ایران گھر کی روٹی یعنی نان خانگی

خاکِ فارس کا مسافر(11)

·

بم شہر کا مسافر خانہ زیادہ مہنگا نہیں تھا، بس ذرا سا مہنگا تھا۔ چارپائی کے حساب سے کرایہ تھانتیجتاً، مجھے پورے چار سو تومان دینے پڑے۔ اگر کوئی ہمسفر ہوتا، تو شاید بوجھ ہلکا ہو جاتا، لیکن مسافر ہمیشہ تنہا ہوتا ہے، اور تنہائی کا کرایہ ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔

مسافر خانے کے نگران نے چابی تھماتے ہوئے فارسی میں کہا، ’تم ان چار تختوں کا کرایہ دو گے۔‘ میں چونکا۔ تخت؟ گویا میں کسی عہدِ رفتہ کا بادشاہ ہوں، کسی قدیم سلطنت کا حکمران، جسے یک دم چار تختوں کی ملکیت سونپ دی گئی ہو۔ ایران میں چارپائی کو بھی تخت کہتے ہیں، اور میں حیران تھا کہ میری مسافری میں ایسی بادشاہت کیسے نصیب ہوگئی۔ میں نے اپنے شاہی ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھانے کا سوچا، یوں ایک ایک کرکے چاروں تختوں پر سو کر دیکھا، کبھی ایک پر پیر پھیلائے، کبھی دوسرے پر تکیہ رکھ کر نیم دراز ہوگیا، جیسے پرانے بادشاہ اپنی وسیع سلطنت کے مختلف خطوں میں قیام کیا کرتے تھے۔

یہ جمعے کا دن تھا، اور شہر سویا ہوا تھا—نہیں، بلکہ شاید جاگتے میں خواب دیکھ رہا تھا۔ بازار خاموش، دکانوں پر بڑے سے تالے، گلیوں میں ہُو کا عالم تھا۔ میں نے کچھ دیر اردگرد جھانکا، مگر جب ہر دروازہ بند پایا تو ہوٹل  لوٹ آیا، اور تخت پر دراز ہوگیا۔

عصر کے بعد آنکھ کھلی، تو سوچا کہ شہر کی خوابیدہ رگوں میں کچھ زندگی تلاش کروں۔ باہر نکلا، سڑکوں پر بے مقصد چلتا رہا، مگر بم اب بھی مدہوش تھا، جیسے کسی صدیوں پرانے وقت میں قید ہو۔ کھانے کی کوئی معقول جگہ نہ ملی، بازار ابھی تک نیم خوابیدہ تھا، اور ریستورانوں کے دروازے بند تھے۔

بھوک اندر ہی اندر مجھے کھائے جا رہی تھی۔ پیٹ نے بغاوت کا اعلان کر دیا تھا، مگر شہرِ ناآشنا میں کوئی ایسا ریستوران نظر نہ آیا جہاں اپنی بھوک کو تسلی دی جا سکے۔ ایسے میں ایک چھوٹی سی دکان پر نگاہ پڑی، جہاں شیشے کے فرج میں زمزم کولا کی بوتلیں دمک رہی تھیں، جیسے کسی صحرائی مسافر کو دور سے کسی نخلستان کے پانی کا سراب دکھائی دے جائے۔

میں نے بوتل کی قیمت پوچھی تو دکاندار نے چمکتی آنکھوں اور کشادہ پیشانی کے ساتھ فارسی میں اعلان کیا،

’این بوتلِ بزرگ، 4500 تومان است!‘

میں چونک گیا۔

‘بزرگ؟‘ میں نے ہونٹوں کو نچاتے ہوئے دہرایا، ’یہ بوتل بزرگ کیسے ہو گئی؟ کیا اس نے بھی عمر کے ساتھ تقویٰ اختیار کر لیا ہے؟ یا کوئی روحانی سلسلہ شروع کر دیا ہے؟‘

دکاندار ہنس دیا، ایسا قہقہہ جو شاید تہران کی گلیوں میں گونجتا رہا ہو۔

‘نخیر آغا! بزرگ یعنی سائز بڑا۔‘

میں نے بوتل کو غور سے دیکھا۔ واقعی، نسبتاً بھاری بھرکم تھی، مگر یہ بزرگی تو نہیں، یہ تو محض فربہی ہے!

