آپ ﷺ نے دیکھا کہ لوگ کھجوروں پر کوئی عمل کر رہے ہیں۔ پوچھا، ایسا کیوں کررہے ہو؟ بولے، حضور! پیداوار بڑھ جاتی ہے۔
آقا نے کہا، ایسا نہ کرو تو (شاید) اچھا ہو۔ لوگوں نے وہ عمل بند کر دیا۔ سال بعد معلوم ہوا پیداوار گھٹ گئی ہے۔ پوچھا، اس سال پیداوار کم کیوں ہوئی؟بولے، ہمارے اس عمل کے چھوڑنے کے سبب جس سے آپ نے روکا تھا۔
فرمایا: ‘تم اپنے (روزمرہ) دنیاوی امور (مجھ سے) بہتر جانتے ہو (گویا وہ کام جاری رکھو)‘۔
میں نے سنا کہ ملک کی ’اہم ترین‘شخصیت نے اسٹاک ایکسچینج کا دورہ کیا اور ماہرین کی راہنمائی کی۔ مجھے مصطفیٰ گوکل، جنرل ضیا اور بحری تجارت پر جنرل کی مہارت یاد آگئی۔
مزید سنا کہ کرپٹو کرنسی کی ترویج کے لیے کرپٹو کونسل بنا کر اس کا کوئی مصطفیٰ گوکل قسم کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا جس نے اہم ترین شخصیت سے ملاقات کی۔
ادھر مجلس قائمہ قومی اسمبلی کے بلانے پر وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک نے یہ حیران کن بیان دیا: ’کرپٹو کرنسی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اس پر پابندی ہے، مزید کچھ پوچھنا ہو تو کرپٹو کونسل سے پوچھیں، ہمیں کچھ علم نہیں‘۔ مزید پتا چلا کہ اس حساس ترین مالیاتی کونسل میں ملکی مالیات کی نگران وزارت خزانہ کا عمل دخل تو کیا، وہاں سرے سے اس کا نمائندہ تک نہیں ہے۔
میرے پیش نظر پاکستان، ایران افغانستان کے اتحاد پر ایک سلسلہ مضامین تھا۔ پچھلے ہفتے تمہید بھی باندھ لی تھی لیکن ایک گروپ میں دیکھا کہ میری تمہید کے نیچے کسی نے آئی ایس پی آر کے چیف کا یہ جملہ کڑاکے دار املا کے ساتھ چسپاں کیا ہوا تھا:
’ایک پاکستانی کی جان ہزار افغانوں پر مقدم ہے‘۔
میں جستجو کا مارا اصل تقریر تک جا پہنچا جو تقریباً انہی خطوط پر تھی جو میرے مذکورہ سلسلہ مضامین کا مرکزی نکتہ (امت مسلمہ کا اتحاد) تھا لیکن یار لوگوں نے ایک جملہ اٹھا کر باقی تقریر دھند میں لپیٹی اور پاک افغان تعلقات پر دراڑیں ڈالنے کی کوششیں تیز تر کر دیں، عین اس وقت جب ہمارا وزیر خارجہ، افغان وزیر خارجہ سے دو طرفہ تعلقات پرگفتگو کر رہا تھا۔
دفتر خارجہ کو کوئی حساس مسئلہ بیان کرنا ہو تو صحافیوں کو تحریری بیان دے کر کہا جاتا ہے کہ ریاستی نقطہ نظر تحریری اور ترجمان کی وضاحت اضافی ہے۔ وجہ یہ ہوتی ہے کہ کسی لفظ کو ترجمان کے زور دے کر پڑھنے یا کمزور لب و لہجے کے باعث لوگ کچھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے چیف جنرل احمد شریف چوہدری سے کبھی نہ ملنے اور متعارف نہ ہونے کے باوجود میں کہتا ہوں کہ ہم ایک دوسرے کے گھر کے فرد ہیں۔ ان کے والد محترم سلطان بشیر محمود نامور ایٹمی سائنسدان اور راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ میں ان سے متعدد بار ان کے گھر میں مل چکا ہوں۔ میرے برطانیہ پلٹ چچا خداداد ملک مرحوم ان کے نہایت قریبی اور بے تکلف دوست تھے۔ دوسرے چچا انجینیئر صدیق ملک کی قرآن اور کائنات پر چار کتابیں سلطان بشیر محمود نے شائع کی ہیں۔ ادھر آئی ایس آئی کے چیف کے والد جنرل ملک کور کمانڈر تھے تو انہوں نے افسران کے جذبہ جہاد و دینی حمیت کو صیقل کرنے کو اسلامی یونیورسٹی کے اہل علم کا سلسلہ خطبات شروع کیا تھا۔ ڈاکٹر محمود غازی و ڈاکٹر محمد میاں صدیقی رحمہم اللہ جنرل صاحب کے بہت مداح تھے۔
