کون محفوظ کرے۔۔۔۔اس قدر مصروف زندگی ہے۔ یوں بھی وہ سخت جان ہے، عادی ہے کام کا۔ سو آج بھی دیکھ لو وہ مصروف ہی ہوگا۔۔۔
چھٹی کی وجہ سے دیہاڑی نہیں ملے گی اس ٹینشن میں غرق ہوگا۔ ۔۔۔ آج کی تاریخ جلد گزر جائے، کل کے دن کا سورج طلوع ہونے کے انتظار میں مصروف۔۔ صاحب کو چھٹی ہے ان کی گاڑیوں کو ایکسٹرا چمکانے لشکانے میں مصروف۔۔
ارے۔۔۔یہ۔۔یہ۔۔۔ تم کیا مصروفیت لے کے بیٹھ گئے ۔۔۔۔ مزدوروں کے حقوق اسلامی نظام حیات سے دکھانے لگے۔۔شاہ یثرب(صلی اللہ علیہ وسلم) کی کدال اور پیٹ پہ بندھے پتھر کا تذکرہ کرنے لگے۔۔۔ شش ۔۔۔۔۔ش۔۔۔ش ۔۔ خاموش رہو ۔۔۔۔ تنگ نظر کہلاؤ گے۔۔۔ سرمایہ دار کے غضب کاسامنا کرو گے۔۔۔۔۔ بس مزدوروں کے حقوق شکاگو کی گزری تاریخ سے جوڑو۔۔۔۔ چھٹی مناؤ۔۔۔۔ رات ہوگی گہری نیند سوجانا۔۔۔
تبصرہ کریں