’یہ میرا رفال ہے، اسے مجھے دے دیں۔۔۔۔‘
یہ ایک جملہ نہیں درد اور احساس اور مظلومیت کی ایک داستان ہے۔ جملہ کہنے والی دنیا کی سب سے بڑی جیل کے اندر محصور قوم کی ایک بیٹی ہے۔ دنیا کے سبھی، مہذب اور روشن خیال، ممالک کی پشت پناہی کے ساتھ ایک بدمعاش،گھٹیا، سفاک اور بچوں کے خون کاپیاسا اس بیٹی کے نو بچوں کو آگ اور بارود میں جھلسا چکا ہے۔ ایک بچہ اور شوہر شدید زخمی ہیں۔ اب یہ نو بچے تباہ شدہ گھر کے ملبے سے نکالے جارہے ہیں۔ بری طرح جھلسے ہوئے بچے پہچانے بھی نہیں جا رہے ہیں۔
ایک بچے کو پہچان لیا تو تڑپ اٹھی۔ روح یکبارگی زخمی ہو کے رہ گئی ۔۔۔۔تو کیا اس نے بال کھول دیے؟ بین کرنے لگ گئی؟ چلانا شروع کر دیا؟ ۔۔۔۔ نہیں۔۔۔ اس نے بال نہیں کھولے۔۔۔۔ بال تو اس سے ہزاروں میل دور اسی کی ملت کی کچھ اور بیٹیوں نے اس کے بچوں کے قاتل کے استقبال کے لیے کھولے تھے ۔۔۔۔۔ اور بے غیرتی و بے حسی کی تاریخ کے ابواب میں اپنا نام سیاہ حروف میں لکھوا لیا تھا۔۔۔۔
یہ تو باغیرت، ذمے دار، حساس، فرض شناس، زخمی و مجروح بچوں کی مسیحا۔۔۔۔ ڈاکٹر آلاء النجار ہے۔۔۔ حیا کی علامت اس کا حجاب اور تقدس نسواں کا نشان اس کا عبایا غم کی اس اندوہناک گھڑی میں بھی اس کی شخصیت کا حصہ ہے۔
شہید رفال کی ماں ڈاکٹر آلاء النجار وقار، صبر، حوصلے کی تصویر بنی کھڑی رہی۔ بس ملبے سے نکالے گئے ایک بچے کی شناخت ہو جانے پہ اسے بانہوں میں سمیٹ لینے کو جی چاہا۔۔۔ جی بھر کے چوم لینے کو جی چاہا۔ دبی دبی آواز میں رو لینے کو بھی جی چاہا ہوگا۔
مگر ڈاکٹر آلاء النجار کو اپنافرض بلاتا ہے۔
وہ نو بچوں کو کھو چکی اور اب پھر سے ناصر ہسپتال موجود ہے۔۔۔۔۔ زخمی بچوں۔۔۔ کٹے پھٹے مریضوں۔۔۔ جھلسے ہوئے انسانوں کے درمیان۔۔۔
کوئی غم کے پہاڑ تلے پس کے بھی خود پہاڑ سا حوصلہ دکھانے لگتا ہے۔۔۔ کیسے۔۔۔۔؟
کیسے۔۔۔؟؟
ایسے کردار کون سی کٹھالی میں تیار ہوتے ہیں۔۔۔
گھٹیا دشمن کی ننگی جارحیت اور انسانیت سوزی کے سامنے کوئی وقار اور صبر کے لباس ہی میں ملبوس رہتا ہے۔۔۔۔کیسے؟؟
ان سب سوالات کے جوابات قارئین پہ چھوڑتی ہوں۔۔۔
تبصرہ کریں