رہے آرمی چیف تو انہوں نے حالیہ پاک بھارت جنگ قرانی اصطلاح بنیان مرصوص پر شروع کر کے عالم اسلام میں تہلکہ مچا دیا۔ چنانچہ ان تین اور کئی دیگر افراد کو ذہن میں رکھ کر میں نے پچھلی دفعہ لکھا تھا کہ ملک نہایت مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ آج اس پر یہ اضافہ: ’جس کا کام اسی کو ساجھے‘۔
کاش جنرل چوہدری خود کو پاک افغان تنازع کے واقعاتی بیان تک محدود رکھتے۔ لیکن وہ چیف کا یہ پرانا جملہ بلا وجہ نئی پوشاک میں لے آئے: ’میرے لیے ایک پاکستانی کی جان بچانا پورے افغانستان سے مقدم ہے‘۔ اس جملے پر میرا تبصرہ یوں تھا: ’۔۔۔تو کیا افغانستان مسلم جسد واحد کا حصہ نہیں ہے۔۔۔۔یہ وطنی قومیت کہاں سے در آئی۔۔۔۔۔یہ بات کھلے عام کہنے کی تھی ہی نہیں۔۔۔۔ یہ کام دفتر خارجہ کے کرنے کا تھا جس کے جملے کے ساخت کچھ یوں ہوتی: ’ہمارے لیے ایک پاکستانی کی جان تمام دہشتگردوں اور افغانستان میں انہیں پناہ دینے والوں کی جان سے زیادہ مقدم ہے۔‘
چیف کے جملے نے تمام افغانوں کو ہمارے خلاف متحد کر دیا، دفتر خارجہ کا جملہ انہیں اہل حق اور اہل باطل کے زمروں میں منقسم کر دیتا( روزنامہ پاکستان 4 فروری 2024)۔
1977 میں ہمارے پاس 80 تجارتی بحری جہاز تھے۔ جنرل ضیا نے اخلاص یا کسی سیاسی مجبوری پر مصطفیٰ گوکل نامی شخص کو بحری تجارت کا وزیر لگایا تو مرچنٹ نیوی کے میرے کزن بولے: ’اب بحری تجارت پر فاتحہ پڑھ لینا چاہیے‘۔ دو ماہ قبل ایک سیمینار میں ماہرین بحری امور نے بتایا کہ آج بحری تجارت کے ہمارے درجن بھر ادارے ہیں۔ پوچھا: ’اور بحری جہاز کتنے ہیں؟‘جواب ملا: ’8 یا شاید 10‘۔ مزید جستجو پر معلوم ہوا کہ ہماری کل کائنات 12 تجارتی جہاز ہیں۔ جبکہ پانچ عشرے بعد ہمارے پاس ہزار بحری جہاز ہونے چاہیئیں تھے۔ لیکن فوجی جنرل کے سول فیصلے کے باعث اپنے 70 جہاز گم کر کے بحری تجارت پر ہم سالانہ اربوں ڈالر ضائع کر رہے ہیں۔
آئین کو چھوڑیے، اپنے آقا ہی کی پیروی کر لیجئے جنہوں نے کھلے دل سے اعتراف کیا تھا کہ تم اپنے دنیاوی امور (زرعی, اقتصادی, بحری وغیرہ مجھ سے) بہتر جانتے ہو. سالہا سال کمپنی لا پڑھانے اور ایک بینک کے شریعہ بورڈ میں 10 سال رہنے کے باوجود میں مالیاتی امور میں اب بھی مبتدی ہوں. اتوار کو ایک سیمینار میں کرپٹو کرنسی کے ماہرین ملے۔ ان کا علم بھی ابھی بہت پست سطح کا پایا۔ پتا نہیں ٹینک چلانے والے جنرل نے اپنی کس مہارت کے سہارے بحری تجارت مصطفی گوکل کے حوالے کی تھی۔ پتا نہیں آج کی اہم ترین شخصیت اپنی کس مہارت کے سہارے اسٹاک ایکسچینج اور کرپٹو کرنسی کے امور نمٹا رہی ہے۔ قبل اس کے کہ ملیامیٹ بحری تجارت کی طرح ہم ملکی اقتصادیات کا نوحہ بھی پڑھیں، جس کا کام اسی کو ساجھے کو اپنا لیجیے۔ جب کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت ہی نہیں اور وزارت خزانہ کونسل کے وجود سے بھی لاعلم ہے تو یہ کرپٹو کونسل بنائی کس نے؟ کیا پارلیمان بتانا پسند کرے گا؟
تبصرہ کریں