سفر ایران کی ایک دلچسپ داستان
اگلی منزل: ایک انجان سفر کی دستک
رات کا سناٹا تھا، کمرے میں زرد روشنی بکھری ہوئی تھی، اور میں اپنے )تخت ) یعنی بستر پر ایک کھلا ہوا نقشہ پھیلائے بیٹھا تھا— جیسے کسی سمندری ملاح نے اپنا بحری جہاز کنارے لگانے سے پہلے آخری بار ستاروں سے راہنمائی مانگی ہو۔ انگلی نقشے کے کاغذ پر چلتی رہی، پہاڑوں کو پار کرتی، دریاؤں کے کنارے سے گزرتی، صحراؤں میں بھٹکتی رہی، یہاں تک کہ کرمان پر ٹھہر گئی۔ کرمان!
یہ فیصلہ اچانک تھا، کسی منطق یا معلومات کا مرہون منت نہیں تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میں کرمان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا۔ مگر یہی تو اصل سفر ہوتا ہے! بغیر کسی تیاری، بغیر کسی پہلے سے طے شدہ نقشے کے ایک نئی دنیا میں داخل ہونا۔ جیسے کوئی پرندہ کھلی فضا میں پر پھڑپھڑاتا ہے، جیسے کوئی دریا اچانک کسی اجنبی زمین پر اترتا ہے۔ مجھے یہی طریقہ پسند تھا۔ ایک شہر کی خاک چھاننا، اس کے گلی کوچوں میں سرگرداں ہونا، در و دیوار سے اس کی پرانی کہانیاں کشید کرنا۔
بم شہر کا بس ٹرمنل
14 جولائی، 2001، ایک روشن اور خنک صبح میں نے بادلِ ناخواستہ ہوٹل کے چار تختوں یعنی چار بستروں والے کمرے کو خیر باد کہا۔ میں نے ٹیکسی لی اور شہر کی گلیوں سے گزرتا ہوا ایک کشادہ شاہراہ پر آگیا۔ کچھ دور سڑک کنارے ایک منفرد عمارت دکھائی دی، جس کے سامنے ایک وسیع و عریض چھتہ دار پارکنگ تھی۔ یہی بم کا بس ٹرمنل تھا، جسے یہاں ’پایانہ‘ کہا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں پاکستان میں ایسے منظم اور جدید بس اڈے کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے۔ اس کا طرزِ تعمیر کسی حد تک ہمارے لاہور اسلام آباد موٹروے کے ریسٹ ایریاز سے مشابہ تھا۔ کشادہ شیڈ، ہریالی میں گھری عمارت، اور بے داغ صفائی، سب کچھ حیران کن تھا۔
بم شہر کا بس ٹرمنل عام بس اڈوں سے خاصا مختلف تھا ۔ عام بس اڈوں میں ایک عجیب سی ہلچل ہوتی ہے، جو دنیا کے ہر بس اڈے پر سانس لیتی ہے۔ مسافروں کی آوازیں، انجن کی دھمک، اڈے کے کسی کونے میں چائے کے کھولتے برتن، اور ہتھیلی پر چمکنے والے سکے۔ ایک دنیا جس میں ہر کوئی کہیں جانے کی جلدی میں ہے، مگر کوئی یہ نہیں جانتا کہ وہ اصل میں کہاں جا رہا ہے۔