’تو چھوٹی بوتل کو کیا کہیں گے؟ بچہ بوتل؟‘میں نے معصومیت سے پوچھا۔

دکاندار نے ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ لیا۔

’نہ آغا جان، چھوٹے کو ‘کوچک’ کہتے ہیں۔ بوتلِ کوچک۔‘

میں نے گردن ہلاتے ہوئے فلسفیانہ انداز میں کہا،

’تو مطلب یہ ہوا کہ ایران میں انسان ہو یا بوتل، عمر یا عقل سے نہیں، سائز سے بزرگ بنتا ہے۔ اگر میں زیادہ کھا کھا کر موٹا ہو جاؤں تو تم لوگ مجھے بھی بزرگ کہو گے؟‘

دکاندار نے آنکھ دبا کر جواب دیا،

‘اگر ساتھ میں زمزم کولا لے آئیں تو کیوں نہیں؟’

دونوں ہنس دیے۔

فرج سے ایک ’بزرگ‘ بوتل نکال کر میں نے سوچا، بھوک تو اپنی جگہ، مگر آج ایک نئی لغت سیکھ لی: بزرگ یعنی بڑا۔ اور یہ بڑا سبق تھا، بزرگ سبق!

یہ محض آغاز تھا۔ ایران میں تخت بھی بے توقیر ہو چکا تھا۔ ہمارے ہاں تخت وہ ہوتا ہے جس پر شہنشاہ براجمان ہوتے ہیں، جس کے ساتھ تاج اور جاہ و جلال جُڑے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں؟ یہاں ہر شخص رات کو اپنے بستر پر دراز ہوتا ہے اور کہتا ہے، ’میں اپنے تخت پر جا رہا ہوں۔‘یعنی شاہی جاہ و جلال سے بھرپور تخت اب نیند کی پناہ گاہ بن چکا تھا!

یہی ہوتا ہے، جب تخت ملتے ہیں، تو دسترخوان دور چلا جاتا ہے۔ میں نے سوچا، بادشاہی کے اپنے مسائل ہوتے ہیں—چاہے تخت چار ہوں، مگر جب بھوک لگے اور کچھ کھانے کو نہ ملے، تو بادشاہ بھی کسی عام مسافر کی طرح سر جھکا کر اپنے تخت پر جا سوتا ہے۔

بوتل خریدنے کے بعد، میں ایک چوراہے پر جا نکلا۔ سڑک کے کنارے چند عورتیں بیٹھی تھیں—بھاری جسامت، دیوہیکل بدن، اور افغانی طرز کی رنگین چادریں، جن پر سرخ، نیلے، اور سبز پھول کھلے ہوئے تھے۔ وہ زمین پر اکڑوں بیٹھی تھیں، جیسے کسی ازلی انتظار میں ہوں، اور ان کے سامنے چادروں میں لپٹی ہوئی بڑی بڑی تندوری روٹیاں رکھی تھیں، جن میں سے گرمی اور نرمی کی خوشبو اٹھ رہی تھی۔ 

جوں ہی میں قریب پہنچا، وہ زنانہ آوازیں ایک ساتھ اُبھریں، جیسے کسی پُرانے بازار کی صدائیں: ’نانِ خانگی لے لو، نانِ خانگی ضرور لے لو!‘

یوں لگا جیسے کسی پُرانی، گردآلود سرائے میں سوداگروں کی بولیاں لگ رہی ہوں۔

میں نے ہچکچاتے ہوئے ایک خاتون سے کہا، 

’بی بی، یہ نان خانگی کیا خاص چیز ہے؟ ہمارے ہاں تو تندوری روٹی بس روٹی ہوتی ہے۔ٗ

وہ خاتون، جس کے ماتھے پر افغانی کشیدہ کاری کی پٹی بندھی ہوئی تھی، اپنی مضبوط کلائی سے ایک نان اٹھا کر لہرا کر بولی، 

’ای بابا! نان خانگی، یعنی گھر کا نان۔ اپنے تندور کا، اپنے ہاتھ کا، اپنے دل کا۔ بازار کی میلی روٹی نہیں۔‘

میں نے حیرانی سے پوچھا، 

‘تو کیا یہ واقعی تمہارے گھر کی خوشبو ہے جو اس روٹی میں بسی ہے؟‘

وہ ہنس دی، اس طرح کہ اس کے موٹے گالوں میں جھریاں پڑ گئیں، 

’ہاں بابا، ماں نے سکھایا تھا، دادی نے سکھایا تھا۔ یہ روٹی صرف آٹے اور پانی کی نہیں، محبت کی بھی ہوتی ہے۔‘

