مشرقِ وسطیٰ ہمیشہ سے عالمی سیاست، توانائی کی معیشت اور نظریاتی تقسیم کا مرکز رہا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی نئی نہیں، مگر حالیہ ہفتوں میں حالات جس شدت سے بگڑے ہیں، وہ ایک بڑے علاقائی تصادم کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور پر اگر امریکا نے اسرائیل کا ساتھ دیتے ہوئے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی۔
پس منظر
ایران برسوں سے فلسطینی مزاحمتی گروہوں مثلاً حماس اور حزب اللہ کی عسکری مدد کرتا آیا ہے، جب کہ اسرائیل اسے براہ راست اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ دوسری جانب، اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں ایران کے جوہری اور عسکری انفراسٹرکچر پر خفیہ و براہ راست حملے کیے۔ ایران نے ان حملوں کے جواب میں اسرائیل پر بیلسٹک میزائل داغے، جو کہ غیر معمولی اقدام تھا۔ یہ سب ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکا، اسرائیل کا سب سے قریبی اتحادی، دباؤ کا شکار ہے کہ وہ اس کشیدگی میں کھل کر حصہ لے۔
امریکی شمولیت: امکانات اور محرکات
امریکا کی شمولیت کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کی لابنگ، اور ایران کے مبینہ جوہری عزائم کے خلاف پیش بندی کا تقاضا امریکی پالیسی سازوں کو مجبور کر رہا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق، امریکا نے خطے میں ’ہائی الرٹ‘ جاری کر دیا ہے، ری فیولنگ طیارے تعینات کیے ہیں، اور نیوکلیئر تنصیبات پر حملے کی منصوبہ بندی بھی زیرِ غور ہے۔
اگر امریکا نے فوجی طور پر مداخلت کی، تو یہ فیصلہ صرف ایران کے خلاف نہیں ہوگا، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو سکتا ہے۔
ایران اور اتحادیوں کا ممکنہ ردعمل
ایران نے واضح پیغام دیا ہے کہ اگر امریکا حملے میں شریک ہوا، تو عراق، شام، بحرین، قطر، اور متحدہ عرب امارات میں موجود امریکی اڈے براہِ راست نشانہ بنیں گے۔ ایران کی عسکری پوزیشننگ — بشمول میزائل بیسز، ڈرون نیٹ ورک اور علاقائی ملیشیائیں — ایک متوازی جنگی محاذ کھولنے کے لیے تیار ہے۔
ایران کے اتحادی — جیسے حوثی ملیشیا، حزب اللہ، حشد الشعبی — مختلف محاذوں پر حملے کر سکتے ہیں:
بحر احمر میں جہاز رانی متاثر ہو سکتی ہے۔
آبنائے ہرمز کو بند کیا جا سکتا ہے۔
اسرائیل پر راکٹ و میزائل حملے بڑھ سکتے ہیں۔
عالمی سطح پر ممکنہ اثرات
1. عالمی توانائی بحران
آبنائے ہرمز کی بندش سے دنیا کی تیل کی ترسیل کا 20-30% متاثر ہوگا، جو فوری طور پر عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھا دے گا۔
2. معاشی غیر یقینی صورتحال
اسٹاک مارکیٹس، خاص طور پر نیویارک، لندن، اور ٹوکیو، شدید دباؤ کا شکار ہوں گی۔ سرمایہ کار دفاعی شعبوں کی طرف منتقل ہوں گے۔
3. عالمی طاقتوں کا ردعمل
چین اور روس ایران کے خلاف کسی امریکی کارروائی کی مخالفت کریں گے۔
یورپی یونین جنگ سے بچنے کے لیے سفارتی کوششوں میں تیزی لائے گی۔
ترکی اور پاکستان جیسی ریاستوں کے بیانات اور موقف بھی عالمی منظرنامے پر اثرانداز ہوں گے۔
جوہری ہتھیاروں کا خطرہ
ایرانی جوہری پروگرام ایک بار پھر مرکزِ بحث ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کا محرک مل سکتا ہے — ایک ایسا اقدام جو مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ کو جنم دے گا۔
آنے والے کل کی دھند
صورتحال اس وقت ایک انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ اگر امریکا براہ راست جنگ میں شامل ہوتا ہے، تو ایران اور اس کے اتحادی ردعمل میں علاقائی جنگ چھیڑ سکتے ہیں۔ یہ صرف فوجی نہیں، بلکہ معاشی، سیاسی، اور تزویراتی (geostrategic) سطح پر عالمی نظام کو متاثر کرے گی۔
جنگیں فیصلہ کن ضرور ہوتی ہیں، لیکن نتائج اکثر وہ نہیں ہوتے جن کی خواہش کی جاتی ہے۔ اس وقت دنیا کے رہنماؤں، خاص طور پر واشنگٹن، تہران، اور تل ابیب میں، بردباری، دور اندیشی اور سفارت کاری کی سخت ضرورت ہے۔
عالمی برادری کو فوری طور پر جنگ بندی کی اپیل کرنی چاہیے۔
اقوام متحدہ کو ایک غیر جانب دار تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو اس کشیدگی کی وجوہات اور ممکنہ حل پیش کرے۔
اسلامی دنیا میں اتفاق رائے قائم کرنا ہوگا کہ مسئلے کو فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر ایک انسانی مسئلے کے طور پر دیکھا جائے۔
تبصرہ کریں