لیکن بم شہر کا بس ٹرمنل کی بات ہی کچھ اور تھی ۔ میں خودکار شیشے کے دروازے سے اندر داخل ہوا، جہاں بے عیب صفائی کا انتظام دیکھ کر یک لحظہ ٹھٹھک گیا۔ یہ منظر کسی حد تک پاکستان میں ڈیوو و ایکسپریس کے ٹرمنلز کی یاد دلاتا تھا۔ سامنے ایک ستون کے ساتھ نصب ٹی وی پر کوئی امریکی فلم فارسی ڈبنگ کے ساتھ چل رہی تھی۔ ایران کے بارے میں جو سن رکھا تھا کہ وہاں سخت قدامت پسندی کا راج ہے، وہ سب کچھ لمحے بھر میں کافور ہوگیا۔ جہاں میڈیا میں ’مرگ بر امریکا‘ کی صدائیں سننے کو ملتیں، وہیں اس ٹرمنل میں امریکی فلمی ثقافت کو یوں پذیرائی مل رہی تھی، جیسے یہ کوئی غیرمعمولی بات نہ ہو۔ یہی نہیں، ٹی وی پر موسیقی اور گانے بھی نشر ہو رہے تھے، جو اس امر کا اعلان تھے کہ ایران میں فنونِ لطیفہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔
مسافر بھی خاصے مختلف تھے۔میں نے اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے شیشے کی دیوار کے پار دیکھا کہ ایک بس آئی، اور سوار ہونے کا وقت آیا، تو میرے ساتھ چڑھنے والی چند خواتین لمبی اسکرٹس پہنے ہوئے تھیں۔ سر پر اسکارف ضرور تھا، مگر ان کی پنڈلیاں نمایاں تھیں۔ غالباً وہ پارسی یا زرتشتی تھیں، جن کی اکثریت کرمان اور یزد میں مقیم ہے۔ لمحے بھر میں احساس ہوا کہ میں بلوچستان و سیستان کے قدامت پرستانہ ماحول سے نکل کر ایک جدید، نسبتاً کھلے معاشرتی رنگ میں داخل ہوگیا ہوں۔ یہ اس امر کا غماز تھا کہ ایران میں اقلیتوں کو جینے کی آزادی میسر ہے۔
اس طائرانہ نظارے کے بعد، میں اپنی اسٹیل کی نشست سے اطمینان سے اٹھا اور کاؤنٹر جا پہنچا۔ میں نے ایک پرانا، تھکا ماندہ سا نوٹ نکالا، جو شاید پہلے ہی کئی مسافروں کی جیبوں میں کچھ وقت گزار چکا تھا۔ کاؤنٹر پر کھڑکی کے دوسری جانب ایک خوش شکل ایرانی نوجوان نے بڑی خوش اخلاقی سے پوچھا:
’کجا میروید؟‘ یعنی ’آپ کہا ں جارہے ہیں؟‘
میں نے جواب دیا، ’کرمان جانا چاہتا ہوں۔‘
اس نے گردن تھوڑی ترچھی کی، جیسے میں کسی مشکوک سامان کے ساتھ بس میں سوار ہونے کی ضد کر رہا ہوں، اور سوال داغ دیا، ’ آخر کرمان ہی کیوں؟‘
اب میرے پاس اس سوال کا کوئی معقول، فلسفیانہ یا جغرافیائی جواب نہیں تھا۔ میں نے کندھے اچکائے اور ایک نیم مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’بس ایسے ہی۔ دل نے چاہا۔‘
اُس نے پاس پڑی ٹکٹ بک کرنے والی مشین کے بٹن دباتے ہوئے جیسے تاریخ کا دروازہ کھول دیا۔
‘می دانید؟ یعنی ‘کیا آپ جانتے ہیں؟‘کرمان، اہل سنت کا گڑھ رہا ہے۔ بہت پرانا شہر ہے۔ لیکن جب صفویوں نے حکومت سنبھالی، تو تشیع کو ایران کا سرکاری مذہب بنا دیا۔‘
میں نے چونک کر پوچھا، ’واقعی؟ تم تو جیسے ٹکٹ کلرک کم اور تاریخ کے پروفیسر زیادہ لگتے ہو۔‘
اس نے ہنس کر کہا، ’یہاں ہر شخص تھوڑا بہت تاریخ دان ہے۔ شاہ اسماعیل صفوی نے 1501میں شیعہ مذہب کو ریاستی مذہب بنایا۔ کرمان میں لوگ سنی تھے، پر صفویوں نے زور زبردستی کی، علماء کو جلاوطن کیا، کچھ کو خاموش کروا دیا۔ پھر آہستہ آہستہ تشیع عام ہو گئی۔‘
اُس نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’کرمان فقط پستہ، قالین اور قلعہ ہی نہیں… یہ ایک مذہبی داستان کا زخمی باب بھی ہے۔‘
میں نے چونک کر پوچھا، ’زخمی باب؟‘
وہ بولا، ‘ہاں آغا، صفویوں کے زمانے میں کرمان اہلِ سنت کا قلعہ تھا۔ یہاں کے علماء نے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا۔ مولانا عبدالغنی کرمانی جیسے بزرگ تھے، جنہوں نے صفوی یلغار کے خلاف زبان کھولی۔‘
میں نے گردن ہلائی، گو کہ اعتراف تھا کہ میں اُن کے نام سے پہلی بار متعارف ہو رہا ہوں۔ میری لاعلمی پر اُس نے کوئی طنز نہیں کیا، بلکہ بات آگے بڑھا دی جیسے کوئی پیر، اپنے مرید کو شرمندہ کیے بغیر سچ بتاتا ہے۔
‘اور جانتے ہیں؟ میرزا قوامالدین — ایک سیاسی عالم، جنہوں نے صفوی تسلط کے خلاف نہ صرف فتویٰ دیا بلکہ عوامی مزاحمت کی قیادت بھی کی۔ لیکن نتیجہ؟ زندان اور زہر کا پیالہ۔‘
میں نے آہستہ سے کہا، ‘اور باقی؟‘
باقی یا تو ہجرت کر گئے، یا شہید ہو گئے۔ کچھ نے کرمان کے نواح میں’ خفیہ مدارس قائم کیے۔ جیسے آج کل لوگ اپنے خیالات ای میل کے ذریعے پھیلاتے ہیں، تب وہ علم پُراسرار شاگردوں کے ذریعے آگے بڑھاتے تھے۔‘
میں ہنس پڑا، ‘تو گویا آج کے ای میلرز، اُس دور کے فقیہ تھے؟‘
وہ بھی ہنسا، ‘نہیں آغا، وہ لوگ علم بانٹتے تھے، spam نہیں کرتے تھے۔‘
میں نے نوٹ آگے بڑھایا، ’تو اب بھی کچھ سنی باقی ہیں؟‘
وہ مسکرایا، ‘ہیں، بالکل۔ کچھ دیہی علاقوں میں۔ مگر کرمان اب مذہبی لحاظ سے کافی پُرامن ہے۔ آثارِ قدیمہ سے لے کر اہلِ تشیع کے مزارات تک، سب کچھ ہے وہاں۔ تم جاؤ گے، تو تاریخ تمہیں قدم قدم پر جھپکیاں دے گی۔‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا، ‘بس تاریخ مجھے جھپکیاں دے، تھپڑ نہ مارے۔‘
میں نے نوٹ آگے بڑھایا، ‘چلو خیر ہے، میرا علم محدود سہی، کرمان کی خاک کچھ سکھا دے شاید۔‘
اس نے ٹکٹ نکال کر میرے ہاتھ میں دیا، ‘فیروزی رنگ کی بس ہے، زیادہ چمک دمک نہیں، لیکن سادگی ہے اس میں… جیسے کسی شہید کی کفن میں لپٹی روح ہو۔‘
میں نے جیب میں ٹکٹ ٹھونس کر کہا، ‘تو پھر یہی سادگی میرا سفرنامہ بنے گی۔‘
کچھ دیر میں اسپیکر پر فارسی میں اعلان ہوا — ‘بسِ کرمان رسید‘—یعنی‘کرمان کی بس آچکی ہے،‘ اور شیشے کی دیوار کے پار مجھے ایک فیروزی رنگ کی مرسے ڈیز بنز کمپنی کی بس دکھائی دی، جیسے کسی قدیم مسجد کی محراب پر چڑھا نیلا رنگ، جس پر وقت نے گرد کی بجائے وقار کی تہہ چڑھا دی ہو۔