ساتھ بیٹھی ایک اور خاتون نے اپنی رنگین چادر کو درست کرتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا، 

’اور یہ جو تم خوشبو محسوس کرتے ہو، یہ وہ لکڑی کی آگ ہے جو تندور میں جلائی جاتی ہے۔ گیس نہیں، بجلی نہیں۔ صدیوں پرانی آگ ہے یہ۔‘

میں نے مسکرا کر کہا، 

’تو گویا میں صرف ایک نان نہیں خرید رہا، میں ایک پوری تہذیب کی خوشبو خرید رہا ہوں؟‘

وہ خواتین اکٹھا ہنسنے لگیں۔ ایک بزرگ خاتون نے دانتوں سے محروم مسکراہٹ کے ساتھ کہا، 

’ای بابا، تم اچھا بولتا ہے۔ یہی نان خانگی ہے۔ گھر کا نان، پرانی مٹی کا ذائقہ، پرانی محبت کی مہک۔‘

میں نے ایک نان اٹھا کر ہاتھ میں تولا۔ وہ نرمی سے جھکا جا رہا تھا، جیسے برسوں کا تھکا ہارا مسافر۔

‘کتنے کا ہے یہ تہذیب کا ورثہ؟‘میں نے مذاقاً پوچھا۔ 

بزرگ خاتون نے انگلیوں پر حساب لگاتے ہوئے کہا، 

’صرف 100 تومان۔ محبت سستی ہے، بابا، نفرت مہنگی ہو گئی ہے!‘

میں نے ہنستے ہنستے جیب سے چند سکّے نکالے اور ایک نان لے لیا۔ 

نان کو ہاتھ میں تھام کر میں نے محسوس کیا جیسے میں نے تہران کی گلیوں، قندھار کی بستیوں اور بخارا کی سرائے سے گزرتے ہوئے ایک نایاب خزانہ خرید لیا ہو۔

نان کی گرمی ہتھیلی میں اتر رہی تھی، جیسے کوئی بوڑھی دادی سرد راتوں میں اپنے پوتے کو آغوش میں بھر لیتی ہو۔

مسافر خانے پہنچ کر، میں نے ایک نوالہ نان کا توڑا، ایک گھونٹ زمزم کولا کا پیا، نوالہ منہ میں رکھا تو وہ زبان پر نہیں، یادداشت پر پگھلنے لگا۔ اس میں صرف آٹا نہیں تھا، اس میں نانی اماں کے ہاتھ، دادی اماں کی مہک، اور شاید تہذیبِ خراسان کی مٹی بھی ملی ہوئی تھی۔

رات کو بھی یہی معمول رہا—نان خانگی اور زمزم کولا۔ میں نے جابجا مٹرگشت کی، مگر کوئی ایسا ریستوران نہ پایا جو مجھے اپنی جانب بلاتا، یوں میرا سفر اسی نان اور کولا کے سہارے چلتا رہا۔ آخرکار، میں نے روٹی کو احتیاط سے اپنے سوٹ کیس میں رکھ دیا۔ اور حیرت کی بات یہ تھی کہ دن گزرتے گئے، مگر نان ویسا ہی رہا—نہ خشک ہوا، نہ سخت، نہ باسی۔ وہ روٹی شاید ویسی ہی تھی، جیسے پرانے قافلوں کے زادِ راہ میں شامل ہوتی تھی، جو دنوں تک تازہ رہتی تھی، جن میں مسافروں کی بھوک کے خلاف صدیوں کا کوئی معاہدہ ہوتا تھا۔ 

بم میں، میں ناشتہ بھی اسی نانِ خانگی سے کرتا۔ کسی دکان سے ایک مکھن کی ٹکیہ خریدتا، اور پھر نان کے نرم حصے پر مکھن کی تہہ جماتا، جیسے کسی قدیم قلعے کی دیوار پر سورج کی کرنیں آ کر ٹھہر جاتی ہوں۔ اور یوں، میں ایران کے کسی اجنبی قصبے میں، ایک ایسے کھانے کا اسیر ہو چکا تھا، جو میرے ساتھ دنوں تک سفر کرتا رہا—نانِ خانگی، جو نہ گھر کا تھا، نہ بے گھر، بس ایک بچھڑتے لمحے کی یاد کی طرح تھا، جو زبان پر اپنا ذائقہ چھوڑ کر کسی اور دنیا میں کھو جاتا تھا۔

نانِ خانگی ہاتھ میں تھا اور میں بم کے بازار کی گلیوں میں قدم رکھ چکا تھا۔ ایسا لگا جیسے میں کسی اور زمانے میں داخل ہو گیا ہوں، جیسے یہ بازار صرف اینٹوں، گنبدوں اور محرابوں کا سلسلہ نہیں بلکہ کسی پرانے خواب کی تعبیریں ہوں، جنہیں ایرانی معماروں نے بڑی محبت سے ترتیب دیا ہو۔ سر اٹھا کر دیکھا تو محرابی چھتیں، اور ان میں روشنی کے لیے رکھے گئے چھوٹے روشن دان، جو سورج کی کرنوں کو ایسے بکھیر رہے تھے جیسے کوئی صوفی اپنی دعاؤں کو فضا میں تحلیل کر دے۔ یہاں وقت کسی قدیم کتبے پر درج کسی دعا کی مانند ٹھہرا ہوا تھا۔

بازار میں داخل ہوتے ہی قالین فروشوں کی قطاریں نظر آئیں۔ ایک سے ایک نایاب دستکاری، سرخ اور نیلے رنگوں کے امتزاج سے بنے وہ قالین جیسے کسی بھولی بسری سلطنت کی داستانیں سنا رہے ہوں۔ آگے بڑھا تو تانبے کے برتنوں کی چمک نے قدم روک لیے۔ کاریگر اپنے ہتھوڑوں کی تھاپ سے تانبے کے تھالوں پر قرآنی آیات کندہ کر رہے تھے۔ ہر دکان کے باہر دیگوں کے اونچے مینار کھڑے تھے، سب سے نیچے بڑی دیگ، پھر اس سے چھوٹی، اور یوں سب سے اوپر ننھی منی دیگ، جیسے صدیوں کا توازن کسی جادوئی ترتیب میں ڈھل گیا ہو۔ اور اس پورے منظر کے پس منظر میں کاریگروں کے ہتھوڑوں کی ٹھک ٹھک بازار کا موسیقیہ سُر ترتیب دے رہی تھی، جیسے کوئی پرانی نظم گنگنا رہا ہو۔

یہ بازار کسی ایک ہنر تک محدود نہیں تھا، یہاں سنار بھی تھے، جن کے زیورات میں پرانی سلطنتوں کی جھلک تھی۔ میوہ فروشوں کی دکانیں بھی تھیں، جہاں ایرانی زعفران اور خشک انجیر کی خوشبو کسی قدیم مسافر خانے کی دیواروں سے لپٹی محسوس ہو رہی تھی۔ یہاں کے لوگ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اونچی آواز میں بات کرتے، فارسی لہجے کی مٹھاس میں لپٹے جملے سنائی دیتے، جیسے پرانے شعر در و دیوار سے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔ ایران میں چوبیس گھنٹے فارسی سننے کے بعد اب تو خواب بھی اسی زبان میں آنے لگے تھے—زبان سیکھنے کا اور بھلا کون سا بہتر طریقہ ہو سکتا ہے؟

بازار میں بائیسکل والے بھی تھے، موٹر سائیکلیں بھی، مگر سب پرانے طرز کی، جیسے پرانی فلم کے کسی منظر میں بھٹک گیا ہوں۔ کسی گلی کے موڑ پر کھڑا ہو کر ذرا دور سے بازار کو دیکھا تو وہی فیروزی اینٹوں والا دروازہ نظر آیا، جس پر ایرانی فن تعمیر کی مہر لگی تھی۔ روشنی میں اس دروازے کی چمک اور بڑھ جاتی، جیسے پرانی یادوں کے نقوش وقت کے پردے پر مزید گہرے ہو گئے ہوں۔

یہ بازار محض اینٹوں اور دکانوں کا مجموعہ نہیں تھا، بلکہ ایک قدیم تمثیل تھی، ایک ایسا خواب، جو صدیوں سے جاگا ہی نہیں تھا۔ میں نے آخری بار بازار پر نظر دوڑائی اور آگے بڑھ گیا، مگر کہیں نہ کہیں اس قدیم بازار کی محرابی گلیوں میں میرا ایک ٹکڑا ہمیشہ کے لیے رہ گیا تھا۔(جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے