اکبر الہ آبادی، علامہ اقبال اور کتاب خطوط اکبر بنام اقبال کا سرورق

خطوط اکبر بنام اقبال

·

’خطوط اکبر بنام اقبالٗ پر جیسے ہی پہلی نظر پڑی، ایک سحر سا طاری ہوا کہ وہ خطوط پڑھنے کا شرف حاصل ہوگا جو اکبر الہ آبادی جیسے عبقری نے ایک دوسرے عبقری علامہ محمد اقبال کے نام لکھے۔ اور علامہ اقبال نے ان خطوط کو خوب سنبھال کر رکھا۔ اس لیے کہ یہ خطوط نہایت اہم تھے کہ اکبر الہ آبادی نے لکھے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ علامہ اقبال موصول ہونے والا کوئی خط بھی سنبھال کر نہیں رکھتے تھے۔ وہ صرف اکبر کے خطوط ہی کو نہ صرف سنبھال کر رکھتے تھے بلکہ  انھیں گاہے گاہے تنہائی میں پڑھا بھی کرتے تھے۔ ہماری خوش نصیبی کہ یہ خطوط جناب زاہد منیر عامر کی رسائی میں آئے، پھر انھوں نے خوب تحقیق و تخریج کا کام کیا، ان خطوط کو مدون کیا، اور آ ان کا مجموعہ ایک خوبصورت کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے لے آئے۔

جناب زاہد منیر عامر دو بلند مرتبت ہستیوں کے ان خطوط تک کیسے پہنچے، یہ ایک دلچسپ داستان ہے اور زیر نظر کتاب میں موجود ہے۔ اس کے بعد خطوط کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اقبال کے نزدیک اکبر الہ آبادی کیا مقام و مرتبہ رکھتے تھے اور ثانی الذکر اول الذکر کو کیوں اس قدر عزیز رکھتے تھے۔

اقبال اکبر کو پیرومرشد کا درجہ دیتے تھے جبکہ اکبر اقبال کو ایسا عزیز دوست سمجھتے تھے کہ جس کا خط نہ آتا تو بے چین ہوجاتے۔ ایسا عزیز دوست جس کی یاد سے راحت ملتی ہے۔

یہ خطوط اکبر الہ آبادی کی زندگی کے آخری دور کے ہیں۔ ان میں جسمانی عوارض، دکھوں اور مصائب کا ذکر ہے۔ کہیں کہیں زندگی سے مایوسی بھی جھلکتی تھی۔ ایسے وقت میں وہ اقبال کو ایک روشن ستارے کے طور پر دیکھ رہے ہیں، ان سے امیدیں باندھتے ہیں اور ایک مربی کی حیثیت سے ان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ جبکہ اقبال بھی اکبر کو پیرو مرشد قرار دیتے ہیں اور ان کے خطوط کو اپنی تنہائی کے ندیم قرار دیتے ہیں۔

یہ ایک سو تینتیس غیر مطبوعہ خطوط بخوبی دونوں شخصیات کے مابین دوستانہ تعلقات و مراسم کو ظاہر کرتے ہیں، اِدھر اکبر الہ آبادی خط لکھتے، اُدھر اقبال جواب لکھنے بیٹھ جاتے۔ حیرت انگیز طور پر آج کی تاریخ میں اکبر خط لکھتے، اسے حوالہ ڈاک کرتے، اگلے روز ہی اقبال کا جواب حوالہ ڈاک ہو رہا ہوتا تھا۔

یہ پہلو جہاں اکبر و اقبال کے مابین جذباتی تعلق ظاہر کرتا ہے، وہاں ایک سو سال پہلے کے ڈاک کے نظام کی تیز رفتاری کا عکاس بھی ہے۔

جناب زاہد منیر عامر نے جس محنت سے اردو نثر کے شاہکار یہ خطوط تلاش کیے، انھیں جمع و تدوین کیا اور پھر منظر عام پر لائے، یہ بذات خود ایک شاندار کارنامہ ہے۔ بقول جناب خورشید رضوی

’ معیاری تحقیق پہاڑ میں سرنگ بنانے جیسا کام ہے جس میں بڑی کوہکنی اور خاراشکنی درکار ہوتی ہے مگر محقق کا اعزاز یہی ہے کہ جس قدر دقت اور محنت وہ خود صرف کرتا ہے، اتنی ہی دوسروں کی زندگی سے بچالیتا ہے۔ یہ تحقیق اس معیار پر پوری اترتی ہے۔‘

 تصور نہیں کیا جاسکتا کہ ’خطوط اکبر بنام اقبال‘ کا یہ مجموعہ اس انداز میں دنیا والوں کے سامنے نہ آتا تو  انسانوں کو  کس قدر خسارے کا سامنا ہوتا۔

انتہائی دیدہ زیب، باوقار ٹائٹل کے ساتھ مجلد صورت میں یہ کتاب شائع کی گئی، اس پر یہ ناشر ادارہ تحسین کا مستحق ہے۔

نام: خطوط اکبر بنام اقبال

تحقیق و تخریج: ڈاکٹر زاہد منیرعامر

قیمت: تین ہزار روپے

ناشر: قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل،

بینک سٹاپ، والٹن روڈ لاہور کینٹ ، رابطہ: 03000515101

(تبصرہ نگار: عبیداللہ عابد)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے