کینسر دنیا بھر میں موت کی ایک بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے، اور پاکستان میں بھی یہ ایک تیزی سے پھیلتا ہوا مرض ہے۔ اس مہلک بیماری کی شدت، شرح اموات، اور پیچیدہ علاج نے نہ صرف مریضوں بلکہ ان کے خاندانوں کو بھی ذہنی، جسمانی اور مالی بحرانوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اس مضمون میں ہم پاکستان میں کینسر کی موجودہ صورت حال، اسباب، عوامی احتیاطی تدابیر، اور حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے۔
پاکستان میں کینسر کی صورتِ حال
آغا خان یونیورسٹی کی مرتبہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ پچاسی ہزار (185,000) افراد کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں، جبکہ نیشنل کینسر رجسٹری آف پاکستان کی حالیہ مرتبہ رپورٹ کے مطابق اندازاً سوا لاکھ (125,000) کے قریب لوگ اس مرض کے باعث جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
خبردار ! سافٹ ڈرنکس کا نتیجہ ہوتا ہے معدے اور آنتوں کا سرطان ( کینسر )
کینسر کی علامات، وجوہات اور علاج
کیا آپ ہرقسم کے کینسر سے محفوظ رہناچاہتے ہیں؟
عورتوں میں چھاتی کا کینسر سب سے عام ہے، جبکہ مردوں میں منہ، پھیپھڑوں، اور جگر کا کینسر زیادہ دیکھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اکثر مریض اس وقت علاج کے لیے رجوع کرتے ہیں جب بیماری اپنے آخری مراحل میں ہوتی ہے، جس سے علاج کی کامیابی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
کینسر کے اسباب (پاکستان کے تناظر میں)
پاکستان میں کینسر کے بڑھنے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے اہم درج ذیل ہیں:
- تمباکو نوشی اور نسوار کا استعمال: سگریٹ، گٹکا، نسوار اور پان کے استعمال سے منہ، گلے، اور پھیپھڑوں کا کینسر عام ہوتا جا رہا ہے۔
- غیر صحت مند خوراک: پراسیسڈ فوڈ، چکنائی سے بھرپور اشیاء اور آلودہ پانی کا استعمال بھی کینسر کے خطرات کو بڑھاتا ہے۔
- ماحولیاتی آلودگی: صنعتی فضلہ اور آلودہ پانی، خاص طور پر شہری علاقوں میں، ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔
- وائرس اور انفیکشنز: ہیپاٹائٹس بی اور سی، اور HPV جیسے وائرس بھی کینسر کے اہم اسباب ہیں۔
- شعور اور تعلیم کی کمی: عوام کی اکثریت کینسر کی ابتدائی علامات اور اسکریننگ کی اہمیت سے لاعلم ہے۔
عوامی سطح پر کرنے کے کام
کینسر سے بچاؤ اور اس کا بروقت علاج عوامی سطح پر چند بنیادی اقدامات کے ذریعے ممکن ہے:
آگاہی پیدا کرنا: لوگوں کو کینسر کی علامات، اسباب اور علاج کے بارے میں شعور دینا انتہائی ضروری ہے۔
تمباکو نوشی سے اجتناب: سگریٹ، نسوار، گٹکا، اور حقہ جیسی اشیاء کا استعمال ترک کرنا چاہیے۔
باقاعدہ طبی معائنہ: خاص طور پر خواتین کو چھاتی کے کینسر کی اسکریننگ کرانی چاہیے۔
صحت مند طرزِ زندگی اپنانا: متوازن غذا، ورزش، نیند اور ذہنی سکون کینسر سے بچاؤ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
ویکسینیشن: HPV اور ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین مہلک وائرس سے بچاؤ فراہم کرتی ہے۔
حکومت کی ذمہ داریاں اور ضروری پالیسیاں
کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ موثر اور دیرپا پالیسی سازی کرے:
- قومی سطح پر آگاہی مہمات: میڈیا، اسکولوں، اور کمیونٹی سینٹرز میں معلوماتی مہمات چلائی جائیں۔
- کینسر رجسٹری قائم کرنا: ایک جامع ڈیٹا بیس بنایا جائے تاکہ مرض کی شدت اور اقسام کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔
- سرکاری اسپتالوں میں مفت یا سبسڈی شدہ علاج: غریب اور متوسط طبقے کے لیے سستا اور معیاری علاج مہیا کیا جائے۔
- ہر ضلع میں اسکریننگ سینٹرز کا قیام: خاص طور پر دیہی علاقوں میں بنیادی طبی سہولیات مہیا کی جائیں۔
- انسدادِ تمباکو پالیسی: تمباکو مصنوعات پر سخت پابندیاں اور بھاری ٹیکس عائد کیے جائیں۔
- تحقیق اور تربیت کا فروغ: مقامی سطح پر تحقیق کو فروغ دیا جائے اور ماہر طبی عملے کی تربیت کی جائے۔
حاصل کلام
کینسر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے صرف طبی میدان میں نہیں، بلکہ معاشرتی اور حکومتی سطح پر بھی بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر عوام اور حکومت مل کر اس بیماری کے خلاف مؤثر اقدامات کریں، تو نہ صرف اس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکتا ہے بلکہ ہزاروں قیمتی جانوں کو بھی بچایا جا سکتا ہے۔
آگاہی، احتیاط، اور بروقت علاج ہی کینسر کے خلاف سب سے مؤثر ہتھیار ہیں۔
تبصرہ کریں