سحر امامی ایک معروف ایرانی نیوز اینکر ہیں جنہوں نے حالیہ اسرائیلی حملے کے دوران اپنی پیشہ ورانہ وابستگی اور حوصلے سے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی۔ تہران میں اسرائیلی فضائی حملے کے دوران، جب ایرانی سرکاری ٹی وی کا ہیڈکوارٹر نشانہ بنا، سحر امامی براہِ راست نشریات پیش کررہی تھیں۔ اس واقعے میں وہ دھماکے کے باوجود کچھ دیر تک کیمرے کے سامنے رہیں، جو ان کی پیشہ ورانہ وابستگی اور بہادری کی مثال ہے۔
سحر امامی کا پس منظر
- پیدائش: 1985، تہران، ایران
- تعلیم: زرعی (فوڈ) انجینیئرنگ میں ڈگری حاصل کی
- میڈیا کیریئر کا آغاز: 2010 میں کیا
- زبان: عربی زبان میں خبریں پڑھتی ہیں
- لباس: حجاب ان کی پیشہ ورانہ شناخت کا حصہ ہے
- خصوصیات:
- باوقار اندازِ گفتگو
- فصیح عربی
- سنجیدہ اور متوازن اندازِ پیشکش
- کئی اہم ٹی وی پروگرامز کی میزبانی کر چکی ہیں
واقعے کا پس منظر
اسرائیلی فضائی حملے کے دوران جب ایرانی سرکاری ٹی وی کی عمارت پر میزائل گرا، اسٹوڈیو لرز اٹھا، اور کیمرے کے سامنے مٹی اور دھواں پھیل گیا۔ اس وقت سحر امامی لائیو بلیٹن پڑھ رہی تھیں اور حملے کی شدت کے باوجود انہوں نے فوری طور پر ہوش مندی کا مظاہرہ کیا۔ چند لمحوں کی منقطع نشریات کے بعد، ٹی وی اسٹیشن نے دوبارہ نشریات بحال کیں اور سحر امامی دوبارہ اسکرین پر آئیں، جو ان کے حوصلے اور پیشہ ورانہ وابستگی کی علامت ہے۔

موجودہ حیثیت
حملے کے بعد نیوز روم کی جزوی بحالی کے ساتھ سحر امامی نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی ہیں، اور یہ عمل ان کی قربانی، پیشہ ورانہ عزم اور عوامی اعتماد کی جھلک ہے۔
سن دو ہزار آٹھ میں بطور نیوز اینکر اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی سحر امامی اب شادی شدہ اور ایک بیٹے کی والدہ ہیں۔ وہ آج صرف ایک نیوز اینکر نہیں بلکہ ایرانی میڈیا کی جرات و استقلال کی علامت بن چکی ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز ایران کے سرکاری ٹی وی کی عمارت پر اسرائیل کے اس میزائل حملہ میں زخمی ہونے والوں میں تین میڈیا ورکرز شہید ہوچکے ہیں جن میں 2 خواتین بھی شامل ہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ کے مطابق تہران میں واقع ایرانی نشریاتی ادارے پر اسرائیل کے فضائی حملے میں شہید ہونے والے افراد کی شناخت کر لی گئی ہے۔ جن میں شامل دو خواتین میں سے ایک نیما رجب پور ہیں جو نیوز ایڈیٹر تھیں۔ وہ ایران کے سرکاری میڈیا میں گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ سے خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ دوسری معصومہ عظیمی تھیں۔ وہ بھی نشریاتی ادارے کے اسٹاف کا حصہ تھیں۔ اور وہ اہم داخلی امور کی نگران تھیں۔
تبصرہ کریں