اچانک وہی نوجوان کاؤنٹر سے نکل کر بلند آواز میں بولا:
‘آغای ہاشمی! آغای ہاشمی! بسِ شما آمد! بفرمایید، سوار شوید!‘ یعنی ‘جناب ہاشمی صاحب، ہاشمی صاحب، آپ کی بس آچکی ہے۔ براہ مہربانی بس میں تشریف لے جائیے۔‘
میں نے مسکرا کر اسے الوداعی ہاتھ ہلایا، اور دل ہی دل میں سوچا — یہ فیروزی بس شاید مجھے کرمان لے جائے، لیکن میں بم میں جو سن چکا، وہ میرے اندر کہیں پیوست ہو چکا ہے۔ کچھ علم، کچھ درد، اور کچھ تاریخ… جو اب میرے سفرنامے میں نہیں، میرے لہجے میں ہو گا۔
بس کی کھڑکی کے پاس بیٹھتے ہی سفر شروع ہوگیا، لیکن اصل سفر سڑکوں پر نہیں، بلکہ مسافروں کے درمیان ہوتا ہے۔صبح کے دھیان بھٹکاتے لمحے، نرم دھوپ شیشے کی وسیع کھڑکیوں سے اندر اتر رہی تھی۔ ہال میں چند ہی مسافر تھے۔ بس آئی تو ٹکٹ چیک کرنے والے نے نہایت مہذب انداز میں فارسی میں خوش آمدید کہا اور خواتین کو پہلے سوار کرایا۔ بس کوئی نئی نویلی دلہن کی طرح چمکدار تو نہ تھی، مگر کشادہ اور آرام دہ ضرور تھی۔ ایئرکنڈیشنڈ، چوڑے شیشے، اور مسافروں کے احترام کی جھلک ہر چیز میں نمایاں۔
بس کی گزرگاہ میں ہر چند سیٹوں کے بعد ایک کالی پلاسٹک کی بالٹی جھول رہی تھی، جس کا مقصد کوڑا کرکٹ سمیٹنا تھا۔ بچے کھاتے جاتے اور باقیات ان بالٹیوں میں ڈال دیتے۔ پاکستانی عادت سے اس کا موازنہ کیا تو دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ ہمیں گندگی پھیلانے میں مہارت حاصل ہے، صفائی کا شعور نجانے کب آئے گا۔
بس روانہ ہوئی، تو میں نے کھڑکی سے باہر جھانکا۔ یک رویہ مگر بہترین سڑک، جس پر سامنے سے آتی بس کے گزرنے کے لیے ہمیں کنارے نہیں لگنا پڑتا تھا، جیسے کوئٹہ سے تفتان کے سفر میں ہوتا ہے۔ دونوں جانب خشک، سنجیدہ پہاڑ ایستادہ تھے، جیسے کوئی خاموش نگران ہوں۔ یہ منظر بلوچستان کے پشتون علاقوں کی یاد دلاتا تھا، جہاں سبزہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
بس کے اندر خاموشی تھی، کوئی موسیقی نہیں۔ کنڈکٹر بھی ندارد۔ یہ بس زاہدان سے تہران جا رہی تھی، مگر میں نے بم سے کرمان تک کا سفر ہی مقصود رکھا تھا۔ بس رواں دواں تھی، اور میں ایک نئے ایران کو دیکھنے، سمجھنے، اور محسوس کرنے میں محو تھا۔
یوں، یہ سفر محض کرمان کی طرف نہیں تھا، بلکہ ایک جہانِ دیگر کی طرف تھا— ایک ایسی دنیا جو راستوں میں بچھے ہوئے واقعات، اجنبیوں کی باتوں، اور اچانک کھلنے والے دروازوں میں بسی رہتی ہے۔
تبصرہ کریں